• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لاہور میں جناب عطاء الحق قاسمی اور راولپنڈی میں انوار فیروز صاحب پاکستانی ادب و صحافت کے دو ایسے نام ہیں جنہوں نے میری ادبی پرورش کی ہے، عطاء صاحب سے میرے تعلق کا نیازمندانہ رشتہ گزشتہ اڑتیس برسوں کو محیط ہے، نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کا ان کا انداز بہت منفرد ہے، جنوری 1976ء میں میرا پہلا شعری مجموعہ ”مرحلے“ چھپا تو ان دنوں عطاء صاحب لاہور کے ایک روزنامے کے ادبی صفحے کے انچارج تھے ”مرحلے“ پر یکے بعد دیگرے دو تین بار تبصرہ کیا حتیٰ کہ مجموعہ چھپنے کے دو سال بعد ”تازہ بہ تازہ“ کے عنوان سے ایک بار پھر لکھا تو میں نے ٹیلیفون پر کہا کہ جناب دو سال بعد بھی آپ نے ”مرحلے“ کو ”تازہ بہ تازہ“ میں رکھا تو اس پر عطاء صاحب نے کمال حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ ”یار جبار مرزا صاحب تہاڈا کلام اج وی تازہ ای اے“ مجھے یہ سطریں اس لئے لکھنا پڑ گئیں کہ گزشتہ دنوں جب پنجاب کے گورنر کے لئے چوہدری سرور صاحب کا انتخاب ہوا تو بعض قلم کار دوستوں نے اظہار رائے کرتے ہوئے لکھا کہ یہ منصب عطاء الحق قاسمی صاحب کو ملنا چاہئے تھا، اظہار رائے پر کوئی قدغن نہیں، لیکن میرا خیال ہے کہ وہ دوست عطاء صاحب کے مرتبے سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں، عطاء صاحب جو حق کی عطاء ہیں اور ہمارے لئے سرمایہ افتخار بھی، ان کا گورنر ہوجانا کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ وہ ان دنیاوی مناصب سے بہت بلند ہیں ان کا خاندانی جلال ان کی عظمت کا آئینہ دار ہے، آپ کے اجداد عرب سے آگرہ آئے تھے، پھر کشمیر پہنچے جہاں قریب قریب آٹھ سو برس تک انہوں نے علم و نور کا فیض جاری رکھا۔
حضرت مجدد الف ثانی اور مولانا عبدالحکیم سیالکوٹی جیسے جید اور ممتاز علمائے حق اور مذہبی پیشوا کا شمار آپ کے خاندان کے شاگردوں میں ہوتا ہے۔ لاہور کے جامعہ اشرفیہ کے بانی مفتی محمد حسن اور امیر شریعت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری آپ کے دادا غلام مصطفی قاسمی کے شاگردوں میں شامل ہیں، آپ کے بزرگوں کے ذکر کے بغیر برصغیر پاک و ہند میں ”تحریک ختم نبوت“ کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی، لاہور کی مسجد وزیر خان کے مینار گواہ ہیں کہ 1953ء کی اس تحریک میں آپ کے والد گرامی پیرزادہ محمد بہاؤ الحق قاسمی نے گرفتاری پیش کرکے نوّے دن تک شاہی قلعے میں تشدد کا نشانہ بنے، ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاسداری کے سلسلے کی خدمات کا اعتراف ہی تھا کہ مولانا سید انور شاہ کشمیری خاص طور سے مولانا بہاؤ الحق قاسمی کی دستار بندی کی تقریب میں دیوبند سے امرتسر تشریف لے گئے تھے، کشمیر کی آزادی سے انگریزی نظام کے خاتمے تک اور قائداعظم کی حمایت میں خاکساروں کے سامنے ڈٹے رہنا آپ کے بزرگوں کے نامہٴ اعمال میں جلی حروف میں لکھا ہوا ہے، بھیرہ سے وزیر آباد تک اور لاہور سے امرتسر تک عظمت کے کتنے ہی نشان ہیں جو عطاء صاحب کے بڑوں نے چھوڑے ہیں۔
یہ ولیوں کا ایک ایسا خاندان ہے جس نے فقیری میں حکمرانی کی، اسلامی اقدار سے بھرپور خانوادے کا وارث عطاء الحق قاسمی ہمارے لئے عطیہ خداوندی ہے، ایک دفعہ عطاء صاحب نے مجھ سے کہا کہ ”جبار مرزا صاحب میں بنیادی طور پر کالم نگار ہوں“ اس وقت تو میں نے ان سے صرف اتنا ہی کہا تھا کہ میں بنیادی طور پر شاعر ہوں، لیکن آج لکھ رہا ہوں کہ عطاء صاحب آپ بنیادی طور سے بہت بڑے انسان ہیں اس سے کہیں زیادہ بڑے مسلمان اور پھر پاکستانی، قائد اعظم آپ کی عقیدتوں کا محور، علامہ اقبال کے آپ پرستار، عقیدہ ختم نبوت آپ کی شناخت اور ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاسبانی آپ کا ایوارڈ، آپ کا گورنر بن جانا کوئی اعزاز کی بات نہیں البتہ گورنر ہاؤس کی گارے چونے کی دیواریں، آپ کی قدم بوسی سے اپنا قد کاٹھ بڑھانا چاہیں تو وہ دوسری بات ہے۔ کالم کے آغاز میں عطاء صاحب کے علاوہ جن انوار فیروز صاحب کا ذکر کیا ہے وہ آج ہم میں نہیں ہیں۔ 3جولائی 2013ء ماہ رفتہ کو ہم انہیں اسلام آباد کے خوبصورت قبرستان کی منوں مٹی تلے رکھ آئے تھے گزشتہ دنوں 5/اگست کو ان کے چالیسویں کی دعا تھی، جناب محسن احسان نے کہا تھا کہ ”راولپنڈی کی علمی، ادبی، سیاسی اور صحافتی زندگی کی تاریخ انوار فیروز کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی“ سید عارف نے اپنی نوجوان بیٹی کی وفات پر کہا تھا کہ #
جس کو اٹھارہ برس گود میں رکھا جائے
کتنا مشکل ہے اسے گور کے اندر رکھنا
تھوڑے بہت رد و کد کے بعد انوار فیروز صاحب کے بارے میں ہمارے بھی یہی جذبات ہیں کہ جنہوں نے راولپنڈی اسلام آباد کے ادبی ماحول میں ہمیں پھولوں کی طرح رکھا ہم انہیں مٹی میں رکھ آئے، مختار ہونے کے دعویدار انسان کے لئے اس سے بڑی محتاجی اور کیا ہوگی، انوار فیروز شاعر تھے، ادیب اور صحافی مگر زندگی کے آخری عرصے میں کالم نگاری کی طرف آگئے تھے، ان کے سارے بچے ادیب صحافی اور شاعر ہوکر مختلف اخبارات میں بھرپور خدمات انجام دے رہے ہیں، ان کی بڑی بیٹی نورین طلعت عروبہ نے نعت کی دنیا میں بہت نام پایا، ”رہے مقدر“ اور ”حاضری“ کسی خاتون شاعرہ کے دو مکمل نعتیہ مجموعے پاکستان میں منفرد اعزاز ہے اور پھر یہ کہ حکومت پاکستان کے ایوارڈ یافتہ بھی۔
انوار فیروز اکثر ہمیں سرکاری مشاعرے پڑھانے لے جایا کرتے تھے، 1975ء سے 1982ء تک شاید یہی پنجاب کے میلہ مویشیاں کا کوئی مشاعرہ ایسا ہو جو ہم نے نہ پڑھا ہو۔ اٹک، گجرات، گوجرانوالہ اور کبھی منڈی بہاؤ الدین، پنجاب کی بلدیاتی انتظامیہ کی طرف سے انہیں ایک ویگن مل جایا کرتی تھی چار شاعر تو ان کے گھر کے ہی ہوا کرتے، جن میں ان کی دو بیٹیاں نورین طلعت اور درشہوار کے علاوہ ایک بیٹا بھی شاعر ہے، سید ضمیر جعفری اور میں ان کے سفر کے دو مستقل ساتھی ہوا کرتے تھے جبکہ دیگر شعراء میں پروفیسر احسان اکبر، حسن عباس رضا، رشیدہ سلیم سیمی، عبدالباری رانا، طاہر حنفی، راشد حسن رانا، بشیر سیفی، بشیر حسین ناظم، سرور انبالوی، ناصر زیدی، نثار ناسک، اختر امام رضوی، میجر حمید یورش، محمودہ غازیہ اور ثریا شہاب گاہے گاہے شامل ہوا کرتے تھے۔
تازہ ترین