کیا سکندر پاگل تھا، جس نے پاکستان کی آزادی کا 67 واں برس شروع ہونے کے پہلے دن ہی یعنی 15 اگست 2013ء کو دونوں ہاتھوں میں بندوقیں لے کر اکیلے اسلام آباد کو یرغمال بنالیا؟ وسطی پنجاب کے شہر حافظ آباد کے رہائشی سکندر حیات کے اہل محلہ اور رشتے داروں کا یہی کہنا تھا کہ اس کا دماغی توازن درست نہیں ہے۔ سکندر کے سسر نے بھی اس بات کی تصدیق کی اور کہا کہ ان کا داماد ذہنی مریض ہے لیکن سکندر کے اہل محلہ اور رشتے داروں کے خیالات سامنے آنے سے پہلے ہی اسلام آباد کی انتظامیہ اور پولیس اہلکار سکندر کو پاگل قرار دے چکے تھے لیکن اس وقت سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ اگر سکندر کو پاگل تسلیم کرلیا جائے تو پھر ہم سب سیانے کہاں کھڑے ہوں گے؟
اسلام آباد کے انتہائی حساس علاقے جناح ایونیو میں ، جسے ریڈ زون قرار دیا گیا ہے ، ساڑھے پانچ گھنٹے تک پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بے بسی کا تماشا بنانے والے سکندر کو پاگل قرار دینے سے اسلام آباد کے سرکاری محافظ اپنے بے قصور ہونے کا جواز پیش کرسکتے ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عدالت ایک پاگل کو سزا نہ دے لیکن اس مبینہ پاگل نے ساڑھے پانچ گھنٹے کے ڈرامے میں اتنے سوالات چھوڑ دیئے ہیں، جن کے جواب تلاش کرتے کرتے پوری پاکستانی قوم پاگل ہوجائے گی۔15 اگست کو بھارت کا یوم آزادی منایا جا رہا ہوتا ہے ۔ بھارت میں جشن آزادی مناتے ہوئے جب لوگوں نے یہ ڈرامہ دیکھا ہوگا تو وہ ہم سے یہ سوال نہیں کریں گے کہ اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں 66سال بعد ایک شخص بندوق ہاتھ میں لے کر اسلام نافذ کرنے کا مطالبہ کیوں کررہا ہے؟ ہم ان کو کیا جواب دیں گے ۔ ہم انہیں کیسے بتائیں گے کہ پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے اور پاکستان کا آئین سیکولر نہیں بلکہ اسلامی دستور ہے ۔ ہم انہیں کیسے سمجھائیں گے کہ جو لوگ اس کے باوجود اسلام کے نفاذ کا مطالبہ کررہے ہیں، ان کا اصل مسئلہ کیا ہے۔ بھارت والے اگر ہم سے یہ سوال کرلیں کہ کیا مولانا ابوالکلام آزاد کی بات درست ثابت ہوئی ہے؟ تو بھی ہمارے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں ہے۔
ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ بندوق کے زور پر اپنی بات منوانا کوئی جرم ہے یا نہیں؟ جو کچھ سکندر نے کیا ، یہ اس ملک میں پہلی دفعہ نہیں ہوا ہے۔ آج کوئی کہہ سکتا ہے کہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی ہے؟ ملک میں ہر طرف بندوق کا راج نظر آتا ہے۔ لوگ ذہنی طور پر ریاست کی نہیں بلکہ بندوق برداروں کی عمل داری کو تسلیم کرچکے ہیں۔اب تو پاکستانی بچوں کا سب سے پسندیدہ کھلونا بندوق ہی ہے ۔ روزانہ پورے ملک میں بے گناہ لوگ مارے جاتے ہیں اور جو لوگ بچ جاتے ہیں، وہ اپنے دل میں بندوق برداروں کے احسان مند ہوتے ہیں۔ مارشل لاء تو ہوتا ہی بندوق کا راج ہے لیکن اب تو جمہوریت بھی بندوق والوں کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے۔ اپنی بات منوانے کے لئے سکندر نے بندوق اٹھاکر کوئی غیر معمولی کام نہیں کیا۔
لوگ شاید سکندر کو اس لئے پاگل اور بے وقوف قرار دے رہے ہیں کہ اس کا مطالبہ بہت بڑا تھا لیکن اپنی طاقت کی دھاک بٹھانے کے لئے اس کا شو بہت چھوٹا تھا۔ سکندر نے حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کیا تھا اور ساتھ ہی ملک میں اسلام نافذ کرنے کی بھی بات کی تھی ۔ پاکستان کے عوام اس سے پہلے اسلام آباد میں ایک بہت بڑا شو دیکھ چکے تھے جو علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے کیا تھا ۔ یہ اور بات ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے ہزاروں افراد کے ساتھ اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا لیکن ان کا مطالبہ بھی تو سکندر کی طرح جمہوری حکومت کو ہٹانے کا تھا ۔ اگر سکندر کا مطالبہ غیر آئینی اور غیر منطقی ہے تو ڈاکٹر طاہرالقادری کے مطالبے کے بارے میں کیا کہا جائے گا؟ جمہوری حکومتوں کو ہٹانے کا اس طرح کا غیر آئینی اور غیر جمہوری مطالبہ بھی کوئی نیا نہیں ہے۔ سکندر اس لئے پاگل لگا کہ اس نے جمہوری حکومت کے خاتمے کے لئے کوئی بڑا سیاسی شو نہیں کیااورنہ ہی اربوں روپے خرچ کئے۔ اس نے اپنی بیوی اور دو بچوں کو ڈھال بنایا اور اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے نہ تو ہزاروں لوگوں کو استعمال کیا اور نہ ہی اپنے مذموم مقاصد پر معصوم لوگوں کو بھینٹ چڑھایا۔ سکندر اس لئے بھی بے وقوف قرار پایا کہ اس کابادی النظر میں کسی بڑی دہشت گرد تنظیم سے تعلق دکھائی نہیں دیا لیکن سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ سکندر جیسا شخص بھی ملک میں جمہوریت کو تسلیم نہیں کرتا اور بندوق کے زور پر اپنی بات منوانا چاہتا ہے۔ اس ذہنیت نے نہ صرف پاکستانی معاشرے کو تباہ کردیا ہے بلکہ یہ ذہنیت ان عناصر کے لئے بھی تباہی کا سبب بنے گی، جو پاکستان میں جمہوری قوتوں کے مقابلے میں دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کی سرپرستی کررہے ہیں۔ یہ اگرچہ اتفاق ہے کہ پیپلز پارٹی کے رہنما زمردخان نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سکندر کو دبوچنے کی کوشش کی اور ساڑھے پانچ گھنٹے کے بعد اس ڈرامے کا ڈراپ سن ہوا لیکن یہ اتفاق اس تاریخی حقیقت سے ہم آہنگ ہے کہ پیپلز پارٹی ہی قانون اور آئین کی عمل داری اور جمہوریت کے تحفظ کے لئے سب سے آگے ہے۔ ایک اور خطرناک بات یہ ہے کہ سکندر جیسا مبینہ پاگل اگر اکیلا اسلام آباد کو یرغمال بناسکتا ہے تو ڈرنا اس وقت سے چاہئے جب پاکستان میں آزادی سے کارروائیاں کرنے والے ہوشمند اور منظم بندوق بردار جتھوں نے اسلام آباد کا رخ کرلیا۔
15اگست کے واقعے کی ایک اور خاص بات بھی ہے جو انتہائی دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ تشویشناک بھی ہے۔ سکندر حیات پانچ گھنٹے سے زیادہ پاکستان کے ٹی وی چینلز پر چھایا رہا ۔ اس دوران پاکستان کے عوام کو ان لوگوں سے نجات مل گئی جو بقول صدر آصف علی زرداری صرف میڈیا میں زندہ رہتے ہیں اور تاریخ میں زندہ نہیں رہنا چاہتے۔ ایسے لوگ پانچ گھنٹے تک کس طرح صبر کرتے رہے ، یہ بھیایک سوال ہے ان ساڑھے پانچ گھنٹوں میں ان کی طرف سے اگرچہ یہ کوششیں کی گئیں کہ سکندر کے شو کو ہائی جیک کیاجائے لیکن وہ ایسا نہیں کرسکے۔ ”سکندر شو“ کے دوران یہ بات واضح ہو گئی کہ میڈیا کی مثبت باتیں کیا ہیں اور منفی کیا ہیں اور پہلی مرتبہ عام لوگ بھی میڈیا کے کردار کے حوالے سے باتیں کرنے لگے تھے۔ لوگوں کو یہ بات بھی سمجھ میں آگئی کہ کس طرح کچھ سیاسی گروہ زیادہ سے زیادہ ٹی وی چینلز کا وقت اور اخبارات میں جگہ لیتے ہیں۔ یہ بات شاید ہمارے میڈیا والوں کو اسی طرح سمجھ نہیں آئی ہو گی، جس طرح عام لوگوں کو ادراک ہوا ہے۔ میڈیا کو مجموعی طور پر اپنی پالیسیوں اور اپنے کردار ازسرنو جائزہ لینا ہو گا ۔ سکندر کا واقعہ اتنا بڑا نہیں تھا جتنا پوری قوم اعصابی تناوٴ کا شکار رہی ۔ نائن الیون کے واقعے کے بعد بھی امریکی اور دیگر مغربی ذرائع ابلاغ نے لوگوں میں ایسی ہیجانی کیفیت پیدا نہیں ہونے دی ۔ اگر کوئی بہت بڑا واقعہ رونما ہوگیا تو پاکستانی قوم اپنے آپ کو سنبھال نہیں سکے گی۔ سارے مسائل سکندر کو پاگل کہہ دینے سے حل نہیں ہوں گے۔