• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج سے 41سال پہلے 1972ء میں یورپ سے واپسی پر عمرہ کرنے کا ارادہ کیا۔ لندن سے سعودی سفارتخانے سے ویزہ حاصل کیا ۔اس زمانے میں پورے یورپی ممالک بشمول برطانیہ، جرمنی ، فرانس ، سوئیڈن ، ڈنمارک غرض ہر بڑے ملک میں علاوہ سوئٹزر لینڈ کسی ویزے کی ضرورت پاکستانی پاسپورٹ کے لئے نہیں ہوتی تھی۔ صرف مسلمان ممالک کے لئے ویزے کی ضرورت پڑتی تھی پاکستان کا ہرا پاسپورٹ ان ممالک کی بہ نسبت بہت مضبوط سمجھا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ کینیڈا ، آسٹریلیا میں بھی آن آرائیول ویزہ مل جاتا تھا ، خیر ان دنوں سعودی عرب کے بعض شہر جدہ ، مکہ اور مدینہ چند میلوں تک محدود تھے زیادہ عمرہ کرنے کا رواج نہیں تھا۔ 3دن تک جدہ اور مکہ میں قیام کیا ، ایک دن مدینہ میں حاضری دی اور واپس پاکستان لوٹ گئے ۔ دل کو تشنگی رہی کہ اتنے کم عرصہ کیوں گزارا، چنانچہ اگلے سال 1973ء میں اللہ تعالیٰ نے حج کرنے کے سعادت عطا فرمائی ۔ سردیوں کا حج تھا کوئی خاص موسمی دشواری پیش نہیں آئی ۔45روز کا دورانیہ تھا مکہ میں حرم سے چند فرلانگ پر مقامی باشندوں کے چھوٹے چھوٹے گھر ہوتے تھے وہی لوگ حج کے دنوں میں کمرے کرائے پر دے دیتے تھے۔ صرف 400ریال میں حج ، عمرہ ، منیٰ ، مزدلفہ میں قیام معلم کے توسط سے کیا ۔ سادہ ترین حج ہوتا تھا ، کچے پکے مکانا ت مکہ اور مدینہ میں صرف حرم کے آس پاس ہوتے تھے ۔ وہ بھی 2تین میل کے اندر ہی شروع ہو کر ختم ہوجاتے تھے ۔ سڑکیں بھی کچی پکی اور صرف آنے جانے کی حد تک چوڑی ہوتی تھیں ۔ حرم بھی بہت مختصر ، مسجد نبوی ﷺبھی بہت پرانی حدود تک ہوتی تھی ۔ حاجیوں کی تعداد بھی بڑھی ، عمرہ کا بھی فیشن شروع ہوا ۔ الغرض 20سال تک دوبارہ سعودی عرب آنے کی سعادت نہ ہوئی پھر 1992ء میں دوبارہ 20سال بعد جب آنا ہوا تو شہروں کی حالت بدل چکی تھی ہر طرف ترقی ہی ترقی تھی ، حدود ِحرم میں بھی توسیع ہو رہی تھی۔
اب سارا سال سعودی عرب میں پوری دنیا سے مسلمان حج اور عمرے کی سعادت حاصل کرنے آجا رہے تھے اور بڑھتے بڑھتے اب 25لاکھ افراد عمرے اور اس کے برابر ہی حج کے موقع پر پوری دنیا سے مسلمان آنے لگے ۔ معمولی ہوٹلوں کی جگہ بڑے بڑے ہوٹل بنتے گئے البتہ چھوٹے چھوٹے ہوٹل بھی ساتھ ساتھ ہوتے گئے ۔ راقم 1992ء سے اس سال یعنی 2013ء تک الحمدللہ ہر سال عمرے کی سعادت سے مستفیض ہو رہا ہے۔ سعودی حکومت نے ہر دور میں خصوصاً شاہ فہد مرحوم کے دور میں حرمین شریفین کی بہت توسیع کی اور ہزاروں مربع گز کو لاکھوں مربع گز میں تبدیل کر دیا۔ موجودہ شاہ عبداللہ نے تو حرمین کی توسیع کے ساتھ ساتھ سڑک کے ساتھ ریلوے کا بھی منصوبہ متعارف کر ا کر حاجیوں کی بڑی خدمت انجام دی ۔ یہاں تک تو عوام کو بہت سہولتیں مل گئیں مگر ایک دوسرے اہم پہلو پر ،میں حرمین شریفین کی انتظامیہ کی توجہ مبذول کرانا ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ کہ اب حج اور عمرہ ایک عام مسلمان کی دسترس سے بالکل باہر ہوتا جارہا ہے، خصوصاً رمضان المبارک اور حج کے ایام میں ہوٹلوں کے کرائے اب 10دس گنا وصول کئے جانے لگے ہیں۔ چونکہ پہلے چھوٹے چھوٹے ہوٹل بھی اطراف میں ہوتے تھے تو عام آدمی ان میں ٹھہر سکتا تھا مگر اب تمام توسیع شدہ علاقے سے چھوٹے ہوٹل ختم کر کے صرف 5اسٹار ہوٹل وجود میں آچکے ہیں تو غریب و متوسط طبقے کے مسلمان اتنے مہنگے حج اور عمرے سے محروم ہوتے جا رہے ہیں،ٹیکسی اور بسوں کے کرائے بھی بڑھتے جارہے ہیں ، کھانے پینے کی اشیاء حرم کے اطراف میں شہر کی بہ نسبت دگنی اور چوگنی قیمتوں میں فروخت کر کے حج اور عمرہ کرنے والوں کی جیبوں پر بہت افسوسناک حد تک بوجھ ڈالا جا رہا ہے۔ پاکستان ، بھارت اور بنگلہ دیش کے عوام اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے اگر حکومت پہلے کی طرح قیمتوں پر کنٹرول کرے تو حج اور عمرہ کرنے والوں کی دعائیں سمیٹ سکتی ہے۔ مقامی انتظامہ پہلے ان تمام چیزوں کا خصوصی خیال رکھتی تھی جس کی وجہ سے دکاندار بھی پابند تھے ۔اب تمام پرانے بازار ٹوٹ جانے کی وجہ سے منہ مانگے دام وصول کرتے ہیں۔ پاکستان میں تو عمرہ، ویزہ اس سال بیس ہزار سے لیکر پچاس ہزار تک ٹریول ایجنٹ صاحبان نے سفارتخانے والوں کے تعاون سے فروخت کیا ۔ اس کی وجہ خود سعودی حکومت نے آخری وقت میں زائرین کی تعداد بوجہ مجبوری کم کی تھی اس سے فائدہ اٹھایا گیا اور وزٹ ویزے بھی پچاس ہزار روپے لیکر ماہ رمضان میں فروخت ہوئے، ایسا کس نے کیا ؟سعودی حکومت کو اس کی خصوصی انکوائری کروا کر اس کا سدباب کرنا چاہئے ۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ ٹریول ایجنٹس اس سے بھی آگے بڑھ کر عوام کو لوٹیں گے۔
ویسے بھی اب حج لاکھوں روپے کی کمائی کا ذریعہ بنتا جارہا ہے ۔ پوری دنیا میں دیگر مذاہب کے حکام ایسے موقعوں پر خصوصی پروازیں سستے داموں اپنی عوام کو فراہم کرتے ہیں مگر ہم خصوصیت کے ساتھ حج اور عمرے کے موقعوں پر جہاز کے کرائے دگنے تگنے کر کے عوام کو لوٹتے ہیں ۔جس طرح سعودی حکومت نے حال ہی میں معذوروں کے لئے حرم میں خصوصی سہولتیں دی ہیں اسی طرح عازمین کو مہنگائی کی آڑ میں لوٹنے والوں سے بچانے کی کوشش بارآور ہوسکتی ہیں۔ جیسا کہ علمائے کرام نے بھی مہنگے ہوٹلوں کے کرائے ، مہنگائی اور لوٹنے کے تمام ذرائع کو فتوے سے حرام قرار دیا ہے اور اس کے علاوہ اقاموں کی آڑ میں غریب مزدوروں سے منہ مانگا معاوضہ بھی حرام قرار دیا ہے۔ سعودی حکومت نے جو ٹیکس لگائے ہیں یہ حجاج کو بار محسوس ہوتا ہے اس پر نظرثانی کی جائے خصوصاً عام معافی جو ختم ہونے والی ہے اس پر نظرِثانی کر کے نکالے جانے والے ورکروں کو نئے منصوبوں جن میں جدہ سے مدینہ منورہ تک ریلوے لائنز اورتمام بڑے شہروں میں میٹرو ریل میں کھپانے کا پیکیج متعارف کروا کر انہیں بے دخلی اور بے روزگاری سے نجات دلوا کر ان کی دعائیں سمیٹیں۔ اب حج کا سیزن شروع ہونے والا ہے اس کی پیش بندی کی ابھی سے ضرورت ہے ۔ اب سعودی مملکت دنیا کی امیر ترین مملکت میں شمار ہوتی ہے جس میں پیٹرول ، سونا، تانبے ، ماربل اور دیگر قیمتی پتھروں سے مالا مال ہے پھر زائرین سے بے جا کمائی کیا جائز ہے؟ اس کو ختم کروا کر حج اور عمرہ کو عام مسلمان کی دسترس میں لائے۔
تازہ ترین