• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب میں یہ کالم لکھ رہاہوں توکالم لکھتے وقت عجیب کیفیت ہے ‘دل خون کے آنسو رورہاہے شاید ہر محب وطن اورذی ہوش پاکستانی کی یہی کیفیت ہوگی ۔یہ پاکستان کو کیاہوگیاہے؟ہرطرف خون ہی خون ہے ۔عید سے ایک دودن پہلے کیاکچھ نہیں ہوا؟کس کس کو روئیں بلوچستان کو روئیں‘ کے پی اورفاٹا کو روئیں یااسلام آباد کو روئیں۔ان دنوں بادل بھی ملک بھر میں خوب برسے ہیں ۔اعتبار نہیں آتا کہ یہ بادل دھوئیں کے تھے یاانسانی خون پیئے ہوئے تھے اورجو برسا وہ بارش کاپانی تھا یاانسانی خون تھا ۔اس مرحلے پر مجھے مولانا عبیداللہ سندھی بہت یاد آرہے ہیں انگریز سامراج کازمانہ تھا انہوں نے نہ صرف سندھ بلکہ برصغیر کے مسلمانوں کو خبردار کیا کہ ان کو ایک خونی طوفان اس علاقے کی طرف بڑھتا ہوا نظرآرہاہے اگر یہاں کے لوگوں نے ابھی سے اس طوفان کے سامنے بند نہیں باندھے تو پتہ نہیں ہماری ہزاروں سال کی انسانی تہذیب کا کیاحشر ہوگا ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھ کے عوام کو بلوچستان کی بہت فکر ہے‘ فاٹا کی بہت فکر ہے‘ کے پی کی بہت فکر ہے اورپنجاب کے ان علاقوں کی بہت فکر ہے جو فاٹا اور بلوچستان سے اٹھنے والے اس مذہبی انتہا پسندی کے طوفان کی زد میں ہیں یاآسکتے ہیں مگر ساتھ ہی سندھ کے عوام کو سب سے زیادہ فکر سندھ کی ہے ۔سندھ کے مفکر نمادانشور محسوس کرتے ہیں کہ اس انسان دشمن اور اسلام دشمن طوفان کااصل ٹارگٹ سندھ ہے کیونکہ اس سارے علاقے میں سندھ ہی انسانی روداری ‘انسان دوستی اور لبرل ازم کی اصل وادی ہے کیونکہ صدیوں سے یہاں کی تہذیب صوفی ازم کی ثقافت میں پروان چڑھی ہے یہاں مخدوم بلاول اور شاہ عنایت شہید جیسے انسان دوست انقلابیوں کی قیادت میں سندھ کے عوام کو سامراج کے ہاتھوں میں مذہبی انتہا پسند جو مغل بادشاہوں کے درباری تھے اور ان کی کٹ پتلی بنے ہوئے تھے، نے ارغون اورترخان سامراج کی ہدایات کے تحت ان انقلابیوں کو سامراج کے خلاف جہاد کرنے اور ہاریوں کو منظم کرنے کی پاداش میں کافر قراردیا گیا تھا جس کے نتیجے میں مخدوم بلاول کو کوہلو میں پیس کر سزا ئے موت دی گئی اور شاہ عنایت کو شہید کیاگیا مگر سندھ کے عوام کی جدوجہد کے نتیجے میں ارغونوں اور ترخانوں کی نسل کااس علاقہ سے مکمل صفایا ہو گیا یہاں کے لوگوں کی ذہنی نشوونما شاہ عبداللطیف بھٹائی‘ سچل سرمست اور سامی جیسے شاعروں اور مفکروں نے کی۔ ان ساری حقیقتوں کے باوجود خیبر پختونخوا اور پنجاب کے حکمرانوں سے فی الحال کوئی توقع نظرنہیں آرہی ہے کہ وہ اس انسان دشمن اور اسلام دشمن عفریت کامقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں ۔عام رائے یہ ہے کہ کیونکہ یہ حکمراں بھی اسی انتہا پسند عفریت کی بالواسط حمایت سے اقتدار میں آئے ہیں لہٰذا ان کو اس عفریت کے لئے نرم گوشہ ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ حضرات جے آئی اورجے یو آئی کی قیادت میں اس عفریت کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑے ہیں اورکہہ رہے ہیں ”جوحکم عالی جاہ“۔ سچی بات یہ ہے کہ میں آج اس ایشو پر کالم لکھنا چاہتا تھا اوران سب سیاسی قوتوں کے سامنے سندھ کے عوام کی معروضات انتہائی ادب واحترام سے پیش کرناچاہتاتھا مگراس فیصلے کو کچھ وقت کے لئے ملتوی کرنا پڑا ہے۔ میں نے دیکھا کہ 1947ء کے بعد پہلی بار گزشتہ حکومت کے دور میں خاص طورپر رضاربانی اور اسحاق ڈار کی کوششوں کے نتیجے میں 18ویں ترمیم کے ذریعے کسی حد تک صوبوں کو خودمختاری دی گئی اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ حکومت کے دورمیں ہی18ویں ترمیم پر عملدرآمد میں رکاوٹیں ڈالی گئیں اور صدر آصف زرداری نے بھی کرسی کی خاطر شاید ان رکاوٹوں کو ہٹانے کے سلسلے میں ہاتھ بند رکھا۔ میں چاہتاہوں کہ گزارش کروں کہ نہ صرف 18ویں ترمیم پر من وعن عملدرآمد کیاجائے بلکہ وزیراعظم نواز شریف ملک بھرسے قوم پرست جماعتوں کی گول میز کانفرنس منعقد کرکے اتفاق رائے سے صوبائی خودمختاری کا نیشنل چارٹر منظور کرائیں۔ صرف اس طرح یہ ملک بچ سکتاہے۔ اس طرح نہ صرف بلوچ انقلابیوں کو پاکستان کی طرف لوٹنے پر قائل کیاجاسکتاہے بلکہ خود سندھ کے اندر جس کے بارے میں ہمارے ملک کے جغادریوں ابھی کچھ پتہ نہیں کہ کچھ سندھی سیاسی ACTIVISTS بلوچستان والے راستے کی طر ف گامزن نظر آرہے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ جب میں نے صوبائی خودمختاری کے بارے میں کالم لکھنے کا فیصلہ کیا مگر عید سے قبل پاکستان کے ایک ممتاز صحافی حاجی آئی ایچ راشد کے انتقال کی خبرپڑھی تو میں سکتے میں آ گیا۔ آئی ایچ راشد جو کہ ایک باریش انسان تھے فل سوٹ کے اوپر جناح کیمپ پہنتے تھے ایک مخلص صحافی ہونے کے ساتھ ایک مخلص ٹریڈ یونینسٹ بھی تھے۔ وہ سارے ٹریڈیونینسٹس کو کافر اور لیفٹ کے جغادریوں کی طرف سے سارے مسلمانوں کو Reactioneryسمجھنے والی سوچوں کا ایک منہ توڑجواب تھے ۔وہ پانچوں وقت نماز بھی پڑھتے تھے اورساتھ ہی صحافی اور اخباری کارکنوں کے احتجاج میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے ۔وہ آزادی صحافت کی خاطر پتہ نہیں کتنی بار جیلوں میں گئے مگر معافی مانگ کر باہر نہیں نکلے۔ وہ سندھ کے خاص طورپر محسن تھے کیونکہ پنجاب کے دیگر صحافیوں اوردانشوروں کی طرف سے ایم آر ڈی کانشانہ بننے والے سندھ کے عوام کی حمایت میں جاری ہونے والے ایک تاریخی نوعیت کے بیان پر دستخط کرنے کی وجہ سے پاکستان ٹائمز سے نکال دیئے گئے اورکافی عرصے تک بیروزگار رہے لہٰذاحاجی آئی ایچ راشد پاکستان میں صحافت کی آزادی کے لئے لڑی جانے والی جنگ کے بے شک ہیروتھے۔ یہ خیال آنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ اس بار میں یہ کالم آزادی صحافت کے ہیروز کے شان میں لکھوں۔ مجھ پر کافی عرصہ سے یہ قرض تھا ۔افسوس یہ ہے کہ پی ایف یو جے کی ایف ای سی میں صحافیوں کی جدوجہد پر کئی بار کتاب لکھنے کافیصلہ کئے جانے کے باوجود یہ کتاب نہیں لکھی جاسکی ۔پاکستان کے صحافیوں اور اخباری کارکنوں کے حقیقی قائد منہاج برنا صاحب اپنے آخری ایام میں اپنی آپ بیتی لکھ رہے تھے۔انہوں نے اس کتاب کاایک چیپٹر صحافت کی آزادی کی جدوجہد کے لئے صرف کرنے کافیصلہ کیا۔ آخری دنوں میں کراچی آتے وقت انہوں نے مجھے حکم دیا کہ کیونکہ تو بھی تحریک اور جیل میں رہا لہٰذا اس سلسلے میں ایک Pieceتو لکھ کے میرے حوالے بھی کردے تاکہ اسے بھی میں اپنی آپ بیتی میں شامل کروں۔ برناصاحب نے پھرہمارے تحریکی ساتھی اور قائد احفاظ الرحمن کو بھی یہ حکم دیا۔ پتہ نہیں احفاظ نے اس سلسلے میں Pieceلکھ کر برناصاحب کے حوالے کیا یانہیں مگر میں ضرور اس جرم کامرتکب ہوں کہ اپنی سستی کی وجہ سے میں یہ سب کچھ نہ کرسکا ۔میراخیال ہے کہ برنا صاحب نے اپنی آپ بیتی کے سلسلے میں کچھ نہ کچھ مواد لکھاہوگا ۔میری معراج محمدخان اوراسلام آباد میں ان کے عزیزوں سے گزارش ہے کہ کسی طرح جوبھی برنا صاحب نے لکھاہے اسے شائع کیاجائے۔ برناصاحب کے بعدپاکستان کے صحافیوں کے بہت بڑے رہنما نثار عثمانی صاحب تھے۔ عثمانی صاحب نہ صرف صف اول کے صحافی اور رپورٹر تھے بلکہ ایک کمیٹڈ ٹریڈیونینسٹ بھی تھے جب تک برناصاحب ایپنک کی قیادت کرتے رہے ، عثمانی صاحب پی ایف یو جے کے صدر کی حیثیت سے دن رات ان کے ساتھ رہے ۔ میں یہاں عثمانی صاحب کے کچھ تاریخی ریمارکس ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں۔جنرل ضیاء ابھی حال ہی میں اقتدار میں آئے تھے۔ وہ چند دنوں کے لئے دبئی گئے وہاں سے لوٹتے وقت وہ سیدھے لاہور آئے جہاں ہوائی اڈے پر لاہور کے صحافیوں کو بھی بلایا گیا تھا ۔جہاز سے اترنے کے بعد وہ سیدھے صحافیوں کی طرف آئے اور غصے کی عالم میں شکایت کرنے لگے کہ میں ایک دو دن کے لئے ملک سے باہر کیا گیا ہوں آپ صحافیوں نے سارا ملک سرپر اٹھالیا ہے اس حدتک کہ میراخون کھول رہا ہے۔ یہ سنتے ہی عثمانی صاحب جنرل کو مخاطب ہوئے، کہنے لگے کہ آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ہر 8۔10سال کے بعد کوئی نہ کوئی جنرل فوجی ڈریس میں آکر ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر قوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے ”میرے عزیز ہم وطنو“ عثمانی صاحب نے کہا کہ جب آپ یہ کرتے ہیں توآپ کو احساس ہے کہ ہماراخون کس طرح کھولتا ہے۔ اس کے بعد دونوں غصے میں ایک دوسرے کو مخاطب کرنے لگے ۔اس گفتگو کو کسی دوست نے ٹیپ کرلیا بعد میں ایک ٹیپ کراچی پریس کلب کی گورننگ باڈی کو ملی اور یہ ٹیپ کئی ماہ تک کلب کے ٹی وی لاؤیج میں Play ہوتا رہا او معززین شہر آکر یہ گفتگو سنتے تھے اورعثمانی صاحب کو خراج تحسین پیش کرتے تھے۔ اس دوران مرکزی ایپنک کے سیکریٹری جنرل عبدالحفیظ راقب تھے۔ ان کاتعلق غریب گھرانے سے تھا مگر وہ ایک مخلص تھے اورآخر تک پاکستان کے اخباری کارکنوں کی برادری کی مشکل سے مشکل وقت میں قیادت کرتے رہے۔ اس مرحلے پر ملتان کے سینئر صحافی ولی محمد واجد کو بھولنا ایک گناہ عظیم ہوگا۔ وہ بھی آزادی صحافت کی جنگ کے ہیرو تھے، بلا کے مقرر تھے۔ان کی تقریر میں دلچسپ Witہوا کرتا تھا۔ انہوں نے اس تحریک میں حصہ لیتے ہوئے سندھ اور پنجاب کی اکثر جیلوں کی یاترا کی ۔ میں واجد صاحب کے بارے میں ایک دلدوز واقعہ یہاں لکھ کے کالم کااختتام کروں گا ۔15-10سال پہلے مجھے ملتان کی ایک کانفرنس کے سلسلے میں وہاں جاناپڑا ۔وہاں میں نے صحافیوں سے واجد صاحب کا فون نمبر معلوم کیا مگرکسی کو پتہ نہیں تھا ۔ایک دوماہ کے بعد ایک اورکانفرنس کے سلسلے میں ملتان جاناپڑا ۔اس بارمجھے واجد صاحب کے گھرکا فون نمبرمل گیا۔ میں نے ٹیلی فون کیا تو دوسری طرف سے کسی بزرگ خاتون کی انتہائی نحیف آواز سننے میں آئی۔ وہ پوچھ رہی تھیں بیٹا آپ کون ہیں“۔ میں نے اپنا نام بتایا اور کہا کہ میں سندھ سے آیا ہوں اور ایک صحافی ہوں ۔واجدصاحب ہمارے تحریکی ساتھی اور قائد ہیں، میں ان سے ملنا چاہتا ہوں۔ جواب میں جوکہاگیا اس نے میرے رونگھٹے کھڑے کردیئے۔ انہوں نے کہا کہ بیٹا اب تو کافی عرصہ ہوگیاہے کسی کا واجد کے لئے ٹیلی فون نہیں آتا۔ وہ روہانسی ہوکر بولی کہ بیٹا کافی عرصہ ہوا وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے اور ان کو دماغی ونفسیاتی اسپتال میں داخل کرادیاگیاہے، وہ تو اب وہیں ہیں۔ اس کے بعد بھی کچھ سیکنڈوں کے لئے رسیور میرے ہاتھ میں تھا۔ دوسری طرف نحیف انداز میں رونے کی آواز آرہی تھی اور میں چاہتے ہوئے بھی کچھ بول نہیں سکا۔ کیا مجھے اجازت ہوگی کہ میں یہ تسلیم کروں کہ اب پاکستان میں صحافت کی آزادی کی جنگ کے ہیروز کی فصل اگنا بندہوگئی ہے ورنہ لوگ کم سے کم ہمارے ان چارساتھیوں کو ضروریاد کرتے جن کو صحافت کی آزادی کی جنگ میں کوڑے لگے تھے۔
تازہ ترین