• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کو اس وقت اندرونی خلفشار اور بیرونی سازشوں کا سامنا ہے۔ پاکستانی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔ اقتصادی چیلنج سے نمٹنے کے لئے ٹیکس اسٹرکچر، پالیسی اور اداروں میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ حکومت کا حجم کم کرنے اور آزاد معیشت کے ذریعے عام آدمی کے مفاد کا تحفظ کیا جاسکتا ہے اور اجارہ داریوں کو ختم کرکے ملکی ترقی و خوشحالی کی جانب گامزن ہوا جا سکتا ہے۔ پاکستانی اقتصادیات کو پائیدار اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے جو صرف طویل مدتی وژن اور بنیادی اصلاحات سے ہی ممکن ہو گی۔ فاٹا،بلوچستان ،کراچی سمیت پورے ملک میں حالات تشویشناک صورت اختیار کر چکے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے دورہ پاکستان میں نواز شریف حکومت نے امریکی حکومت پر ڈرون حملے روکنے پر زور دیا ہے۔اگرچہ امریکہ 2014ء تک ڈرون حملے کسی بھی صورت روکنے کے حق میں نہیں ہے تاہم امریکی حکومت کو پہلی مرتبہ یہ احساس ہوا ہے کہ نئی پاکستانی حکومت”ڈرون حملوں“ پر سخت موقف رکھتی ہے۔ امریکہ2014ء کے اواخر تک پاکستان کو ”ڈرون حملوں“ میں الجھائے رکھنا چاہتا ہے۔ ڈرون حملے پاکستان کی سا لمیت اور خودمختاری کو شدید نقصان پہنچا رہے ہیں۔ معروف امریکی دانشور نوم چومسکی نے پاکستان اور یمن میں ہونے والے ”امریکی ڈرون حملوں“ پر شدید تنقید کی ہے۔ پاکستان میں استحکام تب ہی ممکن ہے کہ جب ڈرون حملوں کو رکوایا جائے۔ ڈرون حملے ہماری آزادی، سا لمیت اور وقار پر حملہ کے مترادف ہیں۔ عمل کا ردعمل ہوتا ہے پاکستان میں امریکی ”ڈرون حملے“ رک جائیں تو قبائلی علاقہ جات سمیت پورے ملک میں امن بحال ہو سکتا ہے ۔ 2014ء میں امریکی و نیٹو فورسز کے انخلاء کے بعد پاکستان کو آئندہ منظر نامے پر گہری نظر رکھنا ہو گی۔ افغانستان میں بھارتی اثرورسوخ کو ختم کرنے کے لئے جامع حکمت عملی کی ضرورت ہو گی۔ قندھار اور جلال آباد میں بھارتی قونصل خانوں میں بھارتی انٹیلی جنس کی موجودگی پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کیلئے ہے۔ بھارت نائن الیون کے بعد سے اب تک افغانستان میں امریکی چھتری تلے بیٹھ کر پاکستان کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف عمل ہے۔ بلوچستان، فاٹا اور کراچی کے حالات کی خرابی میں بھارتی مداخلت کے ثبوت بھی ہمارے حساس اداروں کے پاس موجود ہیں۔ اس قدر پیچیدہ اور خطرناک صورتحال کے پیش نظر مستقبل میں پاکستان کا کردار بڑا اہم ہو گا۔ ہمیں ممکنہ راہوں اور اپنے مفادات کا ازسرنو جائزہ لینا ہو گا۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں بدترین ریاستی مظالم سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لئے افغانستان اور بنگلہ دیش میں معاملات کو پیچیدگی اور الجھاؤ کی طرف لے کر جا رہا ہے۔ بھارتی فوج کی جموں وکشمیر کنٹرول لائن کی حالیہ مسلسل خلاف ورزیوں اور اشتعال انگیزیوں سے پاک بھارت کشیدگی بڑھتی جارہی ہے۔اس کی انتہا پسندانہ روش سے پورے خطے کا امن تہہ و بالاہو چکا ہے۔بھارت میں چونکہ عام انتخابات قریب ہیں اس لئے کانگریس اور بی جے پی سیاسی پوانئٹ اسکورنگ کرکے بھارتی عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتی ہیں۔یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ بھارت مذاکرات کا ڈھونگ رچا کر ہمیشہ دنیاکی آنکھوں میں دھول جھونکتا ہے۔ اس لئے نواز شریف حکومت کو بھی بھارت سے کوئی اچھی توقع نہیں رکھنی چاہئے۔ بھارت کی اس روایتی چال بازی اور مکاری سے کشمیر کاز کو نقصان پہنچا ہے۔ افغانستان اور بنگلہ دیش دونوں پاکستان کے قریبی ہمسایہ ممالک ہیں۔بنگلہ دیش میں بھی بھارت پاکستانی فوج کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی سازش کررہا ہے۔ 1971ء میں جن محب وطن قوتوں نے پاکستان کو قائم رکھنے کے لئے پاکستانی فوج کا ساتھ دیا ان کو بنگلہ دیش میں نشانہ ستم بنایا جارہا ہے۔یہ سب کچھ اس لئے کیا جارہا ہے کہ بنگلہ دیش میں پاکستانی فوج کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈے کی راہ ہموار کی جا سکے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بھارتی حکومت اس معاملے میں بنگلہ دیشی حسینہ واجد حکومت کی مکمل طور پر سرپرستی کررہی ہے مگر لمحہ فکریہ یہ ہے کہ حکومت پاکستان نے پاکستان کیلئے ”ان مرمٹنے والوں“ کو تن تنہا چھوڑ دیا ہے۔ افغانستان میں امریکی و نیٹو فورسز کے انخلاء کے بعد ”پاکستان دوست“ حکومت کے قیام کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ بھارت کبھی نہیں چاہے گا کہ افغانستان میں کوئی ایسی حکومت بنے جو امریکی و بھارتی مفادات کیخلاف کام کرے۔ بھارت شمالی اتحاد کو اکسانے اور وہاں ”خانہ جنگی“ کی صورتحال برقرار رکھنے کو ترجیح دے گا۔ہماری سول اور فوجی قیادت کو اس نازک اور اہم مسئلے پر سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے۔افغانستان کا امن جنوبی ایشیاء کے امن کا ضامن ہے۔ جب تک افغانستان میں حالات بہتر نہیں ہوتے پورے خطے میں صورتحال معمول پر نہیں آسکتی۔ پاکستان کا مفاد اسی میں ہے کہ بھارت کا جنوبی ایشیاء میں کردار ”محدود“ کیا جائے۔ پاکستان، چین، افغانستان اور ایران باہم متحد ہو کر مشترکہ حکمت عملی اپنا کر بھارت کے اس خطے پر اثرات کو کم کر سکتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کو بھی دنیا کے سامنے اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ نائن الیون کے بعد دانستہ طور پر کشمیر اور فلسطین کے مسائل کو دنیا کی نظروں سے اوجھل کر دیا گیا۔ امریکہ،بھارت اور اسرائیل شیطانی تثلیث ہے۔ دنیا کا امن اس”شیطانی تثلیث“نے برباد کیا ہوا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک آزادیٴ کشمیر میں اب تک ایک لاکھ سے زائد افراد بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید ہو چکے ہیں۔ ہزاروں مسلمان خواتین کی آبرو ریزی کی گئی ہے۔ عالمی ضمیر کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ مشرقی تیمور کو تو آزادی نصیب ہو سکتی ہے۔ سوڈان کے دوحصے بن سکتے ہیں لیکن مقبوضہ کشمیر آج بھی بھارت کے زیر تسلط ہے۔کشمیری عوام کو آزادی کی نعمت حاصل نہیں ہو سکی۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے عالمی ادارے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ بھارت کے نہتے کشمیری مسلمانوں پر بدترین ریاستی مظالم کو دنیا بھر میں بے نقاب کرنے کیلئے گزشتہ دنوں بڑی قابل ذکر سرگرمی دیکھنے میں آئی۔
پاکستان اور دنیا بھر سے ایک کروڑ ای میلز اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو بھجوا کر عالمی برادری کو اس اہم اور حساس مسئلہ کی جانب متوجہ کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ تحریک آزادیٴ کشمیر میں جماعت اسلامی کی قیادت میں قاضی حسین احمد اور عبدالرشید ترابی کا کردار بڑا نمایاں ہے۔ جماعت اسلامی کے سابق امیر اور ملت اسلامیہ کے عظیم قائد قاضی حسین احمد نے مسئلہ کشمیر کو احسن انداز میں عالمی سطح پر روشناس کرایا۔ جماعت اسلامی آزاد کشمیر نے ایک بار پھر ”تحریک آزادی کشمیر“ تقویت پہنچانے کے لئے راجہ فاضل حسین تبسم کی سربراہی میں حق خودداریت ای میل پروگرام تشکیل دیا۔ پوری دنیا میں یکجہتی کشمیر ای میلز کے اس سلسلے کو بڑی پذیرائی ملی۔ حکومت پاکستان کو اپنی ”کشمیر پالیسی“ کا واضح اور دوٹوک اعلان کرنا چاہئے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف اور آصف علی زرداری کے سابقہ ادوار میں ”تحریک آزادی کشمیر“ سے صرف نظر کر کے مسئلہ کشمیر کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔ اب حکومت پاکستان کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے عالمی برادری پر زور ڈالنا چاہئے۔ حکومت پاکستان کا یہ فرض ہے اور کشمیریوں کا اس پر قرض ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کو سرکاری سطح پر اقوام عالم کے سامنے لایا جائے۔بھارت کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ ایک لاکھ کشمیری شہداء کا لہو پاکستانی حکومت اور عوام سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اس کو بھارت کے پنجہ استبداد سے نجات دلائی جائے۔ پاکستان کی ترقی و خوشحالی اسی وقت ممکن ہو سکتی ہے کہ جب کشمیر آزاد ہوکر پاکستان کا حصہ بنے اور جنوبی ایشیاء سے بھارتی و امریکی مداخلت کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔
تازہ ترین