اپنے پرتپاک ماضی کی طرح کیا پیپلزپارٹی اپنا سیاسی مقدر دوبارہ چمکا سکتی ہے؟ 40 سال سے زائد عرصے تک قومی سیاست میں اس کا ڈنکا بجا اور اسے چاروں صوبوں میں حمایت حاصل تھی جبکہ اس کے قائدین کے دعووٴں کے مطابق یہ ملک کی واحد وفاقی جماعت گردانی گئی۔ لیکن مئی 2013ء کے انتخابات نے پیپلزپارٹی کو علاقائی جماعت کی حد تک محدود کردیا۔ اس سے سوال پیدا کہ آیاپیپلزپارٹی قومی پارٹی کے طور پر میعادی زوال سے گزررہی ہے، دیہی سندھ تک حمایت محدود ہونے کے بعد کیا اس جماعت کا دوبارہ عروج ہوسکتا ہے؟
ان سوالات کا سامنا کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے حمایتی، جماعت کی 1997ء کی شکست کی جانب نشاندہی کرتے ہوئے دلیل دیتے ہیں کہ شکست کھانے کے باوجود پیپلزپارٹی کی اقتدار میں واپسی ہوئی تھی۔ پیپلزپارٹی نے 1997ء میں 2013ء کے انتخابات سے بھی بدتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا، جس نے 11مئی کو 33 جبکہ 1997ء میں محض 18 نشستیں ہی جیتی تھیں۔ پیپلزپارٹی کے وفاداروں کا دعویٰ ہے کہ پیپلزپارٹی کی قومی روشناسی کو نقصان نہیں پہنچا جس سے اقتدار میں اس کی واپسی برقت ہوگی۔
لیکن یہاں چار اہم اختلافات جماعت کے مستقبل کے لئے نتیجہ خیز ہیں جو کہ حال کو 1997ء سے جدا کرتے ہیں۔ اول، بے نظیر بھٹو کی کرشماتی قیادت جنہوں نے جماعت کو دوبارہ اقتدار دلایا۔ دوم، ایک تیسری سیاسی قوت تحریک انصاف سہ فریقی سیاسی مقابلے کیلئے ابھر کر سامنے آچکی ہے۔سوم، پیپلزپارٹی کی جانب سے اقتدار کی مدت مکمل کرنے سے ان کے مظلومی کے نعرے برہنہ ہوگئے ہیں جس کی وساطت سے وہ ہمدری اور حمایت سمیٹا کرتی تھی۔ چہارم، پیپلزپارٹی فوجی حکومت کے خلاف کردار کی وجہ سے کامیاب ہوئی، اب جبکہ ملک جمہوری استحکام کی راہ پر گامزن ہے تو پیپلزپارٹی کو عوامی حمایت کے حصول کیلئے ایک اور مقصد یا پیغام تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ پارٹی کے مستقبل کے حوالے سے کوئی بھی جائزہ پارٹی کی انتخابی صورتحال کے تحت کرنا ہوگا، 11مئی کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کے ووٹ میں تاریخی کمی واقع ہوئی، 1970ء سے1990ء کی دہائی تک اور 2008ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کے ووٹ کی شرح غیر معمولی طور پر 35 فیصد رہی۔ لمبے فوجی ادوار کے بعد 1970ء اور 1988ء میں ہونے والے انتخابات میں پیپلزپارٹی کے ووٹ کی شرح 39 فیصد کی بلند ترین سطح پر رہی۔ 1997ء میں اس کے ووٹ کی شرح 22 فیصد تک کم ہو گئی، پیپلزپارٹی کی کارکردگی سے خائف اس کے ووٹرز نے کسی دوسری جماعت کو ووٹ دینے کے بجائے گھر پر بیٹھنے کو ترجیح دی۔
2013ء میں پیپلزپارٹی کے ووٹ کی شرح 15فیصد کی کم ترین سطح پر آگئی۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ تحریک انصاف نے قومی سطح پر18 فیصد ووٹ لے کر پیپلزپارٹی کو پیچھے چھوڑکر دوسری پوزیشن حاصل کرلی۔ ایسی صورتحال کا سامنا پیپلزپارٹی نے اس سے قبل کبھی نہیں کیا تھا، اس کے سندھ میں علاقائی ووٹ نے قومی اسمبلی میں اسے تحریک انصاف سے زیادہ نشستیں دلائیں لیکن ووٹ کی اصطلاح میں پیپلزپارٹی کا ملک کی دوسری بڑی جماعت ہونے کا مقام کھو دینا پاکستانی سیاست میں تبدیلی اور نئی صف بندی کی نشاندہی کرتا ہے جبکہ ماضی میں کئی عرصے سے انتخاب کنندگان مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی میں منقسم تھے۔پیپلزپارٹی کو نصف سے زائد ووٹ اس کے روایتی گڑھ سندھ میں ملے جہاں اس کے لئے جیتنا آسان تھا لیکن پنجاب میں پارٹی کا صفایا ہوگیا جہاں سے اسے محض 10 فیصد ووٹ ملے جبکہ 2008ء کے انتخابات میں اسے یہاں سے 29 فیصد ووٹ ملے تھے۔ ووٹرز کی مجموعی شرح میں اضافے، پیپلزپارٹی کے ووٹ کی شرح میں کمی اور تحریک انصاف کے ووٹ کی شرح میں اضافے سے لگتا ہے کہ پیپلزپارٹی کے کئی حمایتیوں نے پہلی مرتبہ تحریک انصاف سے اپنی وفاداریاں تبدیل کیں۔تاریخی طور پر پیپلزپارٹی نے پنجاب کے زیادہ ترقی یافتہ شہری علاقوں میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا جبکہ اس کے برخلاف سندھ میں اس کی حمایت کا منبع دیہی علاقوں کے جاگیرداروں کے اثرورسوخ والے حلقے اور اہم شخصیات رہیں۔ مئی میں پیپلزپارٹی کو وسطی اور شمالی پنجاب میں شکست ہوئی اس نے بمشکل8 فیصد ووٹ حاصل کیے جبکہ اس کے مقابلے میں تحریک انصاف نے20 اور مسلم لیگ ن نے50فیصد ووٹ حاصل کئے۔ جنوبی پنجاب میں جہاں پیپلزپارٹی کے قائدین کا خیال تھا کہ پارٹی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی وہاں بھی اس کی کارکردگی حوصلہ افزا نہ رہی اور یہ مسلم لیگ ن سے کہیں پیچھے بلکہ تحریک انصاف سے بھی پیچھے رہ گئی۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی سندھ کے علاوہ ہر جگہ سے اپنی مقبولیت کھوچکی ہے، پارٹی کی دیہی علاقوں میں حمایت کے حصول کیلئے حکومت کی جانب سے زراعت کے لئے گراں نرخوں کی اور غریبوں کی مالی امداد کی حکمت عملی سندھ کے علاوہ کہیں کارگر ثابت نہ ہوسکی۔اس حکمت عملی میں پنجاب کے شہری علاقوں کی بڑھتی ہوئی حقیقت کو نظر انداز کیا گیا۔ آبادیاتی تبدیلیوں نے کس طرح سیاسی منظر نامے کو مرتب کیا اسے سمجھنے میں ناکامی اور پاکستان کے شہری علاقوں سے مطابقت اختیار کرنے میں ناکامی نے پارٹی کی شکست میں حصہ ڈالا۔ یہاں اس کے مستقبل کے حوالے سے ایک سوال کھڑا ہوتا ہے کہ کس طرح ایک پسماندہ سوچ اور دیہی علاقوں پر توجہ مرکوز رکھنے والی پارٹی بدلتے ہوئے پاکستان میں اپنی صورتحال میں تبدیلی لائے گی؟ پارٹی قائدین کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ پیپلزپارٹی کو شناخت کے بحران کا سامنا ہے، جتنا صدر آصف زرداری کی پارٹی کی قیادت کرنا نتیجہ خیز ہے اتنے ہی دوسرے عوامل بھی ہیں۔ گزشتہ 5 سالوں میں زرداری نے پیپلزپارٹی کے چہرے میں اہم تبدیلیاں کی ہیں، پارٹی کا چہرہ معزز قائدین کی جگہ ایسے لوگوں سے بدلنے سے تبدیل ہوا جن سے پارٹی کارکنان اپنا کوئی تعلق سمجھتے تھے نہ ہی ان کی پارٹی کے ساتھ دیرینہ وابستگی تھی۔
گزشتہ 5 سالوں میں طاقت سے پر گرفت مضبوط رکھنا عوامی ایجنڈا اختیار کرنے پر حاوی رہا، کسی پروگرام کو سہارا نہ دیا گیا اور پیپلزپارٹی نے اپنی سمت کھودی۔ حکومت چلانے کیلئے معدوم سی قیادت کا انتخاب کیا گیا جو کہ پیپلزپارٹی کی تباہی اور پارٹی کے اسکینڈلز سے آلودہ دورِ اقتدار کا باعث بنا۔ یہاں تک سخت جان حمایتیوں کو بھی اس کی کارکردگی کا دفاع کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑا۔پارٹی کے پیغام کو مبہم اور نامکمل کہا جاسکتا ہے خاص طور پر سیاسی مصلحت نے اصولوں اور دلائل کو دفن کردیا۔ اس کے نعرے اور عمل ماضی کے گرد گھومتے تھے جس میں مستقبل کیلئے کوئی ایجنڈا ترتیب دینے کی سعی نظر نہ آتی تھی، پارٹی کی مسائل کی فہرست سے مبرا انتخابی مہم میں اس کی مزید وضاحت ہوئی۔ اس میں محض ماضی کو اور پیپلزپارٹی کے شہداء کو پیش کیا گیا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پارٹی کے پاس اس کے علاوہ پیش کرنے کو کچھ اور نہیں تھا۔ پیپلزپارٹی محروم طبقے کی آواز ہونے کی ملکیت کی دعویدار ہے لیکن بے نظیر کے بعد آنے والی قیادت نے اس عکس کو تہ و بالا کردیا جس نے اہم عہدیداروں کو خود سے قریب رکھا اور نچلی سطح پر کارکنان سے تعلق کمزور کیا۔ درباری تمدن کے نفاذ سے پارٹی کا عوامی مزاج مجروح ہوا۔ ایک وقت تھا کہ جب پیپلزپارٹی کا نعرہ تبدیلی تھا لیکن 11مئی کی انتخابی مہم میں پیپلزپارٹی یہ سمجھانے سے قاصر تھی کہ وہ کس چیز کیلئے برسرپیکار ہے۔ سماجی مسائل پر پارٹی کا لبرل تاثر قائم کرنے کیلئے کئے جانے والے دعوے اس کے اقدامات سے میل نہیں کھاتے تھے۔
پیپلزپارٹی کی تقدیر کی تنزلی کا زیادہ تعلق موروثی اور خاندانی سیاست سے ہے،دو یا تین نسلوں سے اس کے قائدین بھٹو کی روایات کے جانشین بننے کے دعویدار ہیں انہیں پارٹی میں اپنے کردار سے قیادت حاصل کرنا ہوگی نہ کہ محض خاندانی نام سے۔ صرف وراثت کے بل بوتے پر لگائے جانے والے نعروں کا انجام انتخابات میں واضح تھا۔ بے مثال چیلنجز کے دور میں عوام اپنی مرضی کی پارٹی سے بھی ملک کے بدترین مسائل کا حل پیش کرنے کی توقع رکھتے ہیں، موروثیت کی پناہ تلاش کرنا اب کافی نہیں رہا۔ مسائل کا حل پیش کرنے کے زمرے میں بھی پیپلزپارٹی بے سمت نظر آئی جبکہ پارٹی پالیسی مرتب کرنے کیلئے خیالات اور عقلی صلاحیت سے بھی بے بہرہ نظر آئی۔کئی عوامل پیپلزپارٹی کے مستقبل پر اثرانداز ہوں گے، جس میں مسلم لیگ ن کی موثر طرز حکمرانی اور پاکستان کے چیلنجز کا قابل اعتبار طریق سے حل کرنے کی اہلیت، عمران خان کس طرح مرکز میں حزب اختلاف اور صوبے میں حکومت چلاتا ہے، پارٹی کے مستقبل کے امکانات ملکی سیاست کے نشیب و فراز پر بھی منحصر ہیں لیکن سب سے زیادہ اہم یہ ہے کہ کس طرح پیپلزپارٹی خود کو منواتی ہے۔پارٹی کو شناخت، قیادت، مقصد اور ازسرنو تشکیل کے بنیادی مسائل حل کرنا پڑیں گے، اس کے پاس قومی اسمبلی میں کم نشستوں کے باوجود حزب اختلاف کی قیادت کا اب بھی اچھا موقع ہے، اسے تحریک انصاف پر وسیع پارلیمانی تجربے کا طرّہ امتیاز حاصل ہے، سندھ کو چلانے کے ضمن میں اس کے پاس یہ دکھانے کا موقع ہے کہ پیپلزپارٹی اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ سکتی ہے، بشرط یہ کہ صوبائی قیادت اس کی معاونت کرے۔ لیکن اگر پیپلزپارٹی نے نئی حقیقتوں کو تسلیم نہیں کیا اور ان کے مطابق خود کو نہ ڈھالا اور اپنے تشخص کی ازسرنو تشکیل نہ کی تو پھر اپنے وقت کی بڑی جماعت کو معلوم ہوجائے گا کہ اس کا سیاسی لمحہ اور دورِ اقتدار گزرچکا ہے۔