• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انجانے میں ایک روز بریف کیس کھول لیا۔ ایک تصویر… دو تین بچے! یہ کون ہیں؟ جواب میں میرے جسم اور چہرے پر نیل پڑگئے۔ سوال کرنے کی جرات کا مظاہرہ۔ ”ایک دوست نے کہا فلاں ایڈورٹائزنگ کمپنی کے مالک سے مل لو۔ وہ صاحب میرے لیے اجنبی نہیں تھے۔ادھر ادھر کی باتیں کیں۔ پھر دراز کھولا۔ ربڑ کی بنی ہوئی عورت کا مجسمہ سامنے رکھا۔ موصوف اس مجسمے سے کھیلتے رہے۔ میں شکریہ اداکر کے باہر نکل آئی۔“
”نا ہموار راستوں پر چلتے چلتے چوٹیں کھائیں جو وقت کے ساتھ مٹتی چلی گئیں۔ اس کے باجود میں پسپا نہیں ہوئی۔“
یہ اقتباسات ہیں ش۔ فرخ کی خود نوشت ”جینے کے جرم“ سے۔ زندگی گزارنے اور پھر اس کو بیان کرنے کا فن کسی کسی خاتون کو آتا ہے۔ مردوں کو تو بالکل نہیں آتا۔ مجھے بے شمار ادیبوں کی خود نوشت یاد آئیں۔ ان کی کتابوں میں جنسیات اتنی شروع سے آخر تک ہوتی ہیں کہ پڑھتے ہوئے طبیعت متلانے لگتی ہے۔ ش۔فرخ ان چند بلکہ اب تو بہت سی خواتین میں سے ہے جنہوں نے اپنے بل بوتے پر زندگی گزاری۔ نوکری ایسی کی کہ ہر جانب سے توصیف سنی۔ بیس سالہ صحافت کی زندگی میں شدید سنسر شپ کے زمانے میں دیکھیں۔ پریس ٹرسٹ میں نوکری کرنے کے باوجود، قلم کو سر بلند رکھا۔ اس لےئے آپ بیتی لکھتے لکھتے جگ بیتی بھی اسے جگہ بجگہ یاد آتی گئی۔ ”خبر تھی بلوچستان اسمبلی پر راکٹ سے حملہ۔ عمارت کو نقصان پہنچا۔“
”گلستان جوہر کے ایک ہسپتال سے نومولود بچہ غائب ہوگیا۔ ہسپتال کے عملے نے اسی بچے کو ایک بے اولاد عورت کے ہاتھوں فروخت کردیا۔ ماں نے بچے کے لاپتہ ہونے کے صدمے میں دم توڑ دیا۔“
ش۔ فرخ کی کتاب ختم کی تو میرے سامنے شاہ بھٹائی کے کردار ماروی، نوری، راجہ، رائے ڈیاچ، بیجل آکھڑے ہوئے۔ بولے ”ہم اب تک زندہ ہیں۔ پڑھو ہمارے بارے میں نجم الحسن رضوی کا ناول قاروی اور مرجینا۔“ ماروی نے تو صحراؤں میں گھومنے اور اپنے محبوب کو تلاش کرنے کی ٹھانی تھی۔ اس لےئے اب تک زندہ ہے۔ اس کی تلاش بھی زندہ ہے۔ بتاؤ یہ مرجینا کہاں سے آگئی۔ یہ الف لیلہ کے سارے کردار کیسے زندہ ہوگئے اور کبھی وہ عرب ممالک کے منظر ناموں میں خود کو اجاگر کرتے ہیں اور کبھی موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلانے والی بن جاتی ہے۔ جب پاکستان واپس آٓتا ہے۔ ان کا بنیادی کردار ناصر نام آتا ہے تو نوری سے شادی کرنے کی سزا، وڈیرے اس طرح دیتے ہیں کہ نوری سمیت اس کے خاندان کے سارے افراد کوکاری کرکے مار دیتے ہیں اور ناصر ان لوگوں کے یہاں نوکر ہوجاتا ہے جو لوگ اخروٹ کے خالی چھلکوں میں سفید پاؤڈر بھر کے دوسرے ممالک کو بھیجتے تھے۔
نجم الحسن رضوی نے سندھ میں لسانی لڑائیوں، بھتہ خوروں کے قصوں اور موٹر سائیکلوں پر ان نوجوانوں کا دن دھاڑے گولیاں چلانے کا منظر نامہ اتنی خوبصورتی سے لکھا ہے کہ ان کی مشرق وسطیٰ ہی گزاری زندگی کے سارے ذائقے اور ساری مشکلات سامنے آجاتی ہیں، ساتھ ہی موجود کراچی کی اذیتیں برداشت کرکے شرفا کی ذہنی اذیت بھی کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ ناول کے کرداروں میں سندباد کا کردار اور مرجینا ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ وہ ملک ملک گھومتا ہے اور مرجینا موٹر سائیکل، موت کے کنویں میں چلا کر زندگی گزار رہی ہے اور اپنی خود مختاری پر نازاں بھی ہے۔
عید کی چھٹیاں کہہ رہی ہیں اور بتاؤ کیا کیا پڑھا۔ بالکل عجب ماحول اور سفر نامہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ حالانکہ اس نے یعنی سلمیٰ اعوان نے فلسطین کا سفر نہیں کیا۔ بہت کوشش کی کہ خود جائے، اپنی آنکھوں سے برباد خیمہ بستیوں کو دیکھے۔ بچوں کے جذبوں کو تصویروں میں ڈھالے، بالکل اس طرح جیسے اس نے بغداد جاکر، بم کے دھماکوں کے دھوئیں میں لپٹ کر بھی ہمت نہیں ہاری تھی۔ پاکستان میں فلسطین کا سفارت خانہ اس کی مکمل اور باقاعدہ مدد کرنی چاہتا تھا مگر اسرائیل شیطان کسی طرح کی بھی اجازت دینے کو تیار نہ تھا۔ وہ ایک نہتی لڑکی۔ جس کے ہاتھ میں قلم تھا۔ وہ تو لیلیٰ خالد سے ملنا چاہتی تھی۔ یاسر عرفات کا گھر دیکھنا چاہتی تھی۔ وہ تو فلسطین کے جوانوں کے حوصلے کی داد دینا چاہتی تھی۔ خلا فل تو اسے کھانے کیلئے بغداد میں بھی مل گئے تھے۔ لبنانی روٹیوں سے تو وہ پاکستان میں بھی واقف تھی۔ وہ جو عراق کے مشکل زمانوں میں حوصلے سے کربلا تک ہو آئی تھی۔ اکیلی گئی تھی۔ اپنے خرچ پر گئی تھی۔ دمشق کی امیہ مسجد میں ملنے والی ایک فلسطینی لڑکی کی کہانی لکھ کر اپنی محبت کا اظہار کرتی ہے۔ پھر سلمیٰ اعوان نے وہ تمام تاریخی کتابیں اور مخطوطے جو فلسطینی سفارت خانے نے اسے بھیجے تھے ان سب کی کہانیوں کو اپنے ناول کے کردار بنادیا۔ کچھ بھی تو غلط نہیں ہے۔ مگر ہر جگہ ایک کسک نظر آتی ہے آخر کیوں مجھے اس لہو رنگ فلسطینی کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع نہیں دیا گیا مگر ساری فلسطینی تاریخ کو سلمیٰ نے کرداروں کی زبان ایسے ادا کیا ہے گویا وہ فلسطین ہی میں تھی۔
اب میرے سامنے زہرہ نگاہ کی کلیات ہیں۔ میں اس کتاب کو سینے سے لگاتی ہوں۔ میرے اندر شاعری کی ساری رمق زہرہ آپا کی دین ہے۔ کمال بات تو یہ ہے کہ گزشتہ دس سالوں میں افغانستان اور پاکستان میں دہشت گردی، بربریت، کاروکاری کم سن بچیوں کے ساتھ زیادتی، اغواء کاری، خودکش حملے، بیوگی کی وہ منزلیں جو معصوم نوجوانوں کے خون کے دھبوں سے آلودہ ہیں۔ مذہبی عفریت جو شناختی کارڈ دیکھ کر، گولی چلاتا ہے۔ وہ چلاس میں ہو کر بسی ہیں۔ یہ سارے دکھ زہرہ آپا نے بیان کئے ہیں۔عید پہ میں اکیلی تھی میں نے کتابیں پڑھیں۔ آپ نے کیا کہا۔ مجھے بتائیں۔
تازہ ترین