کراچی (نیوز ڈیسک)مقررین کاکہناہےکہ یورپ اور چین کے درمیان وسیع تجارت کو دیکھتے ہوئے سی پیک سے استفادہ کرنا ہوگا ، اسٹیک ہولڈرز، سفارت کاروں، کاروباری برادری اور حکومتی نمائندوں کے لیے سفارتی کارنر متعارف کروانا ضروری ہے، سی پیک پر سیمینار سے زاہد لطیف ، شکیل احمد رامے نےخطاب کیا اور صنعتی شراکت داری کے عزم پر زوردیا، کتاب کی رونمائی بھی کی گئی۔ تفصیلات کے مطابق سی پیک:’’ربط اور اقتصادی مواقع کے مرکز ‘‘ پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین ایشین انسٹی ٹیوٹ آف ایکو سویلائزیشن ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ زاہد لطیف نے کہا کہ دسویں مشترکہ رابطہ کمیٹی نے قابل تجدید توانائی، ٹرانسپورٹ، سماجی ترقی، شاہراہوں اور چوتھے صنعتی انقلاب کے شعبوں میں صنعتی شراکت داری اور رابطے کے عزم پر زور دیا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ کس طرح چین 2001میں 1.3 ٹریلین ڈالرز سے 2021میں 15.6 ٹریلین ڈالرز تک ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) میں شمولیت کے وقت چھٹی بڑی معیشت سے دوسری بڑی معیشت بن گیا ، زاہد لطیف نے سامعین کو سیمینار کے مقصد سے بھی آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس کا بڑا مقصد علاقائی رابطوں کے لیے پاکستان کے عزم کو اجاگر کرنا، چین کے ساتھ دوطرفہ اور اقتصادی شراکت داری کو بڑھانا اور آسیان ممالک، افریقہ، یورپی یونین اور چین کے درمیان وسیع تجارت کے لیے سی پیک کی صلاحیت سے استفادہ کرنا ہے۔ انہوں نے اسٹیک ہولڈرز، سفارت کاروں، کاروباری برادری اور حکومتوں کے نمائندوں کے لیے ایک سفارتی کارنر متعارف کرانے کا خیال پیش کرتے ہوئے نتیجہ اخذ کیا جہاں سی پیک اور سیاست سے متعلق خبریں اور مواقع پھیلائے اور تلاش کئے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے سامعین کو یقین دلایا کہ AIERD کی جانب سے ’ڈپلومیٹک کارنر‘ پاکستان میں سفارتی برادری کے لیے علم کے مرکز کا کام کرے گا۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے شکیل احمد رامے نے سی پیک کے وژن اور مشن اور اس اقدام کی صلاحیت کو تلاش کرنے اور استعمال کرنے کی حکمت عملی کو شیئر کیا۔انہوں نے بتایا کہ اس سے اخراجات کو کم کرنے، نقل و حمل کے وقت کو کم کرنے اور سفر کی رفتار بڑھانے کے حوالے سے کس طرح بہت فائدہ ہوگا۔ اپنے ریمارکس میں ان کا کہنا تھا کہ 2016 کے اعدادوشمار کے مطابق اگر چین یورپی یونین اور مشرق وسطیٰ کے 6 ممالک کے ساتھ تجارت کے لیے سی پیک روٹ کو استعمال کرتا ہے تو چین نقل و حمل کی لاگت سے بچت کے لحاظ سے ممکنہ طور پر 71 ارب ڈالرز کے مساوی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سی پیک میں ترکی، سعودی عرب، افریقہ، آسیان ممالک اور خود چین کے لیےسی پیک کے منصوبوں کے سلسلے میں کتنی بڑی صلاحیت موجود ہے۔ شکیل احمد رامے نے چند اہم سوالات کی بھی نشاندہی کی جنہیں پالیسی سازوں کی توجہ کی ضرورت ہے جو قانون سازی، پہلے سے جاری دو طرفہ معاہدوں اور فورمز سے متعلق ہیں۔ ان کی بصیرت اس بات پر بدیہی روشنی ڈالتی ہے کہ موجودہ فورمز کس طرح سی پیک کے وژن کے ساتھ تعاون کر کے اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اہم خطابات کے بعد تمام شرکاء نے شکیل احمد رامے کو اسٹیج پر ان کی ممتاز کتاب کی رونمائی کے لیے ساتھ دیا۔ جنوبی افریقہ کے سفیر ایچ ای ایم مدکیزا اور انڈونیشیا کے سفیر ایچ ای آدم ملاورمان ٹگیو نے خاص طور پر AIERD شکیل رامے کے کام کو سراہا اور تقریب کے انعقاد پر چیئرمین زاہد لطیف خان کا شکریہ ادا کیا۔ شکیل نے تمام سفارت کاروں اور حکومتی نمائندوں کے لیے ہر ایک کتاب پر دستخط کیے۔ تقریب میں جنوبی افریقہ کے سفیر ایچ ای ایم مدکیزا، انڈونیشیا کے سفیر ایچ ای آدم ملاورمان ٹگیو، ترکمانستان کے سفیر ایچ ای عطدجان مولا موف، اٹلی کے سفیر ایچ ای اینڈریاس فیرریز اور ایم ڈی ایم پینگ چنکسو، وزیر، چین کے ڈپٹی چیف آف مشن، دیگر معززین کے ساتھ ساتھ ڈپٹی چیف آف مشن کویت، منیب، ڈائریکٹر CPEC، فارن سروس آف پاکستان نے شرکت کی۔