• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس سال جنوری میں افضل گورو کو پھانسی دیئے جانے کے بعد کشمیر میں شہریوں اور جہادی عناصر اور بھارتی سیکورٹی فورسز کے درمیان پُرتشدد جھڑپوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ مارچ میں جنگجوؤں نے پانچ پولیس والے ہلاک کر دیئے۔ مئی میں چار فوجیوں کو گولی مار دی گئی۔ جون میں آٹھ فوجیوں کو گھات لگاکر ہلاک کر دیا گیا۔ ان کارروائیوں کے جواب میں پیرا ملٹری فورسز کی شہ پر بپھرے ہوئے ہندو ہجوم نے نماز ِ عید ادا کرنے والوں پر حملے کئے، بھارتی فورسز کی طرف سے قرآن ِ پاک کی بے حرمتی کا واقعہ پیش آیا اور اس کے خلاف احتجاج کرنے والے شہریوں پر فائرنگ کی گئی۔ ان واقعات کے علاوہ مقبوضہ کشمیر میں شیعہ سنی فسادات بھی ہوئے اور یہ اس وادی میں ایک نئی بات تھی کیونکہ اس سے پہلے یہاں فرقہ وارانہ کشیدگی نہیں تھی۔ ان فسادات کے نتیجے میں کئی افراد زخمی ہوئے۔ کشمیر میں پُرتشدد کارروائیوں کے علاوہ کنٹرول لائن پر پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔6 جنوری کو بھارتی فورسز کی فائرنگ سے ایک پاکستانی فوجی ہلاک ہوا۔ 8 جنوری کو پاکستانی فورسز نے دو بھارتی فوجیوں کو ہلاک کر دیا۔ اس کے بعد ایک پاکستانی فوجی 15 فروری اور ایک جولائی کو بھارتی فورسز کی فائرنگ کا نشانہ بنا۔ پانچ اگست کو پانچ بھارتی فوجیوں کو ہلاک کر دیا گیا۔اُس وقت سے لے کر اب تک دونوں ممالک کی فورسز ایک دوسرے پر گولہ باری کررہی ہیں۔
دوسری طرف مغربی سرحد کے پار افغانستان میں تین اگست کو جلال آباد میں بھارتی سفارت خانے پر خودکش حملہ کیا گیا۔ اس حملے میں سفارت خانے کے قریب کھڑے کچھ افراد کی ہلاکتیں ہوئیں۔ اس سے پہلے 2008ء، 2009ء اور 2010ء میں کابل میں بھارتی اثاثوں پر حملے کئے گئے ہیں۔ بھارت ان حملوں پر پاکستانی ”اثاثوں“ حقانی گروپ کو مورد ِ الزام ٹھہراتا ہے۔ اس کے بعد بلوچ علیحدگی پسندوں، جن کے مبینہ طور پر افغانستان میں تربیتی کیمپ ہیں، نے بلوچستان میں موجود پنجابی آبادکاروں، پاکستان کی سیکورٹی فورسز اور گیس کی تنصیبات پر حملے شروع کر دیئے ۔مذہبی انتہا پسندوں نے بھی دوسرے مکتبہ فکر اور سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔ پاکستان ان حملوں پر بھارت کو مورد ِ الزام ٹھہراتا ہے۔یہ سب کیا ہو رہا ہے؟پاکستانی اور بھارتی سیکورٹی فورسز کے درمیان کشیدگی اس حد تک کیوں بڑھ چکی ہے کہ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل مسٹر بان کی مون کو ثالثی کی پیشکش کرنا پڑی؟اس ضمن میں بھارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ افضل گورو کی پھانسی سے فائدہ اٹھا کر پاکستانی دفاعی اداروں نے کشمیر میں پُرتشدد کارروائیوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ الزام ہے کہ پاکستانی فوج جنگجو عناصر کو لائن آف کنٹرول پار کرنے میں مدد دیتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں بھیجتی ہے تاکہ وہ بھارتی علاقے میں جا کر شورش پھیلائیں۔ بھارت یہ تاثر دینے کی کوشش کررہا ہے کہ پاک فوج جارحانہ کارروائیاں کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کی دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان امن کی فضا قائم کرنے کی کوششوں کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہے۔
تاہم اس بھارتی تھیوری کو تسلیم کرنے میں کچھ حقائق آڑے آتے ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ آرمی چیف جنرل اشفاق کیانی نے یہ واضح طور پر کہا کہ اب پاکستان کی سا لمیت کو بھارت کے بجائے اندرونی عناصر یعنی طالبان سے خطرہ ہے۔ اُنہوں نے بھارت کے ساتھ تجارتی روابط کی بھی حمایت کی اور مسٹر شریف کے وزیراعظم بننے سے پہلے ہی پاکستان اور بھارت میں تجارت ہو رہی تھی۔ اب جیسا کہ بھارتی ذرائع الزام لگاتے ہیں، وہ اس امن کی فضا کو خراب کیوں کرنا چاہیں گے؟ اس کے علاوہ یہ بھارت ، نہ کہ پاکستان ، ہے جس نے افضل گورو کو پھانسی دی تھی اور اس کے نتیجے میں وادی میں پُرتشدد کارروائیاں شروع ہوئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کی ملٹری حکمت ِ عملی مغربی، نہ کہ مشرقی بارڈر کے حوالے سے ہے۔
اس صورتحال کی ایک اور حقیقت پسندانہ وضاحت ہے۔ اگلے سال کے اختتام تک افغانستان سے امریکی انخلا کے امکانات نے پاکستان اور بھارت، دونوں کو مجبور کیا ہے کہ وہ افغانستان میں اپنا زیادہ سے زیادہ اثرورسوخ قائم کریں۔ امریکہ کی شہ پر بھارت افغان معیشت میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے اور افغان نیشنل آرمی کو تقویت دیتے ہوئے کرزئی حکومت کو سہارا دے رہا ہے۔ اس دوران پاکستان بھی اپنے افغان اثاثوں، ملّا عمر اور حقانی گروپ کو ہاتھ میں رکھے ہوئے ہے تاکہ کابل میں بھارت کے بڑھتے ہوئے اثر کو زائل کیا جا سکے یقینا بھارت کی پشت پناہی سے وجود میں آنے والی 350,000 جوانوں پر مشتمل ایک مضبوط افغان فوج جو پاکستان مخالف جذبات رکھتی ہو، پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے لئے ایک ڈراؤنے خواب سے کم نہیں۔ چنانچہ افغانستان، کشمیر اور بلوچستان میں تشدد اور لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کی وجہ سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ تاہم صورتحال میں ایک اور غیر معمولی موڑ آیا ہے۔ جس دوران بھارت میں سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ، اپوزیشن جماعتیں، میڈیا حتیٰ کہ کانگریسی حکومت بھی پاکستان کے خلاف یک زبان ہو کر جارحانہ جذبات کا اظہار کر رہے ہیں، پاکستان کا ردعمل یکسر مختلف ہے۔ پاک فوج کے ترجمان نے بھارتی جذبات کے مقابلے میں جارحانہ بیان نہیں دیا ہے، پاکستانی میڈیا محتاط لہجہ اپنائے ہوئے ہے اور اپوزیشن بھی بھارت کو ”منہ توڑ جواب“ دینے کیلئے حکومت پر دباؤ نہیں ڈال رہی ہے۔ سرحد پر ہونے والی فائرنگ کے باوجود وزیراعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ مربوط ڈائیلاگ کے ذریعے امن کے عمل کو آگے بڑھایا جائے۔
بہتر ہوتا اگر بھارت پاکستانی وزیراعظم کی نصیحت پر کان دھرتا۔ اگر بھارت افغانستان میں اپنے کارڈ ، جیسا کہ اوپر بیان کیا ہے، نہیں کھیل رہا اور اس کا خیال ہے کہ پاکستانی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ امن کے عمل کو سبوتاژ کررہی ہے تو پھر اسے وزیراعظم نواز شریف ، جو امن کے خواہاں ہیں، کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہئیں۔ محاذ آرائی دونوں ممالک کے لئے خطرناک نتائج لئے ہوئے ہے۔ اگر ، جیسا کہ خدشہ ہے امریکہ کے جانے کے بعد پاکستان اور بھارت نے اپنے اپنے ”اثاثوں“ کی مدد سے افغان سرزمین پر پراکسی جنگ کرنے کی حماقت کی تو یہ جنگ ان کے انٹرنیشنل بارڈر پر بھی پہنچ جائے گی۔ اس صورتحال سے جہادی عناصر اور القاعدہ فائدہ اٹھاتے ہوئے پورے کشمیر میں پھیل جائیں گے۔ جس طرح کبھی پاکستان کی خواہش تھی کہ افغانستان میں ایسی حکومت بنے جو پاکستان کی حامی ہو، اسی طرح آج بھارت کو بھی پاکستان میں ایک ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو اس کے ساتھ امن سے رہنا چاہتی ہو۔
تازہ ترین