• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دو، ڈھائی ہفتوں میں کوئی کتنی زندگی جی سکتا ہے، اس کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ لیکن ایسے دن ہوتے ہیں جو جذبات اور احساسات کی شدت سے لبریز، ایک خواب بن کر گزر جاتے ہیں۔ اپنی بیوی کے ساتھ میں آج کل امریکہ میں، اپنی بیٹی کے آباد گھر میں ایسے ہی چند دن گزار رہا ہوں۔ زندگی کے تمام سلسلے یکسر بدل گئے ہیں۔ ویسے بھی ہم پاکستان کے روز و شب کے حصار سے بہت دور، ایک دوسری دنیا میں ہیں۔ ہماری بیٹی جنوبی کیلی فورنیا میں، لاس اینجلس کے بڑے دائرے میں رہتی ہے۔ یہ علاقہ اپنے موسم اور اپنے انداز زیست کے لحاظ سے دنیا میں اپنا ایک الگ مقام رکھتا ہے۔ یہاں چند روز قیام کرکے اور یہاں کی زندگی کی ساری آسائشوں کو برت کر ان فاصلوں کا مسلسل خیال رہتا ہے جو پاکستان اور دنیا کے دوسرے ترقی یافتہ اور خوشحال ملکوں کے درمیان موجود ہیں۔ ایک ایسے زمانے میں جب ٹیکنالوجی کے جادو نے پوری دنیا کو اپنی مٹھی میں سمیٹ لیا ہے یہ فاصلے زیادہ پیچیدہ اور معنی خیز ہوگئے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ مہینے تاریخ کے کئی ادوار آپس میں گڈمڈ ہوگئے ہیں۔ اس آندھی میں بے شمار خاندان ٹوٹ کر بکھر گئے ہیں اور وہ لوگ جن کے بغیر جینا ایک سزا ہے اب اتنی دور جابسے ہیں کہ گھڑی کا وقت بھی صبح کو شام اور شام کو صبح میں تحلیل کردیتا ہے۔ ہم چاند کو اور سورج کو ایک ساتھ دیکھ بھی نہیں سکتے۔ پاکستان اور کیلی فورنیا میں بارہ گھنٹے کا فرق ہے اور سردیوں میں اس میں ایک گھنٹے کا اضافہ ہوجاتا ہے۔
یہاں ہمارا وقت کس طرح گزرتا ہے اس کی تفصیل ممکن نہیں۔ ہاں، میں اپنے ایک عزم میں ناکام رہا ہوں کہ ان چند دنوں کے لئے پاکستان کے حالات و واقعات سے بے تعلق ہوجاؤں، اپنے ذہن کی اس کھڑکی کو بند کردوں جو پاکستان کی طرف کھلتی ہے۔ ایسا ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ ٹیلی ویژن پر اپنے ملک کے سارے اہم چینل دستیاب ہیں۔ انٹرنیٹ اور فون کے رابطوں سے چھٹکارا مشکل ہے۔ بیٹی اور داماد کے حلقہ احباب میں تقریباً سب پاکستانی ہیں۔ عید کے آس پاس دعوتوں کی بھرمار ہے۔ میرا صحافی ہونا بھی ایک مسئلہ ہے۔ جیسے مجھے اندر کی باتوں کا علم ہے اور بار بار یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کہاں جارہا ہے۔ کوئی امید بھی ہے یا نہیں۔ تازہ سرخیاں اس سوال کو زیادہ پھیلا دیتی ہیں۔ یہ سب کچھ ہورہا ہے، کیوں ہورہا ہے؟ میری کوشش یہ ہوتی ہے کہ میں اس سوال کو ٹال دوں۔ میرے پاس بھی توکئی ایسے سوال ہیں جو ان لوگوں سے پوچھے جاسکتے ہیں جو پاکستان کو چھوڑ چکے ہیں۔ ہماری اپنی اولاد، ہماری دونوں بیٹیاں اب پردیس میں آباد ہیں اور یہ سوال ہماری ذاتی زندگی سے مربوط ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب اپنے لئے امریکہ میں مستقل قیام کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا اور اس کی ایک کہانی بھی ہے کہ میں نے بخوشی ایسے ایک موقع کو ہاتھ سے جانے دیا۔ لیکن اب حالات بہت بدل گئے ہیں اور یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ کیوں کچھ افراد، اپنے مقاصد اور اپنے پیشے سے وفا کرتے ہوئے پاکستان چھوڑنے کے فیصلے کا دفاع کرسکتے ہیں۔ یوں بھی! نئی دنیا ہجرتوں سے عبارت ہے اور امریکہ اس کی ایک درخشاں مثال ہے کہ یہاں دنیا بھر کے ملکوں اور نسلوں اور تہذیبوں کے مہاجر آباد ہیں اور ان لوگوں کی تعداد کا تو کوئی شمار ہی نہیں جو امریکہ آنے اور یہاں رہ جانے کے خواب دیکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان میں پاکستانی بھی شامل ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ پاکستان میں امریکہ سے نفرت کسی حد تک حب الوطنی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ اس کی ایک وجہ امریکہ کی انتہائی متنازع خارجہ پالیسی ہے۔ خود امریکہ میں ایسے ناقد موجود ہیں جو اپنے ملک کی خامیوں کو اجاگر کرتے ہیں۔
جہاں تک امریکی معاشرے اور اس ملک میں گزاری جانے والی زندگی کا تعلق ہے تو یہ ایک الگ داستان ہے۔ میں اتنی بار امریکہ آیا ہوں اور بہت سالوں پہلے یہاں طویل عرصے تک قیام بھی کیا ہے اس لئے میں اس ملک کو اچھی طرح جانتا ہوں اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ میرے لئے نہیں ہے۔ پھر بھی، یہاں آکر میں ایک بھرپور زندگی گزارنے کے امکانات کو للچائی نظروں سے دیکھتا ہوں۔ اعلیٰ ذوق کی تسکین کے سارے مواقع موجود ہیں۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ امریکہ کی برتری کا راز اس کے تعلیمی اداروں میں پنہاں ہے۔ امریکہ کی یونیورسٹیاں تحقیق اور تخلیق کی آماجگاہ ہیں۔ آج کل اسکولوں کی چھٹیاں ہیں لیکن میں نے اپنے بارہ سال کے نواسے اور سات سال کی نواسی کے اسکول دیکھے ہیں۔ ان کی سچی منظر کشی میں بھی کہانیوں کا تاثر پیدا ہوسکتا ہے اور یہ وہ اسکول ہیں جو سب کے لئے ہیں۔ اور یہ پبلک اسکول ہیں جہاں فیس نہیں لی جاتی۔ اسکول کے اوقات میں کسی بچے کا سڑک یا بازار میں پایا جانا ایک جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسی ہی دوسری بے شمار باتیں ہیں جن کا غریب ملکوں کے عام شہری تصور بھی نہیں کرسکتے۔ نئی ایجادات کے ساتھ زندگی میں کیا تبدیلیاں پیدا ہورہی ہیں ان کا بھی مشاہدہ کرتا رہا ہوں۔ مثلاً میری بیٹی کو بچپن سے کتابیں پڑھنے کا شوق ہے۔ اب وہ کتابیں پڑھتی کم ہے اور سنتی زیادہ ہے۔ وہ یوں کہ اپنے کلینک جانے اور واپس گھر آنے کے لئے اسے میلوں کار چلانا پڑتی ہے اور اس سفر میں وہ کتابیں سنتی ہے۔ اپنی پسند کی تقریباً تمام کتابیں اسے آڈیو کی شکل میں مل جاتی ہیں۔
اس کالم کے آغاز میں، میں نے اپنے اس مختصر قیام کے جذباتی پہلو پر زور دیا ہے۔ میری بیٹی نے اپنے کام سے چھٹی لے لی ہے اور بچوں کو ان کے ”سمر کیمپ“ سے اٹھالیا ہے اور ہم ہر وقت ساتھ ہیں اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ عیش کررہے ہیں۔ ان چرائے ہوئے دنوں کا سب سے بڑا انعام یہ ہے کہ ہم ان عزیز ترین ہستیوں کے ساتھ ہیں جن سے دور رہنے کا دکھ مسلسل ہمارے ساتھ رہتا تھا۔ پھر یہ دوری ایک نئے دور میں اسی طرح داخل ہورہی ہے کہ ہم بوڑھے ہوتے جارہے ہیں اور پاکستان میں اکیلے رہتے ہیں۔ آنے والے سالوں میں اتنے لمبے سفر کا بوجھ اٹھانا بھی مشکل ہوتا جائے گا۔ پاکستان کے مخصوص حالات سے قطع نظر، کسی بھی وقت ایمرجنسی اس چھوٹے سے خاندان کو مشکل میں ڈال سکتی ہے۔ یوں تو ہم فون اور انٹرنیٹ کے سہارے ہر روز رابطے میں رہتے ہیں لیکن ساتھ رہنے کی اب کوئی صورت باقی نہیں رہی ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جسے قبول کرنا ہی پڑے گا۔ اسی لئے وہ گنے چنے دن جب ہم ساتھ ہوتے ہی ایک خواب کی طرح گزر جاتے ہیں اور ان دنوں کی یادیں دیواروں پر سجی تصویروں کی طرح ہمارے ساتھ رہتی ہیں۔ یہ خیال بھی کہ پاکستان کے متوسط طبقے میں اب یہ گھر گھر کی کہانی ہے زیادہ تسلی بخش نہیں ہے۔ ہم سب، اپنے اپنے مخصوص حالات سے مجبور ہیں۔ بوڑھے والدین کہاں رہیں۔ ان کے کتنے بچے پاکستان میں ہیں اور کتنے ملک سے باہر، ان تمام معاملات نے بے شمار خاندانوں کو متاثر کیا ہے۔ جب ہم امریکہ آتے ہیں تو ایسے والدین سے بھی ملاقات ہوتی ہے جن کی اولاد نے انہیں اپنے پاس بلالیا ہے۔ ان میں سے بیشتر کی زندگی قابلِ رشک نہیں ہے۔ ایسی صورت میں بھی نہیں کہ جب وہ کسی محل نما گھر میں مقامی خادمہ کے ساتھ رہتے ہوں۔ جہاں تک میری بیوی اور میرا تعلق ہے تو اس تجویز کی بھی کوئی گنجائش نہیں کہ ہم امریکہ میں مستقل سکونت اختیار کرلیں۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ ہماری دونوں بیٹیاں ہماری صحت اور ہماری خیریت کیلئے ہر روز پریشان رہیں۔ یہ ایک عجیب رشتہ ہے جسے پاکستان کے موجودہ حالات نے زیادہ درد ناک بنا دیا ہے۔ اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کب کوئی کئی سالوں تک امریکہ یا یورپ میں رہ لیتا ہے تو پھر اس کے وطن واپس آنے کے راستے مسدود ہوجاتے ہیں۔ ان کے بچے ایک نئی دنیا میں گویا ایک درخت کی مانند اپنی جڑیں بنالیتے ہیں۔ اس طرح تین نسلوں کا تعلق ایک پہیلی بن جاتا ہے۔ کس کا وطن کونسا ہے یہ فیصلہ آسان اور واضح نہیں ہوتا۔ اور اکثر یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ کسی کا گھر کہاں ہے۔ ایک خاص سطح پر، ہم سب اپنے گھروں میں رہتے ہوئے بھی پردیسی ہیں۔ یا یوں کہئے کہ بے گھر ہیں۔ میں اور میری بیوی کراچی میں رہتے ہیں اور وہ بھی ہمارے گھر میں جہاں، سمندروں کے اس پار، ہماری بیٹیاں رہتی ہیں۔
تازہ ترین