• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلام آباد میں کھیلے جانے والا ڈرامہ خون خرابے کے بغیر ختم ہوا تو کروڑوں پاکستانیوں نے جو دم سادھے ٹی وی چینلز کے سامنے بیٹھے تھے، سکھ کا سانس لیا۔ اس ڈرامے کا کلائمکس ناقابل فراموش ہے، جب یہ ڈرامہ بوریت کی سرحدوں کو چھونے لگا تو اچانک سب نے دیکھا کہ ہمارے دوست اور پی پی پی کے رہنمازمرد خان ”اسکرین“ پر رونما ہوئے اور دہشت گرد سکندر کی طرف بڑھے جو دونوں ہاتھوں میں گنز تھامے کھڑا تھا، اس کی بیوی اور بچے بھی ڈھال کے طور پر اس کے ساتھ موجود تھے۔ زمرد خان ”دہشت گرد سکندر کے ساتھ ہاتھ ملانے کو پوزیشن میں نہیں تھے، کیونکہ اس کے دونوں ہاتھوں میں اسلحہ تھا، چنانچہ انہوں نے اپنے سینے پر دایاں ہاتھ رکھتے ہوئے اور قدرے جھک کر اپنی ”نیاز مندی“ کا اظہار کیا۔ اس کے بعد دونوں بچوں سے ہاتھ ملانے کے دوران انہوں نے اچانک سکندر پر چھلانگ لگا دی اور اسے دبوچنے کی کوشش کی مگر وہ بہت پھرتی سے پیچھے ہٹ گیا اور زمرد خاں نیچے گر گیا اس کے بعد سکندر نے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی اور پولیس کی جوابی فائرنگ کے نتیجے میں زخمی ہو کر گر پڑا اور یوں اس ڈرامے کا ڈراپ سین ہو گیا“۔
اس سارے کھیل میں زمرد خان کا کردار بہت حیرت انگیز ہے، میں نے بہادری کے بہت سے قصے سنے ہیں لیکن جس بہادری اور دلیری کا مظاہرہ زمرد نے کیا، وہ اگر ہم سب نے اپنی آنکھوں سے نہ دیکھا ہوتا اور کوئی ہمیں سناتا تو شاید یہ ہم یقین نہ کرتے، اسلحہ بردار سکندر جو بادی النظر میں ایک پاگل شخص ہے، اس کا سب کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے اور یوں وہ کچھ بھی کر سکتا ہے، مگر ایک نہتا ڈھلتی جوانی کا ایک فربہ شخص جو سیاست دان بھی ہے، اس کی طرف بڑھتا ہے اور اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر جو ننانوے فیصد خطرے میں تھی، اسے دبوچنے کی کوشش کرتا ہے، وہ اسے قابو کرنے میں تو کامیاب نہیں ہوتا تاہم اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل و کرم کے سبب ہمارا یہ دوست محفوظ رہتا ہے اور اس کے بعد پولیس سکندر کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے!
میں ان تجزیہ نگاروں میں سے نہیں ہوں جو سکیورٹی امور کے بھی ماہر ہوں، چنانچہ میں نہیں جانتا جب سکندر اکیلا چہل قدمی کر رہا تھا اور بظاہر پولیس زخمی کئے بغیر بے ہوش کرنے والی گولی کا فائر کر کے اسے قابو کر سکتی تھی، اس نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ اس سوال کا جواب ڈاکٹر رضوان ہی دے سکتے ہیں جو اس آپریشن کی نگرانی کر رہے تھے اور متعدد مرتبہ اس کے ساتھ مذاکرات کرتے بھی نظر آئے۔ امید ہے کہ اس ضمن میں عوام کے ذہنوں میں ابھرنے والے سوالات کا جواب جلد دیا جائے۔ ایک سوال اور بھی ہے اور وہ یہ کہ ناکے پر روکے جانے کے باوجود اس نے پولیس والے پر اسلحہ تان لیا اور وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا، مگر ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ اگر اس پر جوابی فائرنگ کی جاتی اور وہ ہلاک ہو جاتا۔ اس کی بیوی اور بچے بھی ہلاک یا زخمی ہو جاتے تو اگلے دن ٹی وی چینلوں اور اخبارات میں پولیس کی اس سفاکی کے حوالے سے ایک کہرام مچا ہونا تھا کہ ایک معصوم سے شخص کو جو اپنے دو معصوم بچوں اور بیوی کے ساتھ سیر و تفریح کی غرض سے گھر سے نکلا تھا، بے رحم پولیس نے اسے بھون کر رکھ دیا اور اس کا جرم صرف یہ تھا کہ اس نے ناکے پر گاڑی نہیں روکی تھی۔ اس کے ساتھ سکندر کے اہل محلہ کے انٹرویوز بھی منظر عام پر آنا تھے کہ سکندر ایک نہایت نیک طینت شخص تھا اور بہت ملنسار بھی تھا، وغیرہ وغیرہ۔ اس کی کار میں سے اسلحہ برآمد ہونے کے بارے میں کہا جانا تھا کہ اپنی کارروائی پر شرمندہ ہونے کی بجائے پولیس نے الٹا اس مظلوم شخص پر اسلحہ بھی ڈال دیا ہے۔ اس میڈیا ٹرائل کے نتیجے میں اللہ جانے کتنے پولیس اہلکار معطل یا ڈس مس ہوتے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری پولیس میں ڈاکو، لٹیرے، بدمعاش، راشی اور ہر طرح کی گھٹیا حرکتوں سے ”مسلح“ اہلکار اور افسر موجود ہیں، میں نے ان سطور میں تصویر کا صرف وہ رخ پیش کیا ہے جس پر ہم میڈیا والوں کو بھی غور کرنا چاہئے!
ایک اور سوال جو سب سوالوں سے اہم ہے، اور وہ یہ کہ کیا پولیس نے زمرد خاں کو اس مشن پر مامور کیا تھا یا ایک محب وطن پاکستانی کے طور پر ان سے یہ سب کچھ برداشت نہ ہو سکا اور وہ پولیس کو اعتماد میں لئے بغیر اس بھڑکتی آگ کے شعلوں میں کود پڑے؟ اگر پولیس نے انہیں یہ مینڈیٹ دیا تھا تو زمرد خان کی جان بچ جانے پر جہاں پورا پاکستان اللہ کا شکر ادا کر رہا ہے، وہاں حکومت کو تین دن تک سجدہ شکر ادا کرنا چاہئے اور ہزاروں بکرے بھی قربان کرنا چاہئیں کہ اگر خدانخواستہ زمرد خان کو کچھ ہو جاتا تو جو تماشا پوری دنیا نے دیکھنا تھا، اس سے حکومت کی چولہیں ہل کر رہ جاتیں۔ کہا جاتا کہ ایک مخالف سیاسی جماعت کے سیاست دان کو قربانی کا بکرا بنایا گیا اور اپنے تربیت یافتہ کمانڈوز کی بجائے یہ مشن اس شخص کے سپرد کیا گیا جس کے پاس پرخطر حالات سے نمٹنے کی وہ صلاحیت موجود نہیں تھی جو تربیت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ میں جانتا ہوں وزیر داخلہ چودھری نثار سمیت کسی کو بھی زمرد خان اس کے ارادے کا علم نہیں تھا، جو گھر سے ٹھان کر نکلے تھے اور جس سے اظہار انہوں نے ٹی وی انٹرویوز میں بھی کیا۔ بصورت دیگر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ یہ ایڈونچر کیا جاتا۔ اس کے باوجود ضروری ہے کہ پولیس اور خود زمرد خاں بھی پوری وضاحت کے ساتھ مکمل صورتحال عوام کے سامنے لائیں اور برادرم زمرد خان کی دلیری، بہادری، حب الوطنی کو خراج تحسین اور ان کی صحت و سلامتی کی دعا کرنے کے ساتھ ساتھ مجھے زمرد سے بھی کہنا ہے کہ وہ آئندہ ایسی ”حرکت“ کبھی نہ کریں۔ امید ہے ”اچھے بچوں کی طرح وہ میری بات مان لیں گے۔
تازہ ترین