• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عید سے قبل دو محترم اساتذہ کرام جناب عطاء الحق قاسمی اور وجاہت مسعود صاحب نے ان صفحات پر روحانیت اور مادہ ،معلوم اور نامعلوم کی نازک بحث چھیڑ دی ۔ اب ہمارے ایسے نیم خواندہ دانشوروں کا قومی و اخلاقی فرض تھا کہ وہ اسے مزید نازک بناتے ،مگر حیرت ہے کہ ملک میں عقل و دانش کا سیلاب آیا ہو اہے لیکن ابھی تک کسی حبیب کی طرف سے کوئی نعرئہ مستانہ بلند نہیں ہوا۔ حالانکہ یہ امر مسلمہ ہے کہ ہم لوگ ان معاملات پر اپنی ٹھوس رائے ضرور دیتے ہیں ، جن کے متعلق ہمارا علم محدود اور معلومات واجبی ہوتی ہیں ۔ بقول حسن نثار صاحب” یہاں پکوڑے تلنا مشکل مگر لُچ تلنا آسان ہے “ پس ہم اپنی ذمہ داری محسوس کر کے پہلا پتھر مارتے ہوئے اپنا لچ تل رہے ہیں ۔ امید واثق ہے کہ اگر ہمارے جیسے چند مزید بقراط اس علمی اور فلسفیانہ بحث میں کود پڑے تو انشاء اللہ اسے معرکہ حق و باطل بنانے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔
عطاء الحق قاسمی صاحب نے اپنے دوست پروفیسر احمد حسن حامد کی وفات کے حوالے سے کالم لکھا، جس میں موجود پراسراریت انہیں حیات و لمحات کی گنجلک وادیوں میں لے گئی ۔ پروفیسر صاحب مرحوم نے متعدد مرتبہ14جولائی کو اپنی وفات کی پیش گوئی کی ، جو صحیح ثابت ہوئی ۔ قاسمی صاحب نے اپنے طور پر اس کی روحانی توجیہہ تو تلاش کر لی لیکن ساتھ ہی اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ جو دوست مادہ ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں اور صرف سامنے نظر آنے والی چیزوں کے وجود ہی کو مانتے ہیں ، نیز اس پُراسرار کائنات کی بہت سی پر اسرار باتوں کی سائنسی توجیہہ کرتے ہیں ، وہ اس واقعہ کی مادی توجیہہ کریں ۔ چنانچہ وجاہت مسعود صاحب نے اس روحانی کالم کے جواب میں ایک فلسفیانہ اور” مادیانہ “کالم لکھا۔ ان تحریروں کو سمجھنے میں ہمیں دقت ہوئی تو ہر دو اساتذہ کو فون پر زحمت دے کر ان کا مفہوم اور موقف سمجھنے کی کوشش کی ۔ جھوٹے پر خدا کی لعنت، دونوں کی علمی اور دانشورانہ گفتگوہمارے سر سے گزر گئی ۔ پس ہم نے خود ہی اپنے تجربے کے زور پر ان تحریروں کو سمجھا اور ان میں موجود دو نقاط ”معلوم و نامعلوم “ اور ”مادہ“ پر اظہارِ خیال کرنے کے لیے انہیں چن لیا۔
محترم وجاہت مسعود نے عطاء الحق قاسمی صاحب کے موقف سے بصد احترام اختلاف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ نامعلوم کو معلوم پر ترجیح نہیں دی جا سکتی ۔ بجا کہ آپ ہمارے استاد ہیں مگر کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ”شاگرد رفتہ رفتہ بہ استاد می رسد“ یا ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے یوں کہیے کہ ”گرو گُڑ ہی رہے اور چیلے شکر ہو گئے “…ہمیں ان کی اس بات سے مدلل اختلاف ہے ۔ بھائی وجاہت مسعود! آپ کی علمیت اور قابلیت کا ایک زمانہ قائل ہے ، لیکن اگر آپ قانون کا بھی کچھ ادراک رکھتے تو آپ کے علم میں ہوگا کہ پولیس ایف آئی آر کس طرح درج کرتی ہے ؟ ایک مثال زیر نظر ہے “…زید پسر بکر مسلح کلہاڑی نے ہمراہ پانچ عدد دیگر نامعلوم ملزمان مسلح ڈنڈے ، باہم صلاح مشورہ ہوکر ، مجمع غیر قانونی کی شکل میں ، بہ نیت جرم مجھ پر حملہ کردیا اور مجھے ناحق مضروب کیا…“ اب یہ محض اتفاق ہے کہ پولیس کی گاڑیاں بھی پٹرول یا ڈیزل سے چلتی ہیں جو سرکار مہیا نہیں کر سکتی ، سو قانون حرکت میں نہیں آ سکتا۔جب مدعی /مضروب کچھ ”فیول“ مہیا کرتا ہے تو قانون فوراًحرکت میں آجاتا ہے اور معلوم ملزم زید گرفتار اور کلہاڑی برآمد ہو جاتی ہے جبکہ کچھ دال دلیہ بھی نکل آتا ہے ۔ دوسری صورت میں زید غائب ہو جاتا ہے اور پولیس دن رات اس کے پیچھے حرکت میں رہتی ہے ،لیکن قانون کی اس حرکت میں اصل برکت تو نامعلوم ملزمان کے دم سے پڑتی ہے ۔پولیس نامعلوم ملزمان کی آڑ میں مختلف لوگوں کو پکڑ پکڑ کر لاتی ہے اور ان سے ”برآمدگی“ کے بعد انہیں بے گناہ کر کر کے چھوڑتی چلی جاتی ہے ۔ جب معقول مقدار میں ”برآمدگی “ ہو جاتی ہے تو وہ ملزمان جن سے کچھ ”برآمد“ نہیں ہوتا، ان سے فی ملزم ایک عدد آلہ ضرب یعنی ڈنڈا برآمد کر کے چالان عدالت میں پیش کردیا جاتا ہے ۔ اب یہ باریک سا قانونی نقطہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ معلوم ملزمان تو ایک ، دو یا چار ہوتے ہیں ۔ ان کی تعداد کو بڑھایا جا سکتا ہے اور نہ کسی دوسرے کو ان کی جگہ پکڑا جا سکتا ہے جبکہ پانچ نامعلوم ملزمان کی آڑ میں پچاس مشتبہ لوگوں کو بھگتایا جا سکتا ہے ۔ اب آپ حساب لگا کر فرمائیے کہ نامعلوم ملزمان سے ہونے والی ”برآمدگیاں“ معلوم ملزمان کے مقابلے میں کتنی بھاری ہوتی ہیں اور نامعلوم ، معلوم کے مقابلے میں کتنا فائدہ مند اور قیمتی ہوتا ہے ۔ ایک اور مثال ملاحظہ فرمائیے کہ چند نامعلوم لوگ آتے ہیں اور ڈیرہ کی جیل توڑ کر سینکڑوں خطرناک قیدی رہا کرا کے لے جاتے ہیں ۔ ان ملزمان نے سراسر اپنے نامعلوم ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ریاستی رٹ کے منہ پر کوئی نامعلوم چیز ماری ۔ کیا کوئی معلوم آدمی ہماری شاطر پولیس کی موجودگی میں اتنی بڑی کامیاب واردات کا سوچ سکتا ہے ؟ بھائی وجاہت مسعود ! اپنے ایمان سے بتائیے کہ اگر دہشت گردی سے نبرد آزما ہماری پولیس اور فوج کو اس واردات کے ملزمان کے نام اور ٹھکانے معلوم ہوتے تو کیا وہ ابھی تک آزاد پھر رہے ہوتے ؟ پس ان واقعاتی شواہد سے ثابت ہوا کہ ”معلوم“ کے مقابلے میں ” نامعلوم“ کے پاس بے پناہ طاقت ہے ، وہی غالب ہے اور اسے ہی ترجیح حاصل ہے ۔ پھر آپ کس طرح فرماتے ہیں کہ نامعلوم کو معلوم پر ترجیح نہیں دی جا سکتی اور محیرالعقول واقعات سے ٹھوس نتائج اخذ نہیں کیے جا سکتے ؟ کیا جیل توڑنے کے اس محیرالعقول واقعہ سے کوئی ٹھوس نتیجہ اخذ نہیں ہوتا؟ کیا ”نامعلوموں“ کے علاوہ کسی میں ہمت ہے جو دعویٰ کر ے کہ
پانی تھل پیتا
اساں انج کیتا، جیویں ساڈا دِل کیتا
محترم عطاء الحق قاسمی صاحب نے اپنے کالم میں ان لوگوں کے خلاف رائے دی ہے جو مادہ ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں اور کسی بھی معاملے میں ماورائے مادہ کوئی رائے قائم نہیں کرتے ۔ اس علمی نقطے پر ہم اگلے کالم میں اپنے قیمتی خیالات کا اظہار کریں گے ۔
تازہ ترین