• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ بڑی خوبصورت بات کیا کرتی کہ چھٹیوں کی تھکن اتارنے کیلئے مزید چھٹیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ عید کی چھٹیوں کا زنگ ہے کہ اترنے کا کام ہی نہیں لے رہا۔ میں نے چھٹیوں سے پہلے ”لاسٹ ورکنگ ڈے“ والے کالم میں وعدہ کیا تھا کہ صدیوں پر محیط پنجاب اور پنجابیوں پر ڈھائے جانے والے ناقابل تردید مظالم پر لکھوں گا لیکن یہ موضوع اس قدر مشکل ہے کہ فی الحال ہمت نہیں پڑ رہی، سو کچھ عجیب و غریب خبروں اور بیانوں پر ہی اکتفا کروں گا۔ اسے آپ ”وارننگ اپ“ سمجھ لیں۔
طوفانی بارش نے لاہور میں گڈ گورننس بری طرح گیلی کر کے بلکہ ڈبو کر رکھ دی ہے اور اگر لاہور کا یہ حال ہے تو خود ہی اندازہ لگا لیں کہ باقی ”سوتیلے“ شہروں پر بارش میں کیا بیتی ہو گی۔ کمال یہ کہ یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوتا، ہر سال برسات میں یہی کچھ ہوتا ہے، تباہی مچتی ہے، بل ڈاگ قسم کے ڈائیلاگ بولتے جاتے ہیں، ڈنگ ٹپاؤ کارروائی ڈالی جاتی ہے اور پھر برسات کی تباہی ”رات گئی بات گئی“ ہو جاتی ہے۔ مجال ہے جو کبھی کسی حکومت نے اس مسئلہ کو سنجیدگی سے مستقل بنیادوں پر حل کرنے کا سوچا ہو کہ انہیں میٹروز اور بلٹ ٹرینوں کے جھنجھنوں سے فرصت نہیں۔ ترجیحات کے تعین کا قرینہ نہ عوام کو نہ حکام کو۔ بول بچن اور ٹوپی ڈراموں سے ہی کام چل جاتا ہو تو کسی پاگل کتے نے کاٹا ہے کہ کوئی کشٹ کاٹے اور کرنے والے کام کرے۔
ادھر اپنے آرمی چیف نے بھی کاکول اکیڈیمی میں کیا خوب کہا کہ ”ملک کیلئے ایک ہو کر سوچنا ہو گا“۔ نصابی طور پر بات بہت اچھی ہے لیکن عملی زندگی سے اس کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ ایک ہو کر سوچنے کیلئے عملاً ایک جیسے حقوق کا ہونا بہت ضروری ہے، ورنہ وہی میراثی والی بات کہ سیلاب میں گاؤں کے گاؤں مع مال مویشی حویلیوں کے سیلابی ریلے میں بہہ گئے۔ ہر طرف کہرام مچا تھا، صف ماتم بچھی تھی لیکن میراثی ایک ٹنڈمنڈ درخت پر بیٹھا قہقہے لگا رہا تھا۔گاؤں کے چوہدری نے کہا … ”او بے غیرت! پورا گاؤں تباہ ہو گیا اور تو قہقہے لگا رہا ہے“۔ میراثی نے سنجیدگی سے چوہدری کو دیکھا اور پھر زہریلے لہجے میں کہا… ”چوہدری! آج ہی تو غریب ہونے کا مزہ آ رہا ہے“… کسی غیر ملکی زباں کا محاورہ ہے کہ ”جس شہر میں مجھے بھوک سے مرتے ہوئے بھی چند خروٹ توڑنے کی اجازت نہیں، اس پر کوئی دشمن حملہ کر دے تو اس کی حفاظت بھی وہی کریں جو ان باغوں کے مالک ہیں“۔ انسان تو ایسی مخلوق ہے جو خالق کے ساتھ بھی غیر مشروط رشتہ نہیں رکھتا۔ جنت کی توقع کرتا ہے، سو ایک ہو کر سوچنا تب ہی ممکن ہو گا جب سب سٹیک ہولڈرز ہوں گے، عوام کو شرکت و شراکت کا حقیقی احساس دلائے بغیر یہ ہدف حاصل نہیں ہو سکتا۔ اسی لئے یہ معاشرہ
”I For My Self“ کا مکروہ ترین منظر پیش کر رہا ہے۔ اس ملک کی نام نہاد اشرافیہ اور عوام میں تو اتنا تعلق بھی نہیں جتنا ببون اور بندے میں ہوتا ہے۔
بیان شہباز شریف کا بھی بہت زوردار ہے کہ … ”دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہو گا، غیر ملکیوں کی حفاظت کیلئے خصوصی فورس تشکیل دیں گے“۔ جڑ سے اکھاڑنے میں تو جوڑ جوڑ دکھنے لگے گا کہ اس دہشت گردی کی جڑیں صدیوں میں پیوست ہیں، آپ اس آدم خور درخت کو تنے سے ہی کاٹ دیں تو بڑا کارنامہ ہو گا اور جہاں تک تعلق ہے، غیر ملکیوں کی حفاظت کیلئے خصوصی فورس تشکیل دینے کا تو حضور! ان بیچارے ملکیوں یعنی پاکستانیوں کا کیا قصور ہے کہ انہیں کوئی تحفظ کے قابل ہی نہیں سمجھتا۔ انہیں کم از کم اتنی حفاظت کی ضمانت تو ملنی چاہئے جتنی چڑیا گھر کے جانوروں کا حق سمجھی جاتی ہے لیکن آپ کے تو جاتی عمرے کے اردگرد ہی لاء اینڈ آرڈر نام کی کوئی شے موجود نہیں۔ البتہ آپ کے محلات کی حفاظت مزید بڑھ گئی ہے۔
جماعت اسلامی بھی پیدل بلکہ ننگے پاؤں جا کر بہت ہی دور کی کوڑی لائی ہے کہ … ”بلوچستان میں دشمن بھائی کو بھائی سے لڑا رہے ہیں“۔ خدا جانے سوچ کے اس بودے، کھوکھلے اور بے تکے انداز سے نجات کب ملے گی کہ اپنی ہر حماقت کسی ”سازش“ یا ”دشمن“ کے کھاتے میں ڈال کر خود بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔اس ر ویے نے صدیوں سے برباد کر کے رکھ دیا لیکن کوئی اس پر نظرثانی کو تیار نہیں۔ بندگان خدا! دشمن تو دشمن ہے ہی، اس سے خیر کی توقع کیسی؟ اس کا تو ”فرض“ ہے کہ آپ کے خلاف ہر حربہ آزمائے لیکن آپ خود کیا نابالغ ہیں؟ ابنارمل ہیں؟ روٹی کو چوچی کہتے ہیں؟ آپ کے دماغ کام نہیں کرتے، کانوں کو سنائی اور آنکھوں کو دکھائی نہیں دیتا جو اتنی آسانی سے کٹھ پتلیوں کی طرح دشمن کے اشارے پر ایک دوسرے کی گردنیں مار رہے ہو؟ خدا کا واسطہ بھلے لوگو! تشخیص تو صحیح کرو ورنہ جتنا چاہو چیخو، چلاؤ اور ”علاج“ کر لو… ”مریض“ صحت مند نہیں ہو گا، حیرت ہے کہ بنگلہ دیش کے بعد بھی بلوغت سے گریزاں پرچھائیوں کے تعاقب میں ہیں۔
بجلی پانی کے پورے وزیر نے 2017ء کی تاریخ دی تھی۔ ادھورے وزیر نے لوڈ شیڈنگ کے خاتمہ کا وقت بڑھا کر 2018ء کر دیا ہے جس پر قوم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ منی وزیر نے ایک اور سوشہ بھی چھوڑا ہے کہ ”ہم بجلی چور پکڑتے اور عدالتیں چھوڑ دیتی ہیں“ تو بات صحیح ہے لیکن وجہ جاننے کی کوشش کرو تو علم ہو گا کہ ان کی پولیس بجلی، گیس چوروں کے چالان ہی ایسے لولے، لنگڑے ثبوتوں کے بغیر بناتی ہے کہ عدالتیں چاہیں بھی تو سزا نہیں سنا سکتیں… ماما جی کی عدالت ہو تو اور بات ہے۔
اعمال تو چھوڑو بیشتر کی تو سوچیں ہی ٹیڑھی اور غیر حقیقی ہیں!
تازہ ترین