• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی … تنویرزمان خان، لندن
مدارس میں1938 میں پیدا ہونے والے کسی طرح کی سرحدوں سے آزاد صحافی اور رپورٹر ایم ضیاالدین گزشتہ دنوں ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔ میری ان سے ملاقاتیں تو رہیںلیکن کبھی ان کے ساتھ یا ان کے زیر سایہ کام کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ میں نے انہیں لندن میں ہی دیکھا اس وقت وہ پاکستان سے تو اپنا صحافتی سلسلہ تقریبا سمیٹ چکے تھے۔ اسکول آف افریقن اینڈ اورینٹل اسٹڈیز SOAS میں میری ان سے جب بھی ملاقات ہوتی ، تو وہ پروفیسر مغل کے ہمراہ وہاں موجود ہوتے اور ڈاکٹر تیمور حمٰن اور نادر چیمہ اور کئی طلبہ کے ہمراہ وہاں بڑے جوش اور ولولے سے فلسفے کی کوئی گتھی سلجھانے کی کوشش ہورہی ہوتی۔ ضیا الدین (مرحوم) اور پروفیسر امین مغل کے پاس بیٹھنے کا شوق اس لئے بھی بڑھ جاتا کہ دو بدھی والوں کے پاس بیٹھ کے کچھ علم و دانائی کی باتیں سنیں گے۔ میچ میں کوئی لقمہ دیکر مزید پوائنٹ نکالیں گے۔ ضیا الدین (مرحوم) اور رپروفیسر امین مغل صاحب کی گہری رفاقت تھی۔ ضیا الدین صاحب کی وفات پر پروفیسر صاحب کی سوشل میڈیا پر یہ پوسٹ ’’ضیا الدین صاحب اب میں بھی تھک چکا ہوں‘‘۔ اس پوسٹ نے میرا ندر سے دل ہلا کے رکھ دیا۔ کیونکہ پروفیسر امین مغل ہمارے لئے لندن میں بالکل ویسا ہی سایہ دار درخت ہیں جس طرح پاکستان میں صحافیوں کیلئے ضیاالدین (مرحوم )تھے۔ میں نے ضیا الدین (مرحوم) کو گرم اورپر جوش مباحث اور بات چیت میں اتنے تحمل اور صبر کے ساتھ اور دھمیے لہجے میں مخاطب ہوتے دیکھا جو دراصل ان کی طبیعت اور تربیت دونوں کا مظہرتھا ، ان کے کالم، رپورٹس، تجزیے بڑے سنیئر صحافیوں کیلئے بھی مشعل راہ رہے ہیں جس کی وجہ ان کا معاملات اور ایشوز کو گہرائی سےد یکھنا اور اس کا تاریخی پس منظر کے ساتھ بیانیہ ہوتاتھا۔کسی بھی ٹاک شو میں موجود ہوتے تو ان کی رائے معتبر اور بحث کو حتمی شکل دینے کیلئے ہوتی۔ ضیا الدین (مرحوم) کی زندگی صحافت اور ہیومن رائٹس کے کام سے عبارت ہے۔ انہوں نے 1966 میں PPIمیں رپورٹر کے طور اپنے صحافتی کیرئیر کا آغاز کیا۔ وہاں سے پاکستان اکانومسٹ، 1978 میں اسلام آباد آکر دی مسلم جوائن کیا اور اس کے بانی ممبران مین شمار ہوئے۔ تقریبا ڈیڑھ سال بعد دی مسلم میں پروفیسر خالد محمود اور مشاہد حسین بھی آگئے۔ یہ دونوں میرے ٹیچر بھی تھے تو دی مسلم اتنی منجھے ہوئے اور بہترین اذہان کی موجودگی میں بہت تھوڑےعرصے میں ملک کا معتبراخبار بن گیا۔ جناب ضیا الدین (مرحوم) کی سب سے طویل خدمات روزنامہ ڈان کےلئے تھیں1982 سے لے کر 2001 تک پھر اسلام آباد میںڈان ہی کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر بنے۔ 1994 میں دی نیوز جوائن کیا۔ 2005 میں لندن آکر ڈان کے غیر ملکی نمائندےکے طور پر کام کیا۔ یہی وہ عرصہ ہے جب میری ان سے گاہے بگاہے مختصر ملاقاتیں رہیں۔ لیکن پھر انہوں نے 2009 سے لیکر 2014 تک ایکسپریس ٹریبیون کے ساتھ کام کیا۔ ان کے اس صحافتی سفر پر طائرانہ نظر اس لئے بھی ڈالی کہ ان کی زندگی کے اتار چڑھاؤ اور ماحول کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ وہ ایک لیفٹسٹ اور پاک ٹریڈ یونینسٹ کے طور پر جانے جاتے تھے۔ 1970 میں PFUJکے جنرل سیکرٹری بھی رہے۔ صحافی ورکروں کی کم تنخواہوں پر وہ ہمیشہ ویج بورڈ ایوارڈ کے فیصلوں کے خلاف لڑتے رہےاور ورکروں کے حقوق کے لئے مالکان اور انتظامیہ سے ہمیشہ ٹکرلئے رکھی لیکن اس جدوجہد میں پریس کی آزادی کا علم کبھی نہیں جھکنے دیا۔ ضیاالدین (مرحوم) ساؤتھ ایشیا فری میڈیا ایسوسی ایشن SAFMA کے صدر بھی رہے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ PFUJنے ان کی وفات پر تین روزہ سوگ کا اعلان بھی کیا ہے۔ 2007 میں جنرل پرویز مشرف ایک تھنک ٹینک اجلاس میں شرکت کررہے تھے جہاں دنیا بھر کے صحافیوں کے سامنے ضیا الدین مرحوم نے پرویز مشرف سے ایٹمی اثاثوں کی بابت سوال کیا تو مشرف نے نہیں غدار تک کہہ ڈالا اور اپنے چیلوں چا نٹوں کو (جس کا ذکر جناب ضیا الدین نے سما ٹی وی کو دیئے جانے والے اپنے انٹرویو میں کیا)کہہ دیا کہ بے شک اسے( ضیاالدین کو)دو ایک ٹکا بھی دیں۔ اس قسم کی گرواٹ سے لدے حکمرانوں کی موجودگی میں بھی ضیا الدین نے کبھی نہ تو ہار مانی اور نہ ہی حوصلہ کمزور ہونے دیا اور جو ملک کے عوام کے حق میں بہتر سمجھا اس کا واویلا جاری رکھا۔ انہوں نے ہمیشہ پارلیمنٹ کی بالادستی کیلئے کام کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان کی سول سوسائٹی کے تمام ادارے اور حقوق انسانی کیلئے کام کرنے والی تنظیموں اور حکومتی حلقوں نے جناب ضیاالدین کی وفات پر گہرے رنج کا اظہار کیا ہےاور ان کے ناقدین بھی ان کے خلوص اور کام سے کمٹمنٹ پر ان کے معتقد ہیں۔ دنیائے صحافت میں ان کے قارئین اور سامعین اور ان کے مداح ضیا الدین مرحوم کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔
تازہ ترین