• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان چھیاسٹھ برس کا ہو گیا۔ یوم آزادی مبارک۔ کیا آپ نے غور کیا کہ کنونشن سنٹر اسلام آباد میں وزیر اعظم نواز شریف کی تقریر پر خدشات اور اندیشوں کے سائے منڈلا رہے تھے۔ یہ ترقی کے راستے پر گامزن کسی مستحکم قوم کے رہنما کا پراعتماد خطاب نہیں تھا بلکہ ایک ایسے قائد کے خیالات تھے جو اپنے ملک کی صورتحال کو اطمینان بخش نہیں سمجھتا۔اس مشاہدے سے وزیر اعظم پر تنقید کرنا مقصود نہیں بلکہ یہ تو قابل تحسین بات ہے کہ وزیراعظم ملک کو لاحق مسائل سے بے نیاز نہیں۔ تاہم یہ تشویشناک حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ شیکسپیئر کے ایک کردار کے الفاظ میں، ”ڈنمارک کی ریاست میں کوئی گہری خرابی پیدا ہو چکی ہے۔“
استاد محترم سے سوال کیا گیا کہ تاریخ کا ریکارڈ درست کرنا زیادہ اہم ہے یا زمانہٴ حال کے بارے میں تمدنی شعور پیدا کرنا۔ فرمایا۔ تاریخ کا صحیح شعور زیادہ اہم ہے۔ احترام سے اختلاف کیا کہ تاریخی شعور کا وظیفہٴ منصبی یہ ہے کہ اس سے سبق حاصل کرتے ہوئے مستقبل کا سیاسی اور تمدنی لائحہ عمل مرتب کیا جاتا ہے۔ تاریخ کی درست تفہیم میں ساری توانائی صرف کر دینا مناسب نہیں کیونکہ ہم ماضی میں زندہ نہیں رہ سکتے۔ ہم نے آزادی کے بعد سے بہت سا وقت تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے جواز کی بے کار بحث میں ضائع کیا۔ یہ سوال محض موٴرخ کے لئے اہم ہو سکتا ہے کہ پاکستان کیوں اور کیسے بنا ۔ اس سے کہیں زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان کے استحکام اور ترقی کو کیسے یقینی بنایا جائے۔ یوم آزادی کی حد تک تاریخی شعور کے ضمن میں تو غالباً یہی کافی ہے کہ ہم استخلاص اور آزادی کا فرق سمجھ لیں۔ استخلاص ایک واقعہ ہے۔ 14اگست 1947ء کو ہم برطانیہ کی غلامی سے آزاد ہو گئے۔ آزادی طویل دورانیے پر پھیلی ہوئی ایسی اجتماعی کیفیت ہے جس میں ریاست حقوق اور آزادیوں کے تعین نیز عوام کا معیار زندگی بلند کرنے میں خودمختار ہو۔ یہ وہی فرق ہے جو شادی کی تقریب اور شادی کے بندھن میں ہے۔ ایک مختصر سا واقعہ ہے اور دوسرا طویل دورانیے پر محیط رفاقت کا نام ہے۔ استخلاص وطن ہماری تاریخ کا اہم واقعہ تھا لیکن اس کا حقیقی مفہوم اس امر سے طے ہونا تھا کہ ہم آزاد ریاست میں عوام کی زندگیاں بہتر بنانے اور انسانیت کے بڑے دھارے کی فلاح میں کیا کردار ادا کرتے ہیں۔ ہم نے اپنے تئیں آزادی کا مفہوم یہ جانا کہ ہمیں اپنے قدیم طور طریقوں کی طرف واپس لوٹنے کی چھوٹ مل گئی ہے۔ نتیجہ یہ کہ ہم آزادی کا حق ادا نہیں کر پائے۔ چند معاشی اشاریوں میں غیر متاثر کن بہتری کو چھوڑ کے ہمارے ریاستی اداروں کی کارکردگی اور تمدنی مکالمے کے معیار میں ابتری واقع ہوئی ہے۔ فکری اور سیاسی احیا پسندی سے یہی شیفتگی ”ڈنمارک کی ریاست“ کے بھیتر میں موجود خرابی ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ اس خرابی کو کیسے دور کیا جائے۔ پہلی بات تو یہ کہ اپنے تاثر کے بارے میں پریشان ہونا چھوڑ دیجئے۔ پاکستان میں لوگوں کی بیشتر توانائیاں اس فکر میں صرف ہوتی ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے۔ یہی سوچ ہماری ریاست میں آن پہنچی ہے۔ ہمیں اپنے تاثر کے بارے فکر کرنے کی بجائے زمینی حقائق کو بہتر بنانا چاہئے۔ دنیا میں کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ ہمارے بارے میں سوچتا رہے۔ ہمیں تو سوچنا چاہئے کہ کسی کو کانوں کان ہماری خبر نہ ہو۔ خبر اسی کی بنتی ہے جس کے ہاں کوئی طرفہ تماشا برپا ہو۔ کسی کو ناروے، سویڈن یا ہالینڈ کے صدر اور وزیراعظم کا نام تک معلوم نہیں اور یہ ملک ترقی کر رہے ہیں۔ خبر بنتی ہے مصر اور شام میں ، خبر آتی ہے شمالی کوریا اور ایران کے بارے میں … اور خبر اچھے حالات کی نشاندہی نہیں کرتی۔ آمریتوں کو اپنے تاثر کی بہت فکر ہوتی ہے کیونکہ آمریت وجودی سطح پر جواز اور اخلاقی سطح پر خیرسگالی سے خالی ہوتی ہے۔ سو اچھے تاثر کی تلاش میں ملک کے داخلی حالات کو خارجہ پالیسی کے تابع کر دیا جاتا ہے۔ یہ گاڑی کو گھوڑے کے آگے باندھنا ہے۔ خارجہ پالیسی مقصود بالذات نہیں، اس کا مقصد ملک کے داخلی مفاد کو آگے بڑھانا ہے۔ ریاست کی عمل داری بحال کیجئے۔ ریاست کی عمل داری ایسے قائم نہیں ہو سکتی کہ حکومت اتوار کو ہفتہ وار تعطیل کا اعلان کرے اور گوجرانوالہ کے نیک تاجر جمعے کو چھٹی کریں۔ حکومت سرکاری طور پر گھڑیاں ایک گھنٹہ آگے کرے اور تضحیک کا نشانہ بنائی جائے۔ حکومت اعلان کرے کہ کاروباری مراکز نو بجے بند کر دیے جائیں اور ہم شادی خانوں کے باہر سراپا احتجاج بن جائیں۔ کسی روز جسٹس جاوید اقبال سے پوچھ لیجئے گا کہ دوسری عالمی جنگ جیتنے والے برطانیہ نے 1956ء تک راشن بندی پر کیسے عمل کیا تھا۔ ریاست کی عمل داری کے دو بنیادی نشان ہیں ، قانون کا نفاذ اور ٹیکس کی وصولی۔ قانون کے نفاذ کا مطلب ہے قانون کی نظر میں سب شہریوں کی برابری اور قانون تک یکساں رسائی۔ اس عمل میں قرطبہ کے قاضی کی خوش نیتی پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ ٹیکس کی ادائی شہریت کا بنیادی تقاضا ہے۔ اس میں کوتاہی کا مطلب ہے، ریاست اور شہریوں میں تعلق استوار نہیں ہو سکا۔
ریاست اور شہریوں کے درمیان براہ راست تعلق استوار کرنے میں ناکامی کا ایک سبب یہ ہے کہ ہم نے خاندان ، قبیلے ، فرقے اور علاقے کی سطح پر عصبیت کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ تاریخی طور پر عصبیت کا ایک کردار موجود رہا ہے لیکن شہری اور ریاست کا تعلق جدید معاشرتی اقدار سے تعلق رکھتا ہے۔ اس تعلق کو قائم کرنے کے لئے یہ ماننا ضروری ہے کہ حقوق کے تعین کی اکائی خاندان یا قبیلہ نہیں بلکہ فرد ہے۔ نام نہاد خاندانی اقدار سے متوسط طبقے کی شیفتگی کو معاشرے کا رہنما اصول ماننے سے ریاست اور شہری کا رشتہ کمزور ہوتا ہے۔ جغرافیائی ، طبقاتی اور فکری نو گو ایریازکے ہوتے ہوئے ریاست کی عمل داری قائم نہیں ہو سکتی۔داخلی معاملات کو اولین ترجیح دینے کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ معیشت کو ترقی دی جائے۔ معیشت کے بارے میں ہمارا نصابی تصور یہ ہے کہ ہمارے وسائل لامحدود ہیں۔ یہ درست نہیں ہے۔ ہمارے وسائل محدود ہیں اور ہمیں انہیں حسن انتظام سے صرف کرنا چاہئے۔ جو ملک پیٹرولیم کی 85 فیصد ضروریات درآمد کرتا ہو، اسے معیشت کو پیداواری دھڑے پر ڈالے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ ہم مختلف جغرافیائی منطقوں کے نقطہ اتصال پر واقع ہیں۔ ہمیں اس محل وقوع کو راہداری اور تجارت کے لئے استعمال کرنا چاہئے۔ تجارت کے لئے امن کی اہمیت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ صنعت اور زراعت میں ہمیں ٹیکنالوجی اور براہ راست سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ یہ ضروریات بیرونی دنیا کے ساتھ مخاصمت پال کر پوری نہیں ہو سکتیں۔ ہماری حقیقی دولت ہماری افرادی قوت ہے۔ ہم معدنیات کے بل پر مقابلہ نہیں کر سکتے۔ یوں بھی جو زمین سے نکالا جاتا ہے، وہ ذہنوں میں روشنی کیے بغیر ہاتھ بدل لیتا ہے۔ افرادی قوت کا معیار بہتر بنانے کے لئے تعلیم پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ قومی پیداوار کا صرف 2فیصد تعلیم پر خرچ کرکے ہم اس قومی ترجیح کے تقاضے پورے نہیں کررہے۔ ہمارا تیسرا معاشی ماخذ سیاحت ہے۔ سیاحت کے لئے روادار اور انسان دوست معاشرتی ماحول کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہمارے ملک کا رقبہ دنیا کے کل زمینی رقبے کا 0.7 فیصد ہے اور ہماری آبادی کل عالمی آبادی کے 3 فیصد سے زیادہ ہے۔ پاکستان کا اصل چیلنج یہ ہے کہ کیا ہم پیداوار ،علم اور فنون کے عالمی نقشے پر اپنا حصہ ڈالنے کے لئے تیار ہیں۔ ہم دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہیں۔ ہمیں انسانی ترقی اور علم کے میدان میں بھی 146ویں درجے پر نہیں،چھٹے نمبر پر ہونا چاہئے۔
تازہ ترین