• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اب تو پاکستان میں بھی سیاست اور موسم پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا ۔موسم میں تبدیلی کی وجہ تو ماحول کی وجہ سے ہے گرمی اور حدت کے موسم کا دورانیہ بڑھ گیا ہے اور اوپر سے ستم یہ کہ بجلی کا کوئی اعتبار نہیں ۔بجلی اور سیاست دونوں پر اعتبارکرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے بجلی کی قیمت کا فارمولا اتنا پیچیدہ اور ناقص ہے کہ عوام اس کو بھی خراج کے طور پر ادا کرتے نظر آتے ہیں ۔حکومتی اشرافیہ آئے دن بجلی کی ترسیل کے لئے نت نئے افسانے سناتے نظر آتے ہیں بجلی کے بڑے وزیرخواجہ آصف اور چھوٹے وزیر عابد شیر علی ایک دوسرے کی بات بھی نہیں سنتے ۔ایسے میں عوام کی بات کون سنے گا ۔اب کارسرکار کے لوگ عوام کو امید دلا رہے ہیں کہ بجلی کے معاملات 2018ء میں ٹھیک ہو سکتے ہیں 2018ء اصل میں الیکشن کا سال ہے۔مگر ملک میں سیاسی موسم بہت ہی خراب ہوتا نظر آ رہا ہے ۔اس خراب سیاست اور خراب موسم نے جمہوریت کے ماحول کو خطرہ بھی لاحق کر دیا ہے۔
خبر ہے کہ وزیر اعظم اور آرمی چیف کی ملاقات میں جنرل راحیل شریف نے وزیر اعظم پاکستان کو مشورہ دیا ہے کہ پاناما لیکس کی وجہ سے ملک بھر میں سیاسی بدنظمی نظر آرہی ہے اور باہر بھی ہمارا چہرہ متاثر ہو رہا ہے آپ اس معاملے پر توجہ دے کر اس کو ختم کروائیں ۔اور یہ بات کوئی ایسی نہیں تھی کہ اس کو اہم خبر کی حیثیت دی جاتی تاہم کرپشن کے معاملات ایسے ضرور ہیں جن پر حکومت کو بہت ہی تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔
صوبہ بلوچستان میں اعلیٰ اختیاراتی نوکرشاہی شخصیت کے گھر سے بھاری رقوم کی برآمدگی صوبے کے کئی لوگوں پر الزام لگا رہی ہے اور کچھ اہم لوگ وزیر اعظم کے بہت ہی قریب سمجھے جا رہے ہیں ۔نوکرشاہی، سیاسی اشرافیہ اور مقامی سردار جو کھیل دکھا رہے ہیں وہ جمہوریت کی آڑ میں ملکی سلامتی کیلئے بھی خطرناک ہے ۔حکومتی ادارے اس معاملے کو حسب معمول روایتی طریقے سے دیکھ رہے ہیں۔اس وقت پاکستان کی داخلی صورتحال دہشت گردی کی وجہ سے بہت ہی ابتر ہے ۔فوج اس وقت ضرب عضب میں مصروف ہے دہشت گردوں کو بہت حد تک پسپا کیا جا چکا ہے ۔مگر ان کے سہولت کار جو اصل میں ہمارے معاشرے میں ہر جگہ اپنی جگہ بنا چکے ہیں اس کے لئے ایک اور ضرب عضب کی ضرورت ہے جو سب سے پہلے بدنظمی، بدانتظامی پر توجہ دے جس کی وجہ سے کرپشن کرنے میں آسانی ہوتی ہے ۔
اس وقت کرپشن کے معاملے پر پیپلز پارٹی میں کافی تقسیم نظر آ رہی ہے صوبہ سندھ کی پیپلز پارٹی نے ڈاکٹر عاصم کے مقدمے کی وجہ سے چپ سادھ رکھی ہے ۔صرف پنجاب ونگ کرپشن کے معاملات پر حزب اختلاف کا کردار ادا کر رہی ہے مگر ان کے لیڈر خورشید شاہ آئے دن سابق صدر آصف زرداری کے فرمودات کے تناظر میں بیان بدلتے نظر آتے ہیں ۔پیپلز پارٹی کی واحد امید بلاول زرداری میدان عمل میں نظر آ رہا ہے وہ خاصی سخت زبان استعمال کرتا ہے وہ واحد نوجوان ہے جس کے بارے میں مسلم لیگ نواز بہت سوچ سمجھ کر بات کرتی ہےشاید پرانے حلیف آصف زرداری کا خیال آتا ہے آصف زرداری کو اندازہ ہے کہ میاں نواز شریف کی شفقت کی وجہ سے پیپلز پارٹی پانچ سال پورے کر سکی اور ان کی صدارت بھی برقرار رہی اگرچہ انہوں نے اس کی قیمت وزیر اعظم کی قربانی دیکر پوری کی تھی ۔
پیپلز پارٹی کے چوہدری اعتزاز احسن پیپلز پارٹی کو بچانے نکلے ہیں ان کو اندازہ ہے کہ پارٹی کو اگر زندہ رکھنا ہے تو کرپشن کے خلاف سب کا ساتھ دینا ہو گا ۔بظاہر ان کا نشانہ وزیر اعظم پاکستان لگ رہے ہیں ۔یہ بات درست نہیں ہے کرپشن کے معاملات پر حکومتی طریقہ کار مناسب نہیں ہے ایک طرف وزیر اعظم پاکستان خراب صحت کے باوجود محترک نظرآئے اور جلسے بھی کئے مگر جن لوگوں کے ساتھ انہوں نے خیبر پختونخوا میں جلسہ کیا ان کی اپنی حیثیت بہت مخدوش ہے ۔ ان کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں جاتے رہنا چاہئے یہ وقت کی ضرورت ہے اور ان کے پاس معقول سیاسی قوت بھی ہے ارکان اسمبلی ان کی بات سنتے بھی ہیں وہ اسمبلی اور سینیٹ کو کیوں نظر انداز کرتے ہیں اور ان کےجلسوں سے تاثر ملا کہ وہ قبل از وقت انتخابات کا سوچ رہے ہیں اور یہ ہی بات حزب اختلاف چاہتی ہے ۔
دوسری طرف عمران خان کی جلسوں کی سیاست سے بھی یہ تاثرملا کہ قبل از وقت انتخابات کے لئے تیاری کر رہے ہیں جبکہ پنجاب اور مرکز کے وزراء عمران خان کے خلاف جو زبان استعمال کر رہے ہیں اس سے بھی مسلم لیگ کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے اس وقت میاں نواز شریف کے خلاف عوام نہیں ہیں ان کو اگر خطرہ ہے تو ان لوگوں سے جو اسمبلی اور سینیٹ میں ہیں ملک میں ایک اور تاثر عام ہے کہ آصف زرداری اور میاں نواز شریف دونوں ایک ہی طرف ہیں ۔آصف علی زرداری کی کوشش ہے کہ پارٹی ایک حد تک میاں نواز شریف کو پریشان رکھے اور اگر وہ حد بڑھ گئی تو ان کو بھی پریشانی لاحق ہو سکتی ہے اب ایک دفعہ پھر ملک سے باہر پاکستان کے مہربان اور قدردان دوست آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف سے مشاورت کر رہے ہیں ۔اس سلسلے میں اگلے چند دن میں میاں صاحب لندن جانے والے ہیں جہاں وہ اپنا سیاسی اور جسمانی چیک اپ کروا سکتے ہیں۔ یہ سب کچھ پاکستان کی سیاست اور جمہوریت میں نیا نہیں ہے دوسری طرف کرپشن کے خاتمے کے لئے آئی ایم ایف ہمارے اداروں کی نجکاری کروا رہا ہے پھر یہ بھی خبر ہے کہ آئی ایم ایف ہمارے پر سے دستِ شفقت کا سایہ ابھی مزید رکھ سکتا ہے ۔
لگتا یوں ہے کہ فریقین کے پاس وقت کم ہے ملک بھر میں بے چینی تو ہے ایک تو بجٹ کے معاملات میں بھی حکومتی لوگ یکسو نہیں ہیں پھر نوکر شاہی کی کرپشن اتنی عام ہے کہ اب وہ نظام کا حصہ بن چکی ہے ۔پھر اختیار اور اقتدارمیں شریک لوگ عوام کو مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں چند دن پہلے ہی فیس بک پر ایک لطیفہ پڑھا کہ ایک مقتدر شخصیت نے مقامی اسکول کا دورہ کیا ایک بچے نے کہا جناب 14مہینے ہو گئے ہیں اسکول ٹیچر نہیں آیا پوچھا پھر اسکول کیسے چل رہا ہے بچہ بولا جناب جیسے ملک چل رہا ہے تو ملک چلانے کے مشورے باہر نہیں ملک کے اندر کرنے ضروری ہیں سو سوچ لیں کہ کب کیا کرنا ہے۔
تازہ ترین