• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دنیا کے عظیم لیڈروں کے بارے میں ہم نے طرح طرح کی کہا نیاں سن رکھی ہیں جن کو پڑھ کر یوں لگتا ہے جیسے وہ لیڈر انسان نہیں بلکہ جناتی صفات کی مالک کوئی مخلوق تھے ، ہر وقت چاق و چوبند رہتے تھے ، نظم و ضبط کا شاہکار تھے ، مجسم انکسار تھے ، سراپا اخلاق تھے اوران کادل سونے کا جبکہ مغز پلاٹینم کا تھا۔کسی کے بارے میں ہم نے سن رکھا ہے کہ وہ دسمبر کی یخ بستہ راتوں میں پونے تین گھنٹے تک تیر سکتا تھا، کسی کے بارے میں پتہ چلتا ہے کہ سرکار روزانہ ننگے پاوٴں بیس کلو میٹر دوڑ لگاتے تھے اور اس دوران امور مملکت بھی نپٹاتے جاتے تھے،کسی صاحب کے بارے میں روایت ہے کہ وہ آدھ گھنٹے تک سانس روک کر دریا کی تہہ میں تشریف رکھ سکتے ہیں(نہ جانے اس قدر”اوکھے“ طریقے سے تشریف رکھنے کی کیا ضرورت ہے)اور کسی ”ولی“ کے بارے میں لوگ بتاتے ہیں کہ وہ روزانہ رات کو سونے سے پہلے سالم بکرا اکیلے کھا جایا کرتے تھے۔بندہ پوچھے یہ لوگ لیڈر تھے یا مداری۔اگر کوئی رسّے پر چل سکتا ہے یا اندھیرے میں آواز پر نشانہ لگا سکتا ہے تو اسے اولمپک میں شرکت کرنی چاہئے نہ کہ عوام کے سینے پر دال مونگنی چاہئے۔ہمیں چونکہ ”مافوق الفطرت “انسان اور دیومالائی کردار بہت پسند ہیں لہٰذا ہم بغیر سوچے ان تمام کہانیوں پر ایمان لے آتے ہیں چاہے ان کا کوئی قابل اعتماد ذریعہ ہو یا نہیں۔
ایسی ہی کچھ مبالغہ آمیز باتیں ہم نے چین کے عظیم لیڈر ماوٴ زے تنگ کے بارے میں بھی سن رکھی ہیں۔بلاشبہ چیئرمین ماوٴ کروڑوں چینی عوام کا لیڈر تھا، وہ چینیوں کے لئے باپ کا درجہ رکھتا تھا، اس نے چیانگ کائی شک کے خلاف تاریخی لانگ مارچ کیا،وہی لانگ مارچ جو اپنے یہاں بے حد مقبول ہے ،اس لانگ مارچ میں ماوٴ کی زیر قیادت انقلابی چینیوں نے تاریخ رقم کی، کہا جاتا ہے کہ اس جدو جہد کے دوران راستے میں جب کوئی دلدل آ جا تی تو لوگ اپنی جان قربان کر کے دلدل میں لیٹ جاتے تاکہ باقی لوگ ان کے سینوں پر پیر رکھ کر گذر سکیں،یہ سب ماوٴ کی کرشماتی قیادت کا کمال تھا، اس نے چین کو متحد کیا ، عوامی جمہوریہ چین کی بنیاد رکھی اور اسی لئے ماوٴ اپنے لوگوں کے لئے باپ کا درجہ رکھتا تھا۔ مگر ان سب باتوں کا یہ مطلب نہیں کہ ماوٴ کوئی دیوتا تھا ، وہ ایک انسان تھا جس میں خوبیاں اور خامیاں بیک وقت موجود تھیں،عورت اور خوشامد اس کی بھی کمزوری تھی،جہاں اس نے چین میں سوشلسٹ انقلاب کی بنیاد رکھی وہیں اس کے ذمے کروڑوں انسانوں کا خون بھی ہے۔
ماوٴ کے نزدیک انسانی جان کی کوئی اہمیت نہیں تھی ، ایک دفعہ ماوٴ نے جواہر لعل نہرو سے گفتگو کے دوران کہا ”ایٹم بم سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ،چین کے پاس بہت لوگ ہیں ،انہیں بم مار کر ختم نہیں کیا جا سکتا۔اگر کوئی دوسرا ایٹم بم گرا سکتا ہے تو میں بھی گرا سکتا ہوں۔دس بارہ ملین لوگوں کی موت سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔“ نہرو صاحب یہ بات سن کر دم بخود رہ گئے۔اسی طرح 1957 میں ماسکو میں تقریر کرتے ہو ئے ماوٴ نے فرمایاکہ وہ تین سو ملین چینیوں کی جان دینے کے لئے تیار ہیں ، ”اگر چین کی آدھی آبادی بھی ختم ہو جائے تو بھی ملک کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ہم اور زیادہ لوگ پیدا کر لیں گے۔“ماوٴ کے نزدیک انسانی جان کی یہ بے قدری شائد اس وجہ سے تھی کہ ماوٴ نے اپنے سامنے اپنے پیاروں کو مرتے دیکھا تھا،اس کی پہلی بیوی یانگ کائی ہوئی کو قتل کیا گیا ، ماوٴ کے دو بھائیوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا گیا،ماوٴ کا بڑا بیٹا کوریا کے خلاف جنگ میں مارا گیا جبکہ اس کے کئی بچے لانگ مارچ کے دوران لا پتہ ہوئے جن کا بعد میں کوئی پتہ نہ چل سکا۔لیکن کبھی کسی نے ماوٴ کو اس معاملے میں جذباتی ہوتے نہیں دیکھا تھا، مرنے والوں کے بارے میں ہمیشہ اس کا کہنا ہوتا ”انقلاب کے لئے جانیں دینی ہی پڑتی ہیں۔“ تاہم واضح رہے کہ یہاں جان سے مراد ماوٴ کی جان نہیں ہے کیونکہ عام چینیوں کے لئے ماوٴ ایک بیش بہا خزانے کی مانند تھا جس کی حفاظت ہر حال میں ضروری تھی۔
الزام یہ ہے کہ ایک سوشلسٹ رہنما ہونے کے باوجود ماوٴزے تنگ کا طرز زندگی مکمل طور پرشاہانہ تھا، قدم چینی شہنشاہوں کی طرح ماوٴ بھی ایک شہنشاہ تھا،ہر چیز اسی کے گرد گھومتی تھی، ہر بات کا محوروہی تھا ، اسے کوئی شے بھی طلب کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی ، اس کا عملہ اس کی آنکھ کا اشارہ سمجھتا تھا،جرابیں پہنے سے لے کر بالو ں میں کنگھا کرنے تک ماوٴزے تنگ ایک بادشاہ کی طرح behave کرتا۔سب سے دلچسپ منظر وہ ہوتا جب ماوٴ کا حجام اس کی حجامت بناتا، حجامت کے دوران اس غریب کو دانتوں تلے پسینہ آ جاتا کیونکہ ماوٴ کو اس بات کی بالکل پرواہ نہ ہوتی کہ اس کی حجامت کی جا رہی ہے یا شیو بنانے جیسا نازک کام ہورہا ہے۔
ماوٴ اس دوران اطمینان سے کتاب پڑھتا اور بیچارے حجام کو مصیبت پڑ جاتی ، ماوٴ کبھی دائیں طرف گردن گھماتا کبھی بائیں طرف ، کبھی اوپر کبھی نیچے ، یوں لگتا جیسے اسے پتہ ہی نہ ہو کہ اس کے بال کاٹے جا رہے ہیں۔ شیو کے دوران تو غریب کی مزید کمبختی آ جاتی ، جب ماوٴ کتاب میں غرق ہو کر اپنا سر مزید نیچے کر لیتا تو حجام کو گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اس کی ٹھوڑی کے بال تراشنے پڑ تے۔اسی طرح ماوٴ کی روٹین بے حد عجیب و غریب تھی ، چونکہ بے خوابی کا مریض تھا اس لئے دن رات کی پرواہ نہ ہوتی ، رات کے تین بجے اس شانتی کے ساتھ کام کرتا جیسے صبح کے گیارہ بجے ہوں۔دانتوں میں برش کرنے کی عادت نہیں تھی جس وجہ سے دانت اس قدر خراب ہو گئے کہ با امر مجبوری دندان ساز کی دی ہوئی کڑوی دوائی کھانی پڑی ، ماوٴ کو بچوں کی طرح کڑوی دوائیاں بالکل پسند نہیں تھیں۔روز مرہ زندگی میں ماوٴ کے قریب ترین اس کے جانثار باڈی گارڈ ہوتے جو غریب اور اَن پڑھ کسان تھے ،دلچسپ بات یہ ہے کہ بسا اوقات ماوٴ زے تنگ صاحب ان سے ان کے معاشقوں کی بابت دریافت کرتے ، انہیں مفت رومانوی مشورے دیتے اور اکثر کو لو لیٹرز لکھنے میں مدد بھی دیتے۔واہ لیڈر ہو تو ایسا!
ماوٴ صرف اپنے اس برتاوٴ میں ہی شہنشاہ نہیں تھا بلکہ اس کا مکمل لائف سٹائل بادشاہوں والا تھا،اس کا وسیع و عریض پر تعیش محل نما مکان ، اس کے کھانے پینے کا شاہانہ انداز اوراس کی ”دلجوئی“ کی خاطر برپا کی جانے والی ہوشربا ڈانس پارٹیاں …ان تمام باتوں کو دیکھ کر کوئی مائی کا لعل یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ ”ہذا چیئرمین ماوٴ ، کمیونسٹ پارٹی آف چائنا“۔موصوف کے ٹرین میں سفر کرنے کا احوال بھی خاصا دلچسپ ہے۔ بیجنگ سے باہر جانے کے لئے ماوٴ کے لئے مخصوص ایک ذاتی ٹرین ہوتی جس میں گیارہ بوگیاں ہوتیں،ماوٴ کی بوگی نہایت عالیشان ہوتی جبکہ چار بوگیوں میں اس کے باڈی گارڈ ، ذاتی عملہ اور ریل کا سٹاف ہوتا۔ماوٴ کے سفر کے دوران اس ریلوے لائن پر تمام ٹرینیں روک دی جاتیں جس سے بعض اوقات پورے ملک میں ٹرینوں کی آمدورفت متاثر ہوتی جسے نارمل ہونے میں ایک ہفتہ تک لگ جاتا۔ماوٴ کی کچھ باتوں پرتو شائد اعتراض کیا جا سکتاہے مگر دیکھا جائے تو ماوٴ کا پروٹوکول کسی بھی ہمعصرسربراہ مملکت جیسا ہی تھا، تاہم ماوٴ چونکہ کروڑوں غریب چینیوں کا نجات دہندہ تھا جن سے اس نے سوشلزم کے نام پر ایک آسودہ زندگی کا وعدہ کیا تھا اس لئے یہ لگژری لائف سٹائل اسے زیب نہیں دیتا تھا۔میرے نزدیک قابل اعتراض بات یہ شاہانہ طرز زندگی نہیں بلکہ ماوٴ کی وہ پالیسیاں ہیں جن کی وجہ سے کروڑوں غریب انسان اپنی جان سے گئے۔ ان کا احوال پھر سہی۔
نوٹ: آج ماوٴ سے ”اظہار محبت“ کی دو وجوہات ہیں،پہلی، میں آج کل بیجنگ میں ہوں، دوسری، میرے زیر مطالعہ وہ کتاب ہے جہاں سے میں نے یہ حقائق اکٹھے کئے ، کتاب کامصنف وہ شخص ہے جوبائیس برس تک ماوٴ کا ذاتی معالج رہا۔
تازہ ترین