• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قومی ومذہبی تہواروں کی طرح یوم آزادی پر بھی مختلف ایس ایم ایس موصول ہوئے جس میں ایک ایس ایم ایس میں ماضی کے مقبول قومی گیت ”ہم زندہ قوم ہیں ،پائندہ قوم ہیں“ جس پر بالخصوص نوجوان جھوم اٹھتے تھے کاری میکس بھی شامل تھا ۔آپ ماضی کے دریچے وا کرتے ہوئے گیت کے طرز اور گائیک امجد حسین کے انداز کو قلب ونظر میں تازہ کریں اور پھر یہ ایس ایم ایس ملاحظہ فرمائیں!!
ہم زندہ قوم ہیں
شرمندہ قوم ہیں
پانی ،بجلی کا بحران
دھماکوں کا پاکستان
پاکستان،پاکستان،پاکستان
دھماکوں کا پاکستان!!
مجھے بھی آپ کی طرح اس پیغام میں پوشیدہ خود احتسابی طنز کو محسوس کرنے سے قبل یہ ایس ایم ایس ناگوار گزرا تھا !!لیکن جو قومیں خود فریبی کا جامہ زیب تن کرلیتی ہیں پھر اُسے اپنے بدن پرتار تار ہوتے ریشم وکمخاب کی خبر تک نہیں رہتی، وہ اپنی دنیا میں یوں مست ہوتے ہیں کہ اقوام عالم میں ان پر لگائے جانے والے قہقہوں کو وہ اپنی فنکارانہ چابکدستی کی داد سمجھنے لگتے ہیں۔غیرت یہ نہیں کہ ہم نمائشی حب الوطنی کے اظہار کیلئے شدت ِغصے میں چارہ کھاتے بھینس کی طرح منہ سے جھاگ برآمد کرنے لگ جائیں،غیرت یہ ہے کہ ہم خود کو اس قابل بنالیں کہ کوئی کسی بھی نوع کی ہماری تضحیک کی جرأت تک نہ کرسکے۔
عین ان لمحات میں جب رمضان المبارک کی برکت سے خدائے بزرگ وبرتر کا سایہٴ رحمت مسلمانان عالم پر سایہ فگن تھا ہم پاکستانی اس روس میں شرمسار کھڑے تھے جس کے17ٹکڑے کرنے پر ہمیں بہت ناز ہے !!امر واقعہ یہ ہے کہ21جولائی کو لندن جاتے ہوئے پی آئی اے کے طیارے کا انجن فیل ہونے کے سبب اسے قریبی ماسکو ائیرپورٹ پر اتارا گیا اطلاع پر اسلام آباد ائیرپورٹ پر مانچسٹر جانے کیلئے تیار کھڑی فلائٹ وہاں موجود مسافروں کو لے جانے کی خاطر روس روانہ کردی گئی آٹھ گھنٹے بعد جب یہ طیارہ مسافروں کو بٹھا کر ماسکو ائیرپورٹ سے رخت ِسفر باندھنے لگا تو ماسکو سول ایوی ایشن نے پائلٹ کو طیارہ اڑانے سے روک دیا اور کہا کہ دونوں فلائیٹس کے لینڈنگ چارجز، پیٹرول،خراب جہاز کے معائنے اور فلائینگ چارجز ادا کئے جائیں اگرچہ پائلٹ بین الاقوامی قوانین کے تحت کریڈٹ شیٹ پر دستخط کیلئے تیار تھا لیکن وہ نقد رقم کا تقاضا کررہے تھے ۔ روسیوں کے رویّے کی شدت جاننے پر پاکستانی سفارتخانے کا ایک اہلکار ایئرپورٹ پہنچا لیکن بے چارے کو ایئرپورٹ کے اندر ہی جانے نہیں دیا گیا!! پھر ہمارے سفارتخانے نے روسی دفتر خارجہ سے رابطہ کیا جس پرپاکستانی اہلکار کو ایئرپورٹ کے اندر جانے تو دیا گیا لیکن نقد رقم کا تقاضا برقرار تھا جس پر پاکستانی سفیر ایئرپورٹ پہنچااور مذاکرات کے بعد پاکستانی سفارتخانے کے ساورن گارنٹی پر بات بنی، بانڈ پر پاکستانی سفارتی عملے نے دستخط کئے اور اس طرح مسافر 12گھنٹے اذیت میں گزارنے کے بعد منزل کی جانب محوِپرواز ہو سکے۔ ایک خبر کے مطابق طیارہ عید تک ماسکو ایئرپورٹ پر کھڑا تھا۔اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری بان کی مون پاکستان آئے تھے ان کی جانب سے السلام علیکم اور اردو میں ”شکریہ“ کہنے کا ہمارے ہاں بڑا چرچا رہا شاید ہمارے حکمرانوں نے ان خوشگوار لمحات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے وہ ضمانت بھی حاصل کر لی ہو جو ماسکو میں کھڑے طیارے کو واپس نہ کرنے کی صورت میں ہم سابق ملحدکو فراہم کرسکیں!!
اگر ایک یہ واقعہ ہوتا تو نظر انداز کیاجاسکتا تھا لیکن اب تو دنیا بھر میں ہم پاکستانیوں کو مخصوص زوایہ نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اگر ذرا دیر کیلئے بھارتی اداکار شاہ رخ خان کو امریکی ایئرپورٹ پر روک لیاجاتا ہے تو بھارت کے احتجاج پر امریکی حکام معافی مانگنے پر مجبور ہو جاتے ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں کی سرتا پا تلاشی اور جوتے ودیگر اتروانے پر بھی ہماری غیرت نہیں جاگتی، یہ یا تو کرکٹ میں شکست پر اور یا پھر مصر میں مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ جانے پر ہی بیدار ہوتی ہے۔
شاہ رخ کے واقعے کا دوسرا پہلو کیا ہوتا اگر وہ پاکستان میں ہوتے…شاہ رخ کے مطابق ان کے والد رئیس الاحرار حضرت باچا خان کی خدائی خدمتگارتحریک کا حصہ تھے اور فرنگی استبداد کے باعث پختونخوا سے بھارت آئے۔پہلا سوال تو یہ ہے کہ اگر وہ پاکستان میں ہوتے تو کیا وہ اتنے بڑے اسٹارہوتے جتنے اب ہیں!؟ جواب یقیناً نفی میں ہے ہمارے ہاں بلاشبہ محمد علی، سدھیر، ندیم، وحید مراد، درپن، سنتو ش کمار، آصف خان جیسے باکمال اداکار گزرے ہیں جو کسی بھی حوالے سے ماسوائے دلیپ کمار کے، بھارت کے تمام اداکاروں سے بڑے تھے لیکن جب شاہ رخ کا دور آیا تو پاکستانی فلم انڈسٹری جنرل ضیاء صاحب کے انتہا پسند نظریات تلے آخری سانس لے رہی تھی لہٰذا بڑے اداکار کیسے پیدا ہوتے!؟اور یوں یہ واک اوور شاہ رخ کو اس ڈکٹیٹر اور ان کی باقیات کے توسط سے ملا جنہوں نے اس پاکستانی فلم صنعت کو تباہ کردیا جس سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ تھا اورجو سستی تفریح کے ساتھ نوجوان نسل کو منشیات وتشدد سے دور رکھنے کا ایک کارآمد ذریعہ بھی تھا۔انتہا پسندی سے قبل پاکستان فلم انڈسٹری نے ملکی ترقی میں اپنا بھرپور حصہ ڈالا ،کیا یادگار زمانہ تھا لوگ خوف ودہشت سے بے نیاز قطاردرقطار سینما گھروں کے آگے جمع ہوتے۔ یہ سنیما شہروں کی رونق ہوتے اور زندگی کا احساس دلاتے، اس احساس ہی کو انتہا پسندی کی چادر میں لپیٹ لیاگیا۔آج بھارتی فلم انڈسٹری بھارتی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے صرف وہاں کے ”خان“ سرکاری خزانے میں جتنا انکم ٹیکس جمع کراتے ہیں پاکستان کے تمام اراکین پارلیمینٹ بھی اتنا ٹیکس نہیں دیتے۔البتہ ان دونوں میں قدر مشترک یہ ہے کہ وہاں کے اداکار بھی اپنے فن سے کماتے ہیں اور یہاں کے مذہبی اشرافیہ اور سیاستدان بھی اپنے فن سے کماتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ بھارتی اداکار قومی خزانے اور زرمبادلہ کے ذخائر کا سائز بڑھاتے ہیں اور ہمارے والے گھٹاتے ہیں!!
برسبیلِِِِ تذکرہ یہ استفسار بھی ہے کہ دیگر باتوں کے علاوہ کیا آج اگر شاہ رخ پاکستان میں ہوتے اور وہی کرتے جو ان کی گھٹی میں شامل ہے یعنی باچا خان کے راہ حق کے سفیر ہوتے تو کیا وہ آج آزاد فضاؤں میں سانس لیتے یا اسفند یار ولی خان صاحب کی طرح اپنے ہی وطن میں امان کی تلاش میں سرگرداں اور سدا بہ صحرا ہوتے!!؟
جن رجالِِ بے مثال نے فرنگی استبداد سے جنگ لڑی، تلواروں اور نیزوں کی نوک پر مردانہ وار رقص کیا، اپنے مستانہ لہو سے شاہراہ آزادی کو مزین کیا ایسے سربازوں کے سامنے الفاظوں کی کیا وقعت !! جملوں، سطروں، تحریروں کی کیا قیمت!! وہ تو گوہر نایاب تھے وہ تو شہدائے چمن ہیں غازہٴ وطن ہیں، محسن ملت ہیں… ہاں ہم اور ہمارے حکمران ہی ہیں جنہوں نے اس قطعہ جنت کو دوزخ بناکر رکھ دیا ہے لیکن پھربھی اپنے احتساب سے گریزاں ہیں،آئینہ دیکھنے پر اسے کرچی کرچی کرنے سے باز نہیں آتے!!
بھارتی سرزمین ہماری سرزمین سے کسی بھی طور اعلیٰ نہیں، وہاں کے عوام ہمارے عوام سے کسی بھی میدان میں برق رفتار نہیں لیکن پھر یہ کون ہیں جنہوں نے ہمارے پروں پر پیر رکھ دیئے ہیں!!سب جانتے ہیں یہ ہمارے وہ اختیار مند ہیں جو کسی بھی طور پر ضبط شدہ اختیار میں ملک وعوام کو حصہ دینے پر تیار نہیں لہٰذا جمود چھا گیاہے اور جمود میں ترقی معکوس کا رونا کیسا!!؟
شاباش ہے دیس کے ان باسیوں پر جو پیٹ پر پتھر باندھ کر بھی اپنی جونپڑوں میں آزادی کی شمعیں روشن کئے ہوئے ہیں وگرنہ ہمارے اختیار مند تو کب سے طوقِِ غلامی لئے تیار کھڑے ہیں!! آیئے فیض صاحب کی نظم صبح آزادی میں پنہاں سچ کا سامنا کرتے ہوئے ان کے کہے پر لبیک کہتے ہیں!!
یہ داغ داغ اجالا ،یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں،جس کی آرزولے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہوگا شبِِِ سست موج کا ساحل
کہیں تو جاکے رکے گا سفینہٴ غمِ دل
سنا ہے ہو بھی چکا ہے فراق ظلمت ونور
سنا ہے ہو بھی چکا ہے وصالِ منزل وگام
بدل چکا ہے بہت اہلِ درد کا دستور
نشاطِ وصل حلال وعذابِ ہجر حرام
جگر کی آگ، نظر کی امنگ،دل کی جلن
کسی پہ چارہٴ ہجراں کا کچھ اثر ہی نہیں
کہاں سے آئی نگارِ صبا، کدھر کو گئی
ابھی چراغِ سرِرہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانیٴ شب میں کمی نہیں آئی
نجات دیدہ ودل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
تازہ ترین