• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قلم اُٹھایا تھا کہ کوچۂ سیاست کے پیچ و خم پر بات کرتے ہوئے‘ قارئین کو اِس خطے کی سیاست کا تاریک پہلو دکھایا جائے۔ عنوان کی تلاش تھی اور خیال کی آوارگی نے غالب کا ایک شعر یاد دلایا۔ مرزا فرماتے ہیں ’’زخم کے بھرنے تلک ‘ ناخن نہ بڑھ آئیں گے کیا‘‘۔ اُردو شاعری کی روایت کے مطابق‘ غالب اہلِ دل کے زخموں کو تازہ رکھنا چاہتے تھے۔ عنوان اِسلئے موزوں پایا کہ اہلِ سیاست میں ایسے گروہ پائے جاتے ہیں جو مفاد کی خاطر تاریخ کے گھائو بھرنے نہیں دیتے۔ برصغیر پاک و ہند کی مخصوص سیاست کے چلن میں‘ ہزار سال پرانی تاریخ کے حوالے‘ عوام کے سفلی جذبات کو اُبھارنے کیلئے استعمال ہوتے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ برصغیر پاک و ہند ‘زرخیز زمین اور بہتے دریائوں کے طفیل ایک خوشحال علاقہ تھا۔ چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں منقسم اِس سر زمین کو ذات پات کی سماجی تقسیم نے عسکری قوت سے محروم رکھا۔ ہمسایہ ممالک اِس ’’سونے کی چڑیا‘‘ کو آسان ہدف سمجھ کر جا بجا فوج کشی کرتے رہے۔ ہر دفعہ مقامی افواج کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ محمود غزنوی نے سترہ حملے کئے مگر مستقل حکومت قائم نہ کی۔ خاندانِ غلاماں کی حکمرانی کے بعد ظہیرالدین بابر نے مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی۔ دُنیا کی تاریخ میں ایسا بہت کم ہوا کہ مُٹھی بھر اقلیت‘ ایک بہت بڑی اکثریت پر حکمرانی کرتی رہی ہو۔ مگر کامیاب راج نیتی میں سمجھوتے کرنا پڑے۔ مذہب میں لچک ایک ناگزیر ضرورت بنی۔طرز حکمرانی بدلتی رہی۔ اورنگزیب کی حکومت کے اسلامی تشخص نے بغاوت کے شعلے بھڑکائے۔ ایسے موقعے بھی آئے کہ بادشاہ سلامت بیس سال تک مختلف علاقوں میں اُٹھنے والی شورش سے نبرد آزما رہے۔ دارالحکومت واپس آنے کی فرصت نہ ملی۔ مغلیہ سلطنت کا زوال ہوا تو انگریز حکمران بن گئے۔ تاج برطانیہ کے زیر نگین‘ برصغیر پاک و ہند پہلی دفعہ دُنیا کے نقشے پر ایک سیاسی اکائی کی صورت نمودار ہوا۔ غیر ملکی حکمرانوں کو وفادار مقامی سیاستدان درکار تھے۔ 1885ء میں انڈین نیشنل کانگرس کی داغ بیل ڈالی گئی۔ اِس سیاسی پارٹی کی باگ ڈور اُن ہندوستانیوں کے ہاتھ آئی جو انگلستان کی بہترین یونیورسٹیوں سے تعلیم یافتہ تھے۔ اُن کی سوچ‘ جمہوری‘ سیکولر اور آزاد خیال تھی۔یہ وہ وقت تھا جب ہندو سماج میں ایسے گروہوں نے جنم لیا جو اپنی تہذیبی برتری اور وطن پرستی کا نعرہ لگا کر ہندو دھرم کی حکمرانی چاہتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اِن گروہوں کے پنپنے کے لئے ہندوستان کی سرزمین زرخیز ہوتی گئی۔ انسانی فطرت ہے کہ وہ زیادتی کا ازالہ چاہتا ہے۔ یہ گروہ ‘صدیوں پر محیط مسلمانوں کی حکمرانی کا احساس دِلا کر اپنے پیروکاروں کے ذہن میں بدلے کی آگ بھڑکاتا رہا۔ کانگرس کی سیکولر سیاست شروع ہونے کے ساتھ ہی ہندو دھرم کے احیاء کے لئے آریہ سماج تحریک شروع ہوئی۔ 1915ء میں کانگرس کے بطن سے مذہب پرست وطنیت کی حامی‘ ہندو مہا سبھا کا قیام عمل میں آیا۔ 2020-21ء میں شُدھی اور سنگٹھّن تحریکوں کے ذریعے کوشش ہوئی کہ اسلام قبول کرنے والوں کو ہندو دھرم میں واپس لایا جائے۔ چند سال بعد 1925ء کے دوران ایک ہندو ڈاکٹر بالی رام نے ناگ پور میں آر ایس ایس کی بنیاد رکھی۔ یہ تنظیم تہذیبی برتری جتانے کے ساتھ‘ ماضی کے زخم تازہ کرتی۔ ہندو نوجوانوں کی ذہن سازی اور عسکری تربیت کا انتظام کیا جاتا۔ مستقبل کی حکمرانی کے لئے ’’رام راج‘‘ کا نعرہ اتنا مقبول ہوا کہ گاندھی جو ایک ہی سانس میں اللہ اور ایشور کا نام لیتے تھے‘ اِسے اپنانے میں پیچھے نہ رہے۔ ہندوستان کی آبادی میں مسلمان صرف 22فی صد تھے۔ انگریز سے آزاد‘ مستقبل کے جمہوری نظام میں ہندو دیوتا کے نام سے جڑی حکمرانی کا تصور مسلمانوں کو خوفزدہ رکھتا۔ لال کرشن ایڈوانی‘ کراچی میں پیدا ہوئے اور نو عمری میں راشٹریا سیوک سنگھ کے رُکن بنے۔ تقسیم کے بعد‘ کراچی سے دہلی چلے گئے۔ وہ اپنی کتاب’’ My County, My Life‘‘میں تفصیل سے ذکر کرتے ہیںکہ اِس تنظیم کے اجلاسوں میں‘ میواڑ کے راجا رانا سنگھا کی بہادری اور 1576ء کے دوران ہلدی گھاٹ میں مہاراجہ پرتاب سنگھ اور اکبر کی جنگ کے قصے بیان کئے جاتے تھے۔ہندوستان کی تقسیم نے ہندو دھرم سے جڑی وطن پرست جماعتوں کے دل پر گہرا زخم لگایا۔ ایک طرف بھارت ماتا کے ٹکڑے ہونا‘ وطن پرستی کے لئے ناقابل برداشت جھٹکا تھا‘ دُوسری طرف کانگرس حکومت کے سیکولر آئین نے ‘ رام راج کے خواب کو پورا نہیں ہونے دیا۔ آر ایس ایس سیاسی پارٹی نہیں تھی۔ گاندھی کے قتل میں ملوث ہونے کے الزام پر آر ایس ایس کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بطن سے ایک نئی سیاسی پارٹی جن سنگھ وجود میں آئی۔ یہ وقت تھا کہ پرانے زخم مندمل کئے جاتے۔ پاکستان کی حقیقت کو ذہنی طور پر تسلیم کرتے ہوئے باہمی جھگڑے نپٹائے جاتے۔ مگر نئی سیاسی جماعت نے ماضی کے زخموں کو کھرچنے کا عمل شروع کیا۔ اِس سلسلے میں سومنات سے جڑی کہانی‘ اُن کے کام آئی۔ یہ مندر ہندوستان کے صوبہ گجرات کی ریاست جونا گڑھ کے ایک کونے میں واقع ہے۔ اِس عبادت گاہ میں ایک بُت کو مقناطیسی طاقت سے معلق کیا گیا۔ ہزار سال پہلے‘ توہم پرست لوگ اِس کرشمے سے متاثر ہو کر منتیں مانگتے اور قیمتی چڑھاوے دان کرتے۔ ہیرے جواہرات سے جڑی مورتیوں اور بت میں سونے کی ذخیرے کی شہرت چاروں طرف پھیلی تو محمود غزنوی کے لشکر نے سینکڑوں میل دُور‘ اِس بت کو توڑا۔ واقعہ پرانا سہی مگر دھرم سے جڑی داستان نے وطن پرست سیاست کو نئی زندگی دی۔ ہندوستان کی راج نیتی میں سومنات سے شروع ہونے والا سفر ابھی رُکا نہیں۔ سیاسی مفاد کی خاطر‘ ہندوئوں کے سفلی جذبات بھڑکانے کا خطرناک رُحجان خطے کے امن پر کس طرح اثرانداز ہو گا‘ اِس کا جائزہ آئندہ کالم میں لیا جائے گا۔

تازہ ترین