• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسئلہ یہ نہیں ہے کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کی لیک کی جانے والی آڈیو ٹیپ اصلی ہے یا جعلی ۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس ’’ لیکس ‘‘ ( Leaks ) سے جو سوالات پیدا ہوئے ہیں ، وہ پاکستان کے اداروں کی ساکھ سے متعلق ہیں ۔ یہ سوالات لوگوں کے ذہنوں میں پہلے سے ہی موجود ہیں لیکن مبینہ آڈیو ٹیپ کے آنے سے دنیا بھرمیں یہ سوالات باقاعدہ طور پر کئے جانے لگے ہیں ۔ ان سوالات سے ہونے والے نقصانات کا تسلسل کے ساتھ ازالہ نہ کیا گیا تو سسٹم کے لئے بہت سے مسائل پیدا ہوں گے ۔ ثاقب نثار کی آڈیو لیکس میں یہ کہتے سنا گیا ہے کہ ’’ عمران خان کی جگہ بنانے کے لئےمیاں صاحب اور ان کی صاحبزادی کو سزا دینا ہو گی۔ ‘‘ اگر یہ آڈیو لیکس جعلی بھی ثابت ہو جائے تو بھی اداروں کی ساکھ سے متعلق سوالات موجود رہیں گے ۔ یہ سوالات صرف عدلیہ کے حوالے سے نہیں ہیں بلکہ دیگر اداروں کے بارے میں بھی ہیں ۔ اس آڈیو لیکس سے پہلے گلگت بلتستان کے چیف جج رانا شمیم کا بیان حلفی بھی سامنے آچکا ہے ۔ اگر اس بیان حلفی کے بارے میں بھی بعض حلقوں کی اس رائے کو تسلیم کر لیا جائے کہ مسلم لیگ (ن) نے رانا شمیم کو اپنے سیاسی اہداف کے لئے یہ بیان دینے پر راضی کیا ہو گا تو بھی اداروں کی ساکھ کے بارے میں جو سوالات پیدا ہوئے ، وہ موجود رہیں گے کیونکہ وہ پہلے سے دنیا کے ذہنوں میں موجود ہیں کیونکہ مہران بینک اسکینڈل اور بعض ریٹائرڈ ججوں کے اعترافات سے لے کر ہمارے اداروں کے سیاسی کردار کے بارے میں انکشافات کا ایک طویل سلسلہ ہے ۔ ان سوالات کی جڑیں بہت گہری ہیں ۔ رانا شمیم کے بیان حلفی میں بھی یہی بات کی گئی ہے کہ ثاقب نثار نے چیف جسٹس آف پاکستان کی حیثیت سے کسی کو ہدایت دی کہ میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کو سزا دینی ہے ۔ یہ بھی ہوا کہ 2018ء میں نیب کورٹ سے میاں نواز شریف کو سزا ہوئی ۔ نیب کورٹ کے جج ارشد ملک کی ویڈیو لیکس سامنے آئی ۔ انہیں نوکری سے برطرف کر دیا گیا ، جو ویڈیو لیکس کے درست ہونے کا ثبوت تھا ۔ پیچھے کی طرف چلے جائیں تو کئی کڑیاں جڑی ہوئی نظر آتی ہیں ۔ اگر ثاقب نثار کی آڈیو لیکس جعلی ثابت ہو جائے یا رانا شمیم کا بیان حلفی کسی منصوبہ بندی کا حصہ نظر آئے تو بھی اداروں کے بارے میں سوالات ختم نہیں ہوں گے کیونکہ جیسا کہ اوپر عرض کیا جا چکا ہے کہ ان سوالات کی جڑیں بہت گہری ہیں ۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) ہی اکیلی سیاسی جماعت نہیں ہے ، جو اپنی قیادت کے دفاع کیلئے ایسی لیکس یا اسکینڈلز منظر عام پر لاتی ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی بھی جسٹس (ر) عبدالقیوم کا اسکینڈل سامنے لائی تھی اور اس کیلئے اس کی قیادت نے بہت محنت کی تھی ۔ مہران بینک اسکینڈل یا آپریشن مڈ نائٹ جیکال کا اسکینڈل سامنے لانے میں بھی پیپلز پارٹی کی قیادت کی کوششیں شامل ہیں ۔ میں سیاسی جماعتوں کے ان حربوں کو غلط اس لئے قرار نہیں دے سکتا کہ ان کی قیادت کے خلاف ہونے والے فیصلوں میں بہت بڑا جھول ہوتا ہے یا اداروں کی مداخلت کے ثبوت ہوتے ہیں ۔ پاکستان جیسے ملک میں اگرچہ سیاسی قیادت کا کردار قابل رشک نہیں ہے لیکن قیام پاکستان سے سیاست اور سیاست دانوں کو ’’ فکس ‘‘ کرنے کا جو بے رحمانہ کھیل کھیلا جا رہا ہے ، اس میں سیاسی قیادت اپنے دفاع کےلئے ہر حربہ استعمال کرنے میں حق بجانب دکھائی دیتی ہے ۔ اس کھیل میں نہ تو مثالی سیاسی قیادت سامنے آئے گی ، نہ احتساب کا شفاف نظام قائم ہو گا اور نہ ہی ملک میں کوئی سسٹم چل سکے گا ۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس وقت نہ صرف عدلیہ بلکہ نیب ، سیکورٹی اداروں ، الیکشن کمیشن ، سیاسی جماعتوں اور میڈیا کے کردار کے بارے میں سوالات کئے جا رہے ہیں بلکہ موجودہ حکومت کے جائز ہونے کے بارے میں پہلے سے موجود سوالات میں شدت آگئی ہے ۔

یہاں یہ بات دہرانا مناسب ہو گا کہ مسئلہ ان لیکس کے اصلی یا جعلی ہونے کا نہیں ہے ۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے ملک میں بھونچال آ جاتا ہے ۔ یہ امر ہمارے سسٹم میں بے پناہ کمزوریوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ بس کوئی بات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ چاہئے اس کی کوئی بنیاد نہ ہو لیکن وہ قرین حقیقت محسوس ہوتی ہے ۔ کچھ حقائق ایسے ہیں ، جن کا ہم برملا اعتراف کرتے لیکن وہ معروضیت کے طور پر موجود ہیں ۔ معمولی باتوں یا لیکس سے جو بھونچال برپا ہوتا ہے ، وہ منطقی عوامل کا نتیجہ ہوتا ہے ۔ آپ حقائق کو جتنا بھی چھپانے کی کوشش کریں ، وہ کبھی نہ کبھی اچانک سامنے آجاتے ہیں ۔ ثاقب نثار کی آڈیو ٹیپ بے شک جعلی ثابت ہو جائے یا رانا شمیم کےبیان حلفی کو بھی کسی منصوبہ بندی کا حصہ ثابت کر دیا جائے ۔ اس کے باوجود ان پر بھونچال اس لئے آیا کہ آڈیو لیکس اور بیان حلفی میں کی گئی باتیں قرین حقیقت لگتی ہیں ۔ ایسا کیوں ہے ؟ اس پر سوچنے کی ضرورت ہے ۔ بعض حلقے ثاقب نثار کے آڈیو ٹیپ اور رانا شمیم کے حلفی بیان پر تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن ان تحقیقات سے پینڈورا بکس کھلے گا ۔ جب تک ادارے اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام نہیں کریں گے ، تب تک ہم بحیثیت قوم پوری دنیا میں تماشا بنے رہیں گے ۔ جو سوالات آج شدت کے ساتھ پیدا ہوئے ہیں ، وہ پہلے سے موجود تھے اور ان کی جڑیں بہت گہری ہیں ۔ ہمارے پاس ان سوالوں کے جوابات نہیں ہیں ۔

تازہ ترین