• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر عذرا جمال رفیق

اقوامِ متحدہ کے زیرِاہتمام ہر سال 3دسمبر کو’’ انٹرنیشنل ڈے آف پرسنز وتھ ڈس ایبلیٹیز‘‘(معذوروں کا عالمی یوم) منایا جاتا ہے۔ یہ دِن جہاں عوام الناس میں معذورین کے حقوق سے متعلق معلومات عام کرنے کا موثر ذریعہ ہے، وہیں معذور افراد کو زندگی میں آگے بڑھنے کے مکمل اور مساوی مواقع فراہم کرنے کی بھی حوصلہ افزائی کرتا ہے، تاکہ وہ مشکلات کا سامنا کیے بغیر اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق معاشرے میں اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں۔ 

واضح رہے، اس یوم کے حوالے سے عالمی سطح پر سرگرمیوں کے انعقاد میں عالمی ادارۂ صحت بھی شریک ہوتا ہے، جب کہ جنیوا ہیڈ کوارٹر میں مرکزی تقریب کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ زیرِنظرِ مضمون بھی اِسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جس میں معذوری، اس کے اسباب، تشخیص، علاج اور بچاؤ سے متعلق تفصیلاً بیان کیا گیا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے زیرِاہتمام ہر سال 3دسمبر کو’’ انٹرنیشنل ڈے آف پرسنز وتھ ڈس ایبلیٹیز‘‘(معذوروں کا عالمی یوم) منایا جاتا ہے۔ یہ دِن جہاں عوام الناس میں معذورین کے حقوق سے متعلق معلومات عام کرنے کا موثر ذریعہ ہے، وہیں معذور افراد کو زندگی میں آگے بڑھنے کے مکمل اور مساوی مواقع فراہم کرنے کی بھی حوصلہ افزائی کرتا ہے، تاکہ وہ مشکلات کا سامنا کیے بغیر اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق معاشرے میں اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں۔ 

واضح رہے، اس یوم کے حوالے سے عالمی سطح پر سرگرمیوں کے انعقاد میں عالمی ادارۂ صحت بھی شریک ہوتا ہے، جب کہ جنیوا ہیڈ کوارٹر میں مرکزی تقریب کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ زیرِنظرِ مضمون بھی اِسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جس میں معذوری، اس کے اسباب، تشخیص، علاج اور بچاؤ سے متعلق تفصیلاً بیان کیا گیا ہے۔

دُنیا بَھر میں مختلف رنگ و نسل کے لوگ بستے ہیں، جن کی زبانیں بھی مختلف ہیں اور خیالات بھی۔ اگر اس پر مزید غور کیا جائے، تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ جسمانی و ذہنی طور پر بھی پوری دُنیا کے انسانوں میں تنوّع پایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بعض افراد کو کچھ الگ اور مختلف صلاحیتیں دے کراس دُنیا میں بھیجا۔ انسانیت نے اس بات کو سمجھا اور ان مخصوص افراد کے لیے ایک الگ شعبہ قائم کردیا،جسے ڈی ای پی ڈے (Departement For Empowering Persons With Different Abilities) کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ 

واضح رہے، لوگوں کو جاننا، سمجھنا اور انفرادی طور پر ان کے خیالات وجذبات اور صلاحیتیں محسوس کرکے انہیں مثبت استعمال میں لانا کہ وہ معاشرے کا بہتر حصّہ بن سکیں، ’’انسانی حقوق ‘‘کا حصّہ کہلاتا ہے۔ نیز، لوگوں کا احترام کرنا اور ان کی انفرادیت کو دِل سے قبول کرنا دینِ اسلام کی بنیادی تعلیمات ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کی جانب سےجاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق دُنیا کی15فی صد آبادی’’ اسپیشل افراد ‘‘پر مشتمل ہے، لیکن اگر ہم وسیع معنوں میں بات کریں تو ہر شخص ہی’’ اسپیشل‘‘ ہے۔ یعنی اسپیشل ہونے کی شرح ایک سو فی صد ہے۔

جب ہم ’’معذور‘‘ کا لفظ سُنتے ہیں، تو لامحالہ ذہن میں کسی لنگڑے، اندھے، بہرے ،گونگےفردیا کسی اور ذہنی خرابی کی شکل آجاتی ہے، حالاں کہ ہم میں سے کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ ہر کام بہتر طریقے سے کرسکتا ہے یا اس میں تمام صلاحیتیں موجود ہیں۔ 

یاد رکھیے، اگر ہم ایک کام بہتر طریقے سے انجام دے رہے ہیں، تو یقیناً کوئی دوسرا کام کرنے سے معذور ہوں گے۔ مثال کے طور پر کوئی شخص اپنے غصّے پر قابو پانے سے معذور ہے، تو کسی کو نیند پر قابو پانا ناممکن لگتا ہے۔ کوئی پانی سے ڈرتا ہے، تو کوئی بُلند پہاڑوں سے خوف کھاتا ہے، تو کوئی گہرے کنوئیں میں جھانکنے کے خیال ہی سے لرز جاتا ہے۔ 

ہم اکثر اپنی روز مرّہ زندگی میں اس قسم کے جملے بولتے ہیں کہ ’’مَیں یہ کام نہیں کرسکتا/سکتی‘‘، جس کا مطلب ہے کہ ہم خود اپنی معذوری کا برملا اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ اِسی طرح جو لوگ چل پھر نہیں سکتے، بول یا سُن نہیں سکتے یا دیکھ نہیں سکتے، تو وہ بھی درحقیقت جزوی معذوری (Partial Disability) ہی کا شکار ہوتے ہیں ، جب کہ زندگی کےباقی معاملات میں وہ عام انسانوں ہی کی طرح ہوتے ہیں، بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ اپنی جزوی معذوری کے علاوہ باقی معاملات میں ان کی صلاحیتیں اُن افراد کی نسبت،جو اس جزوی معذوری کا شکار نہیں، کہیں بہتر ہوتی ہیں۔ 

مثال کے طور پر ایک نابینا شخص، عام افراد کی نسبت محسوس کرنے اور سونگھنے کی زیادہ بہتر صلاحیت رکھتا ہے۔ ترقّی یافتہ مُمالک میں اسپیشل افراد معاشرے کا اہم حصّہ گردانے جاتے ہیں، مگر ہمارےیہاں صُورتِ حال انتہائی افسوس ناک ہے کہ یہاں اچھے خاصے سمجھ دار اور باصلاحیت افراد پر ذرا سی کمی پر ’’معذور‘‘ کا لیبل لگادیا جاتا ہے۔ چھوٹا قد، کالا رنگ یا سَر پر بال نہ ہونے ہی پر احساسِ کم تری میں مبتلا کردیا جاتا ہے۔

عالمی ادارۂ صحت نے کم زوری/معذوری کے ضمن میں چند حقائق بیان کیے ہیں،جن میں سے چند ذیل میں بیان کیے جارہے ہیں۔

٭دُنیا کی آبادی کا 15فی صد حصّہ(تقریباً ایک بلین)کسی نہ کسی معذوری سے دوچار ہے۔٭450 ملین افراد کسی نہ کسی ذہنی یا اعصابی کم زوری ،معذوری کا شکار ہیں،جن میں سے دو تہائی محض لوگوں کے استہزاء کے ڈر سے طبّی معائنے یا علاج کے لیے رجوع نہیں کرتے۔٭ ہر160بچّوںمیں سےایک بچّہ آٹزم کا شکار ہے۔سالانہ69ملین افراد دماغی چوٹ کی وجہ سے معذوری کا شکار ہوجاتے ہیں۔٭ایک چیزسے معذوری، مکمل طور پر نا اہلی کا سبب قرار نہیں دی جاسکتی کہ ماضی قریب کے کام یاب ترین سائنس دان، اسٹیفن ہاکنگ مختلف اقسام کی معذوریوں کا شکار تھے۔٭80فی صد معذورین کا تعلق ترقّی پذیر مُمالک سے ہے۔٭ہر10میں سے ایک بچّہ کسی نہ کسی قسم کی معذوری کا شکار ہوتا ہے۔ ٭ ہر5میں سے ایک خاتون اپنی زندگی میں کسی بھی قسم کی معذوری کا شکار ہوجاتی ہے۔ ٭60 سال سے زائد عُمر کے46فی صد افراد میں کوئی نہ کوئی معذوری پائی جاتی ہے۔ ٭ ترقّی پذیر مُمالک میں5سے15فی صد معذور افراد کو علاج معالجے سمیت دیگر سہولتوں تک رسائی حاصل ہے۔نیز،ان افراد میں بے روزگاری کی شرح بُلند ہے۔ ٭ وہ بچّے جو کسی قسم کی کم زوری/معذوری کا شکار ہوں، اُن کے حقوق بھی دوسرے بچّوں کے حقوق کے برابر ہیں۔

بچّوں کےحقوق پورے کرنا ہماری اہم ترین ذمّے داری ہے کہ وہ اپنے حق کےلیے نعرے نہیں لگاتے، جلسے نہیں کرتے ،جلوس نہیں نکالتے۔ وہ ہمارے محتاج ہیں اور ہم اُن کے بحیثیت والدین، استاد، معالج اور رشتے دار، ان کے سرپرست ہیں۔ وہ ہر حیثیت میں ہماری محبّت اور توجّہ کے مستحق ہیں۔ اگر اسپیشل بچّوں کا ذکر کریں ،تو بچّے خاص ہوں یا عام،قدرت کی بیش بہا نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت ہیں، لیکن جب والدین اپنے اسپیشل بچّوں سے وحشت زدہ، بےزار نظر آئیں، تو ان معصوموں کے اندر جینے کی اُمنگ یک سرختم ہوجاتی ہے۔ 

اکثر والدین اسپیشل بچّے کی پیدایش پر کہتے ہیں،’’ پتا نہیں ہمیں کن گناہوں کی سزا ملی ہے۔‘‘ یہ انتہائی نامناسب رویّہ ہے۔ یہ خاص بچّے تو ہماری خاص توجّہ کے مستحق ہوتے ہیں۔ ان کی دیکھ بھال اور تعلیم و تربیت والدین کے لیے ایک بڑی آزمائش ہے۔ ان کی اس نہج پر تربیت کرنا کہ وہ احساسِ کم تری کا شکار ہوئے بغیر معاشرے کا اہم حصّہ بن سکیں، نہ صرف والدین، بلکہ معاشرے کی بھی ذمّے داری ہے کہ جس پر پورا اُتر کر ہی ہم اللہ تعالیٰ کے خاص بندے ہونے کا رتبہ حاصل کرسکتے ہیں۔

اسپیشل بچّوں کو دو گروپس میں منقسم کیا جاتاہے۔ ایک گروپ میں وہ بچّے شامل ہیں، جو ذہنی طور پر معذور ہوں، جب کے دوسرے گروپ میں جسمانی طور پر معذورین کو شامل کیا گیاہے۔ خاص بچّوں کی دماغی صلاحیت ،عام بچّوں کی نسبت مختلف ہوتی ہے،جسے تین درجات میں تقسیم کیا جاتا ہے۔پہلا درجہ معمولی درجے کی ذہنی کم زوری کہلاتا ہے۔ ایسے بچّے ،جن کی ذہنی کم زوری کی نوعیت معمولی ہو، باآسانی تعلیم حاصل کرسکتے ہیں اور کسی کے محتاج بھی نہیں ہوتے۔ 

دوسرے درجے میں ذہنی کم زوری کی نوعیت درمیانی ہوتی ہے۔ ان بچّوں کی تربیت کی جاسکتی ہے، جب کہ شدید ذہنی کم زوری کے حامل بچّوں کی صرف معمولی تربیت ہی ممکن ہوتی ہےاور انہیں ہمیشہ سہارے کی ضرورت رہتی ہے۔ پاکستان میں ذہنی پس ماندگی کی شرح3.92 فی صد ہے۔ان مریضوں میں سے ایک تہائی میں معذوری کی وجہ تشخیص نہیں ہوپاتی، جب کہ دو تہائی مریض ایسے ہیں، جنہیں تشخیص کی بدولت بچایا جاسکتا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق معذوری میں معمولی کم زوری سے لے کر کوئی کام کرنے میں مشکل پیش آنا یا سِرے سے نہ کرنا شامل ہے۔ 

مثال کے طور پر اگر بچّہ تاخیر سے بولنا شروع کرتا ہے، تو یہ ایک کم زوری کہلائے گی۔جب کہ اس طرح بولنا کہ بات مشکل سے سمجھ آئے، اسے معذوری میں شمار کیا جائے گااور لوگوں سے رابطے میں مشکل پیش آنا ایک شدید معذوری کہلائے گی۔ جسمانی معذوری دیکھی جاسکتی ہے، جب کہ دماغی معذوری، کم زوری دکھائی نہیں دیتی۔اسی طرح بعض معذوریاں پیدایشی ہوتی ہیں اور بعض عُمر کے کسی بھی حصّے میں انسان کو معذور بنادیتی ہیں۔معذوری کو عمومی طور پر درج ذیل گروپس میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

٭ جسمانی معذوری یا کم زوری(ان میں پیدایشی نقائص، مِرگی، دماغی فالج، عضلات کی کم زوری، پولیو کی وجہ سے فالج، بڑی عُمر میں فالج، بلڈ پریشر، ذیابطیس وغیرہ شامل ہیں)۔ ٭ دماغی کم زوری یا سمجھ بوجھ کا کم ہونا یا سرے سے نہ ہونا۔ ٭ جذباتی اور رویّوں کے مسائل، ڈیپریشن، پریشانی، ذہنی دبائو۔ ٭ حواس خمسہ سے تعلق رکھنے والی کم زوری یا معذوری ۔

مثلاً کم یا سِرے سے نظر نہ آنا، پیدایشی اندھا پَن یا بعد میں اس کا شکار ہوجانا، سُننے میں مشکل یا بہراپَن(جزوی یا مکمل طور پر)، بولنے کے مسائل اور گونگا پَن٭ آٹزم(گزشتہ کچھ عرصے سے بچّوں میں آٹزم کا تناسب پہلے کی نسبت زیادہ پایا جارہا ہے)،Neuro development کے مسائل( جن میں دیر سے بولنا یا سرے سے نہ بولنا، دماغی کم زوری کی وجہ سے ایک حرکت کو بار بار دہرانا، لوگوں سے رابطے کا فقدان، الگ تھلگ رہنا، جھٹکے لگنا وغیرہ شامل ہیں)۔

ذہنی یا جسمانی معذوری کی بعض وجوہ ایسی ہیں،جن سےتحفّظ ممکن ہے۔مثلاً:

٭دورانِ حمل: گائناکالوجسٹ کی ہدایت پر معائنہ اور ٹیسٹ کروائیں، تاکہ جراثیم اور وائرس کے نتیجے میں کوئی انفیکشن لا حق نہ ہو۔ اِس ضمن میں روبیلا سے بچائو کی قومی مُہم شروع ہوچُکی ہے۔کروموسومز کی خرابیاں اور موروثی بیماری کے بارے میں جینیٹک کاؤنسلنگ کی جاسکتی ہے۔ دورانِ حمل معالج کے مشورے کے بغیرکوئی دوا استعمال نہ کریں۔ متوازن غذا استعمال کی جائے کہ بعض کیسز میں ناقص اور غیر معیاری غذائیں استعمال کرنے کے نتیجے میں عموماً حاملہ میں خون کی کمی واقع ہوجاتی ہے یا پھر کوئی اور مرض لاحق ہوجاتا ہے، دونوں صورتیں شکم میں پلنے والے بچّے کے لیے مہلک ثابت ہوسکتی ہیں۔

٭زچگی: زچگی کے وقت بھی احتیاط ضروری ہے کہ بعض کیسز میں قبل از وقت پیدایش یا کم زور بچّے کی پیدایش،پیدایش کے وقت دَم گُھٹنا (Asphyxia)، پیدایش کے بعد نومولود کا نہ رونا، دیر سے رونا، نیلا پڑ جانا،جراثیم اور وائرس کا حملہ، دماغ کی سوزش (Meningitis Encephalitis)، دماغی چوٹ، بار باریرقان ہونا یا طویل عرصے تک اس میں مبتلا رہنا بھی ذہنی یا جسمانی معذوری کا سبب بن سکتا ہے۔

٭پیدایش سے 5 سال کی عُمر: اس عرصے میں نومولود کا خاص خیال رکھا جائےکہ گردن توڑ بخار،Hypothyroidism یعنی بعض پیدایشی ہارمونز کا نہ بننا یا کم بننا، میٹابولک ڈس آرڈرز اور انزائم کی کمی،(Enzyme Deficiencie) اور حادثات میں دماغی چوٹ بھی وجہ بن سکتی ہے۔

٭بڑی عُمر کے اسباب: ان میں ہائی بلڈپریشر، ذیابطیس کی وجہ سے فالج یا بینائی ضایع ہونا، موتیا کی بیماری اور گلوکوما اور حادثے کے نتیجے میں معذوری وغیرہ شامل ہیں۔

عمومی طور پر اسپیشل بچّوں میں سیکھنے کی رفتار عام بچّوں کی نسبت خاصی سُست ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر گردن سنبھالنے، بیٹھنے، کھڑے ہونے، چلنے پھرنے، باتیں کرنے اور اردگرد کی چیزوں کے بارے میں سیکھنے کا عمل ذرا مشکل اورتاخیر سے ہوتا ہے۔ آٹزم سے متاثرہ بچّوں میں مزید علامات بھی ظاہر ہوسکتی ہیں، جن میں آنکھ نہ ملانا، اپنے اردگرد سے عدم دِل چسپی، خود میں مگن،مگر دوسروں سے لاتعلق رہنا، بولنا نہ سیکھنا، ہائپر ایکٹیو ہونا، تعلیم پر توجّہ نہ دینا وغیرہ شامل ہیں۔

بعض امراض کی تشخیص ٹیسٹ، ایکس رے اوربرین اسکیننگ سے کی جاتی ہے۔واضح رہے، تھائی رائیڈ ہارمونز کی کمی کی تشخیص اور علاج دونوں ممکن ہے، جب کہ بعض امراض تشخیص تو کرلیے جاتے ہیں، مگران کا علاج ممکن نہیں۔ جیسے ڈاؤن سینڈروم۔ تاہم، ڈاؤن سینڈروم اور آٹزم میں بروقت تشخیص، خصوصی دیکھ بھال اور تربیت کے ذریعے بہتر نتائج دیکھنے میں آتے ہیں۔

بچّوں میں معذوری کی اقسام میں سب سے عام دماغی فالج ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ مرض ایک ہزار بچّوں میں سے ایک بچّے کو لاحق ہوتا ہے۔ دماغی فالج چارطرح سے ظاہر ہوتاہے۔بعض بچّے جسم کی سختی کا شکار ہوتے ہیں،جودونوں ٹانگوں، بازوؤں، صرف ایک بازو، جسم کے ڈھیلے پَن یا پھرہاتھ، پاؤں کی عجیب حرکات کی(جن پر قابو نہ ہو) بھی ہوسکتی ہے۔ ان بچّوں میں ذہنی سمجھ بوجھ بالکل ٹھیک بھی ہوسکتی ہےاور ذہنی کم زوری کی نوعیت معمولی، درمیانی یا شدید بھی ہوسکتی ہے۔ بعض بچّوں میں یہ مرض جھٹکے لگنے، دورہ پڑنے، بہرے، گونگے اور اندھے پَن، رابطے کے مسائل، غیر مناسب رویّے، دیگر بچّوں کو مارنے پیٹنے اور ہر وقت گھر میں اودھم مچانے کی صُورت ظاہر ہوتا ہے۔

بعض بچّوں میں ہڈیوں اور جوڑوں کے مسائل، تو بعض میں غذا کی کمی کے مسائل جنم لیتےہیں۔اس مرض کے علاج کے کئی طریقے مستعمل ہیں، جو مرض کی نوعیت کے مطابق تجویز کیے جاتے ہیں۔مثلاً فزیو تھراپی،جسم کی سختی کم کرنے اور جوڑ منجمد ہونے سے بچانے کے لیے مختلف ورزشیں اور طریقے، شعاؤں کے ذریعے علاج، ادویہ، غذا کی کمی دُور کرنا وغیرہ۔ اس کے علاوہ اگر جوڑ سخت ہوں، تو انہیں آپریشن کے ذریعے کھولا جاسکتا ہے، تو دیکھنے ،سُننے کی مکمل یا جزوی کم زوری دُور کرنے کے لیے مناسب راہِ عمل اختیار کرنا، بولنے کے مسائل کے لیےاسپیچ تھراپسٹ سے رجوع کرنا وغیرہ شامل ہیں۔بچّے کو اس مرض سے بچانے کے لیے حاملہ خواتین مستند گائناکالوجسٹ سے رجوع کریں اور ایسےاسپتال میں نام درج کروائیں، جہاں زچگی کے لیے تمام تر سہولتیں دستیاب ہوں۔

نیز، انفیکشن سے محفوظ رہنےکے لیے آلات اور ضروری استعمال کی چیزیں صاف ستھری اور جراثیم سے پاک ہوں۔اپنے کھانے پینےکا خاص خیال رکھیں،متوازن غذا اور صاف پانی استعمال کریں اور باقاعدگی سے معائنہ کروائیں۔ بچّے کو دماغی چوٹ، زخم اور انفیکشن سے بچائیں اور حفاظتی ٹیکے لازماً لگوائیں۔ یرقان اور گردن توڑ بخار کی صورت میں ماہرِ امراض اطفال کی ہدایات پر عمل کریں۔ صحت مندانہ طرزِ زندگی اپنائیں۔ ورزش معمول کا حصّہ بنالیں۔

بازاری کھانے، جنک اور فاسٹ فوڈ زسے پرہیز کریں۔معالج کی ہدایت کے مطابق نومولود کا چیک اپ کروائیں۔ یاد رکھیے، خاص افراد چاہے بچّے ہوں یا بڑے، ہمارے معاشرے کا حصّہ ہیں، بالکل اِسی طرح جیسے دیگر افراد ہیں۔ ان کا احترام کریں، ان سے محبّت کریں اور انہیں معاشرے کا حصّہ بنانےمیں اپنا بَھرپور کردار بھی ادا کریں۔

(مضمون نگار، معروف ماہرِ امراضِ اطفال ہیں اور سیلانی تھیلیسیمیا کیئر سینٹر، زیڈ ایم ٹی کلینکس نیٹ ورک میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔ نیز، پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن اورپاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کی بھی رکن ہیں)

تازہ ترین