• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
موجودہ حکومت نے 31 جولائی 2013ء کو جاری کردہ قومی بجلی پالیسی میں دعویٰ کیا ہے کہ اس کے نتیجے میں پاکستان تیزرفتار معاشی اور سماجی ترقی کی طرف گامزن ہو جائے گا اور ”روشن پاکستان“ میں خوشحالی ایک حقیقت بن جائے گی۔ بجلی پالیسی میں یہ مژدہ سنانے کے لئے جو پریس کانفرنس منعقد کی گئی اس میں بجلی کے نرخوں میں پاکستان کی تاریخ میں سب سے بڑے اضافے کا اعلان کیا گیا۔ اس غیرمنصفانہ اضافے سے وطن عزیز میں مہنگائی کا ایک زبردست ریلا آئے گا، عام آدمی کی تکالیف میں ناقابل یقین حد تک اضافہ ہوگا اور صنعتوں کی پیداواری لاگت بڑھے گی جس سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ بجلی پالیسی میں قوم کو جس سنہرے مستقبل کی نوید سنائی گئی ہے اس کے حقیقت کا روپ دھارنے کا کوئی امکان نہیں ہے البتہ ملک میں لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں کمی ہوگی اور بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہوگا لیکن بجلی کا بحران ان معنوں میں بھی برقرار رہے گا کہ آنے والے برسوں میں بھی بجلی کے نرخ عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہی رہیں گے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ موجودہ حکومت اپنے انتخابی منشور سے یکسر انحراف کر کے عوام پر ٹیکسوں و محاصل کا مزید بوجھ ڈالنے کی پالیسی پر گامزن ہے جبکہ حکومت طاقتور طبقوں کو نواز رہی ہے اور ان کے حسب منشا فیصلے کر رہی ہے۔
حکومت نے بجلی کے نرخوں میں جو ہوشربا اضافہ کیا ہے اس پر صوبوں کو بھی حقیقی معنوں میں کوئی اعتراض نہیں ہے وگرنہ انہیں ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس عائد کرنا پڑتا جس سے طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات متاثر ہوتے۔ واضح رہے کہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے انتخابی منشور میں قوم سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس عائد کیا جائے گا لیکن مرکز، صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخوا میں بھی موجودہ مالی سال کے بجٹ میں ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس عائد کرنے سے اجتناب کیا گیا ہے۔ پاکستان میں ٹیکسوں کی استعداد سے6000/ارب روپے سالانہ کم وصول کئے جا رہے ہیں۔ اگر ٹیکسوں کی مد میں اس رقم کا 10 فیصد ہی اضافی وصول کر لیا جائے تو بجلی کے نرخ بڑھانے کی ضرورت ہی نہ پڑتی اور بجٹ خسارہ بھی کم ہو جاتا۔ قومی بجلی پالیسی میں کہا گیا ہے کہ ملک میں 44 فیصد بجلی تیل سے پیدا کی جاتی ہے جو کہ مہنگی پڑتی ہے۔ اس حقیقت کا بہرحال ادراک کیا جانا چاہئے کہ حکومت نے تیل پر 17فیصد جنرل سیلز ٹیکس اور پٹرولیم لیوی عائد کی ہوئی ہے جبکہ اس تیل سے جو بجلی پیدا ہوتی ہے اس پر مزید 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس عائد کیا جاتا ہے۔ یہی نہیں بجلی کی ترسیل و تقسیم، نااہلی، کرپشن اور چوری کی وجہ سے تقریباً 200/ارب روپے سالانہ کا نقصان ہوتا ہے جنہیں بجلی کے نرخ بڑھا کر عوام کو منتقل کیا گیا ہے جس کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے۔
قومی بجلی پالیسی ملک کی معاشی پالیسی کا صرف ایک حصہ ہے چنانچہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لئے وڈیرہ شاہی کلچر پر مبنی معاشی پالیسیوں کو خیرباد کہنا ہوگا اور معیشت میں اسٹرکچرل تبدیلیاں لازماً کرنا ہوں گی۔ یہ بھی ازحد ضروری ہے کہ معاشی پالیسی اور بجلی پالیسی میں ہم آہنگی ہو۔ بدقسمتی سے مرکز اور صوبے گزشتہ 65 برسوں سے معیشت میں اسٹرکچرل تبدیلیاں لانے کے لئے آمادہ نہیں رہے اور نہ اب ہیں جبکہ حکومت کی بجلی پالیسی اور معاشی پالیسی میں ہم آہنگی نہیں ہے اور ملکی و بیرونی سرمایہ کاری کے لئے موجودہ حالات قطعی سازگار نہیں ہیں۔ ان حالات میں ہم یہ کہنے کے لئے اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں کہ اگلے 5 برسوں میں بھی معیشت میں پائیدار بہتری آنے اور روشن و خوشحال پاکستان کا خواب پورا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔
موجودہ حکومت نے امریکی ایجنڈے کے تحت آئی ایم ایف سے نیا قرضہ حاصل کرنے اور قرضے کی رقم میں اضافہ کے لئے امریکہ سے مدد طلب کی ہے چنانچہ نام نہاد دہشت گردی کی جنگ میں ”مزید اور کرو“ کا امریکی مطالبہ پورا کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی گزشتہ تقریباً 7 ہفتوں میں وطن عزیز میں دہشت گردی کی کارروائیاں اچانک زور پکڑ گئی ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان آ کر سخت موقف اپنایا۔ امریکہ کی یہ پالیسی برقرار ہے کہ ڈرون حملے جاری رہیں گے اور یہ کہ اگر ضرورت محسوس ہوئی تو امریکی افواج پاکستان میں بھی داخل ہوسکتی ہیں۔ دریں اثناء بھارت نے بھی اچانک جارحانہ رویہ اپنایا ہے۔ یہ بات تشویشناک ہے کہ امریکہ سے معاونت طلب کی جا رہی ہے اور قوم کو غیر ضروری متنازع امور میں الجھایا جا رہا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ نے جلد ہی ایک نئی متفقہ سیکورٹی پالیسی اپنانے کا اعلان کیا ہے مگر ساتھ ہی یہ بات بھی کہی ہے کہ اگرچہ شروع میں دہشت گردی کی جنگ پاکستان کی جنگ نہیں تھی مگر اب یہ پاکستان کی بقا کی جنگ بن گئی ہے۔ یہ بات ریکارڈ کا حصہ ہے کہ ستمبر 2001ء میں امریکہ نے دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر لڑی جانے والی جنگ میں پاکستان سے تعاون کی درخواست کی تھی لیکن پاکستان کے اسٹیٹ ایکٹرز کے تعاون سے اب یہ پاکستان کی جنگ بنا دی گئی ہے۔ کیا اس ضمن میں سبھی احتساب کے تقاضے پورے کئے جائیں گے؟ ہمارے تخمینے کے مطابق دہشت گردی کی جنگ سے پاکستان کی معیشت کو 101/ ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے جبکہ 50 ہزار سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں۔ کشمیر کاز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے اور پاکستان کو دہشت گردوں کی جنت قرار دیا جا رہا ہے۔ امریکہ پاکستان پر 371 ڈرون حملے کر چکا ہے۔
موجودہ حکومت نہ صرف اس جنگ سے ہونے والے نقصانات سے قوم کو آگاہ نہیں کر رہی بلکہ اتحادی امدادی فنڈ کی مد میں ہماری جو رقوم امریکہ نے روکی ہوئی ہیں یا جو دعوے رد کر دیئے گئے ہیں ان کی تفصیلات بھی قوم کو بتانے سے گریزاں ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ملک میں کسی بھی شکل میں فوجی آپریشن سے اجتناب کیا جائے۔ اب امریکی ایجنڈے کے تحت دہشت گردی کی جنگ لڑنے اور پاکستان کی سالمیت اور مفادات کا تحفظ کرنے، ان دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ ہمارے کچھ سیاستدان، ریاست کے ستونوں کے کچھ اہم افراد، اشرافیہ اور رائے عامہ پر اثرانداز ہونے والے افراد شعوری یا غیر شعوری طور پر استعماری طاقتوں کے آلہ کار بن چکے ہیں۔ اللہ پاکستان کی حفاظت کرے، آمین!
تازہ ترین