• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شاید ہی کوئی شخص ہو جو نئی قومی سیکورٹی پالیسی بنانے کے بارے میں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی مخلصانہ نیت کو شک کی نگاہ سے دیکھے۔ وہ حالات پر اتنے ہی متفکر اور دکھی ہیں جتنا کہ کوئی عام پاکستانی۔ کشت و خون پر ان کا دل بھی خون کے آنسو رو رہا ہے۔ تھوڑے ہی عرصہ میں وزیر داخلہ اور موجودہ حکومت کا ہر اہم فرد اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ صورتحال ” مرو یا مار دو “ کی سطح پر پہنچ چکی ہے اور اب کوئی اور آپشن ہی نہیں۔ ان دونوں راستوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے وہ بھی بہت جلد۔ دیر سے معاملات مزید خراب اور گمبھیر ہوں گے اور معصوم لوگ اس دہشت گردی کا شکار ہوتے رہیں گے۔ حکومت کی حتمی رائے ہے کہ چاہے وہ رہے نہ رہے اس نے اس مسئلے کو ہر صورت حل کرنا ہے۔ راستے دو ہی ہیں، بات چیت کی جائے یا جنگ۔ حکومت کی پہلی کوشش ہے کہ دہشت گردوں کو بات چیت سے ہی مائل کیا جائے کہ وہ اپنی روش اور پالیسی بدل دیں اسی میں ان کی، ملک اور ہم سب کی بھلائی ہے تاہم اگر وہ اس پر راضی نہیں ہوتے تو جنگ ہو گی جس میں یقیناً فتح ریاست کی ہو گی مگر اس آپشن میں مزید خون بہے گا اور کئی اور معصوم جانیں ضائع ہوں گی۔
وزیر داخلہ کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ مختلف علاقوں میں مختلف عناصر پاکستان کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں۔ خیبر پختونخوا میں تحریک طالبان پاکستان نبرد آزما ہے اس کے ساتھ تاوان لینے والے بھی اپنی مجرمانہ کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں پھر مذہبی منافرت اور فرقوں کی سیاست کرنے والے بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ خیبر پختونخوا کے علاوہ بھی دوسرے کئی علاقوں میں تحریک طالبان دہشت گردی کر رہی ہے، اس کا مرکز قبائلی علاقہ اور افغانستان ہے۔ افغان حکومت کے عدم تعاون سے پاکستان کے لئے ایسے دہشت گردوں سے دو دو ہاتھ کرنا کافی مشکل رہا ہے۔ بلوچستان میں مختلف ایکٹرز مصروف عمل ہیں۔ تحریک طالبان، مذہبی انتہا پسند تنظیمیں اور ناراض بلوچ ہیں۔ ہر کوئی اپنے اپنے ایجنڈے کے حصول کے لئے جنگ کر رہا ہے۔ کراچی میں بھی تحریک طالبان دہشت گردی کے واقعات کرا رہی ہے مگر ٹارگٹ کلنگ میں سیاسی عناصر ملوث ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے ساتھ موجودہ حکومت اپنے تعلقات بالکل نارمل صرف کراچی کے بدترین حالات کی وجہ سے نہیں کر رہی۔
ان عناصر کے علاوہ دنیا کی مختلف بیرونی قوتیں بشمول امریکہ، ہندوستان اور کچھ دوسرے دوست اور برادر مسلم ممالک اپنے اپنے مفادات کے لئے پاکستان میں جنگ میں مصروف ہیں تاہم ان ممالک کی ایک بھی نہ چلے اگر ہمارے اپنے ہی لوگ معمولی مفادات کے لئے ان کے ساتھ شامل نہ ہوں لہٰذا ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنا ہے ان ممالک کو کیا لگے کہ پاکستان برباد یا آباد ہو ان کو تو سروکار ہے اپنے اپنے مفادات سے۔اگر ایک ملک کو گوادر پورٹ اور پاکستان کے چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات پسند نہیں کیونکہ اس کی اپنی بین الاقوامی تجارتی حیثیت متاثر ہو گی تو دوسرا کشمیر میں مجاہدین کی کارروائیوں کا بدلہ لے رہا ہے۔ ایک دوسرا ملک جو اپنے آپ کو پاکستان کے دوست کے طور پر پیش کرتا ہے بلوچستان میں حالات خراب کر کے اسے لگاتار دباؤ میں رکھنا چاہتا ہے تاکہ اس کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اسلام آباد بالکل کمزوری نہ دکھائے اور وہ کچھ کرتا رہے جو وہ چاہتا ہے۔ قومی سیکورٹی پالیسی بنانے سے قبل اور بعد میں بھی ہمیں ان تمام ممالک سے دو ٹوک بات کرنی ہو گی کہ وہ پاکستان کو اپنے مفادات کے لئے میدان جنگ بنانا بند کر دیں ورنہ ان کے ساتھ تعلقات کو ریویو کیا جائے گا اور پاکستان ان کے ساتھ تعاون پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہو گا۔
ایک وفاقی وزیر نے انتہائی مناسب انداز میں ہمیں کہا کہ فرض کریں اگر حکومت بہت زیادہ بجلی پیدا کرکے عوام کو مفت دینا شروع کر دے، ملک کے معاشی حالات کافی ٹھیک ہو جائیں،بہت سے ترقیاتی منصوبے شروع کر دیئے جائیں اور عوام کوآسانی سے روزگار بھی مل جائے مگر ملک میں دہشت گردی اسی رفتار سے جاری رہے، امن و امان کی صورتحال انتہائی تشویشناک رہے، کراچی میں ٹارگٹ کلنگ جاری رہے اور اغوا برائے تاوان کی وارداتیں بڑھتی رہیں تو کیا یہ پاکستان کے لئے بہتر ہو گا جواب یقیناً نفی میں تھا کیونکہ جب تک دہشت گردی کو ختم نہ کیا جائے ملک میں خوشحالی بے کار ہے۔ عوام کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ وہ سکون سے زندگی گزار سکیں اور ایسے حالات سے چھٹکارا حاصل کر لیں جن میں وہ مساجد میں بھی عبادات پُرسکون طریقے سے نہیں کرسکتے۔ وزیر موصوف کا کہنا تھا کہ وہ عناصر جو پاکستان کو میدان جنگ بنائے ہوئے ہیں مشکل سے ہی بات چیت کی زبان سمجھیں گے اور ان کے ساتھ بالآخر جنگ کرنا ہی پڑے گی جس میں یقیناً سیکورٹی فورسز کے بھی کچھ نقصانات ہوں گے اور سویلین حکومت کو برے نتائج کا سامنا ہو گا مگر اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں۔ فتح ریاست کی ہی ہونی ہے۔
چوہدری نثار آئندہ دو ہفتے میں وزیراعظم کو قومی سیکورٹی پالیسی کا خاکہ پیش کر دیں گے یقینا بنیادی ذمہ داری حکومت کی ہے کہ وہ حالات کو ٹھیک کرے مگر اس کے ساتھ ساتھ تمام سیاسی قیادت کا بھی فرض ہے کہ وہ اس نیک کام میں اپنی مخلصانہ کوششوں کو شامل کرے۔ سیاست بہت ہو گئی خدارا ملک کا سوچیں۔ خصوصاً پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو اس طرف غور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہی سب سے زیادہ اس پر سیاست کر رہے ہیں۔ حکومت پر نکتہ چینی اور حملے اپنی جگہ مگر پاکستان کو دہشت گردی سے نجات دلانا سب کی ذمہ داری ہے۔ اگر موجودہ حکومت کمزور بھی ہو جائے اور چلی بھی جائے اور عمران خان اس کی جگہ لے لیں تو بھی ملک کے اس سب سے بڑے مسئلے کو حل کرنا ہی ہے جو کہ یقیناً صرف حکومت یا ایک سیاسی جماعت کے بس کا کام نہیں۔ ہوش کے ناخن لیں اگر ملک ہی دہشت گردوں اور انتہاپسندوں نے ہائی جیک کر لیا تو کس پر حکومت اور کہاں کی سیاست۔
وزیر داخلہ کا صحیح کہنا تھا کہ حکومت یکطرفہ قومی سیکورٹی پالیسی نہیں بنائے گی بلکہ ہر سیاسی جماعت کی رائے اس میں شامل ہو گی اور اگر سیاسی قوتیں یہ فیصلہ کریں گی کہ دہشت گردوں کے ساتھ بات چیت کرنی ہے تو ضرور کی جائے گی اور اگر جنگ کرنی ہے تو اس سے بھی کنّی نہیں کترائی جائے گی۔ حکومت ہر طرح تیار ہے۔ ریٹنگ کے لئے ہر دم ڈسپریٹ(desperate) ”دانشوروں“ کی بھی کچھ ذمہ داری ہے اگر وہ سمجھیں سوائے اس کے کہ شام کو اپنے اپنے ایڈیٹ باکس (idiot box) بیٹھ کر دو چار ہتھوڑے مارے اور اگلے چند گھنٹے مزے لیتے رہے کہ ہم نے کیا بہادری سے کمال دکھایا ہے ہم کسی سے نہیں ڈرتے۔
تازہ ترین