• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاناما لیکس میں کئی مقتدر سیاستدانوں، ان کے اہل خانہ، موجودہ وسابق ارکان پارلیمنٹ اور کاروباری شخصیات پر آف شور کمپنیوں کے ذریعے ٹیکس بچانے، منی لانڈرنگ اور سرمائے کی غیرقانونی بیرون ملک منتقلی سمیت مالی بے قاعدگیوں کے سنگین الزامات نے اس وقت ملکی سیاست اور اقتصادی ماحول کو بری طرح آلودہ کررکھا ہے۔جسے عملی اقدامات کے ذریعے جتنا جلد صاف کیا جائے اتنا ہی قوم کے لئے سودمند ہوگا۔ حکومت اور اپوزیشن معاملے کی تحقیقات کے لئے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کی زیرصدارت عدالتی کمیشن کے قیام پر متفق تھیں لیکن کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس پر ان میں بعدالمشرقین پایا گیا۔ خود فاضل چیف جسٹس نے بھی بعض تحفظات کا اظہار کیا۔ اس سے کمیشن کا قیام اب تک کھٹائی میں پڑا ہوا ہے اس تاخیر کی وجہ سے تحقیقات کے لئے دوسرے ذرائع استعمال کرنے کی تجاویز بھی آنے لگیں جس سے مزید ابہامات نے جنم لیا۔ غلط کاروں کا احتساب پوری قوم کا مطالبہ ہے اور خود سیاسی پارٹیوں کے مفاد میں بھی یہی ہے کہ ان کے بارے میں ہرقسم کے شکوک و شبہات مجازقانونی فورم کے ذریعے دور کئے جائیں۔ اس لحاظ سے بلوچستان کی مخلوط حکومت میں شامل نیشنل پارٹی کا یہ فیصلہ لائق تقلید ہے جس کے تحت اس نے یک طرفہ طور پر خود کو احتساب کے لئے پیش کیا ہے اور اپنے ارکان اسمبلی اور سنیٹروں کے اثاثوں کی چھان بین کے لئے ایک داخلی کمیٹی قائم کر دی ہے۔ پارٹی کے صدر سنیٹر حاصل بزنجو اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کوئٹہ میں ایک پریس کے دوران اپنی پارٹی لیڈرشپ کا 2002سے نیب کے ذریعے احتساب کرانے کا اعلان کیا۔ اس اقدام کی ضرورت اس لئے پڑی کہ بلوچستان کے سیکرٹری خزانہ کروڑوں روپے کے خردبرد کے الزام میں گرفتار کئے جا چکے ہیںاور نیشنل پارٹی کے لیڈر خالد لانگو اس دور میں صوبائی مشیر خزانہ تھے سکینڈل سامنے آنے پر وہ فوراً مستعفی ہوگئے لیکن مخالفین ان کے متعلق شکوک و شبہات پھیلانے لگے پارٹی نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے خود نیب کے سامنے پیش ہوں گے۔ سیاسی جماعتوں کے اندر اس طرح کےداخلی احتساب کا کوئی نظام موجود نہیں جس سے بدعنوان عناصر فائدہ اٹھاتے ہیں ان کی وجہ سے ملکی معیشت کو کرپشن کی دیمک لگ چکی ہے۔ پاناما لیکس اس لحاظ سے صدر ممنون حسین کے الفاظ میں قدرت کی لاٹھی ثابت ہوئی ہے، جس سے کئی بدعنوان لوگ بے نقاب ہوئے ہیں۔ کئی اللہ کی پکڑ میں آنے والے ہیں اور کئی ایک سال کے دوران پکڑے جائیں گے۔ صدر کا کہنا ہے کہ ملک میں بدعنوانی اب نہیں چل سکتی۔ قومی دولت لوٹنے والے ہر شخص کا احتساب ہوگا لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب عدالتی کمیشن کے ذریعے ان تمام لوگوں کا منصفانہ احتساب ہو جن پر الزامات لگے ہیں۔ ان حضرات کی اپنی نیک نامی بھی اسی میں ہے کہ وہ زبانی وضاحتوں اور تردیدی بیانات سے آگے بڑھ کر خود کو عدالتی کمیشن میں پیش کریں اور بریت کی سند حاصل کریں۔ اس وقت حکومت اور اپوزیشن دونوں کے لیڈر الزامات کی زد میں ہیں۔ حکومت نے عدالتی کمیشن کے لئے چیف جسٹس کو خط لکھ کر اپنی ذمہ داری پوری کی۔ ٹرمز آف ریفرنس پر اختلافات باہمی مشاورت سے دور کر کے دونوں کمیشن کے قیام میں اصلی رکاوٹ دور کرسکتے ہیں۔ توقع کی جا رہی ہے کہ پیر کی شام قومی اسمبلی سے وزیراعظم نوازشریف کے خطاب کی روشنی میں یہ معاملہ افہام و تفہیم سے حل ہو جائے گا۔ اجتماعی دانش غالب آئے گی اور اپوزیشن کی صفوں میں موجود سیاسی عقاب محاذآرائی جاری رکھنے کی بجائے قومی مفاد میں مشترکہ لائحہ عمل کا حصہ بن جائیں گے۔ برسہابرس سے قومی دولت لوٹنے والوں کا کڑا احتساب وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے مگر اس معاملے میں سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے ایک دوسرے پر الزام تراشی اور غوغاآرائی کی بجائے نتیجہ خیز عملی اقدامات کی طرف لوٹنا چاہئے۔ تحقیقاتی عمل میں تاخیر بدعنوان عناصر کو ڈھیل دینے کے مترادف ہوگی۔
تازہ ترین