• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الیکشن میں دھاندلی کی شکایت ہو یا الیکشن کمیشن اور عدالت عالیہ، ملک میں پہلی بار ایک جمہوری حکومت نے آئینی طور پر پانچ سال حکومت کی اور صاف، شفاف طریقہ سے ایک نیا وزیر اعظم اور ایک نئے صدر نے اپنے عہدے سنبھالے۔ حکومت بنے تقریباً دو ماہ ہو گئے ہیں اور اب عوام نئی حکومت سے اپنے مسائل کا جلد از جلد حل چاہتے ہیں۔میں نے اپنے ایک سابق کالم میں میاں نواز شریف صاحب سے درخواست کی تھی کہ وہ اپنے سرہانے علامہ شبلی نعمانی کی الفاروق اور رشید اختر ندوی کی عمر بن عبدالعزیز کی جلدیں رکھ لیں اور کبھی کبھی ان کی ورق گردانی کرلیا کریں اور اہم باتوں پر اسٹکر لگالیں۔انسان کو یہ نہ سوچنا چاہئے کہ وہ پرانا زمانہ تھا اور مسائل کم تھے یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ اس وقت کی حکومتیں آجکل کے پاکستان سے بہت بڑی تھیں اور ذرائع مواصلات کی کمی کی وجہ سے نظام مملکت بہت دشوار تھالیکن تاریخ بتاتی ہے کہ ان دونوں حکمرانوں کے نظام حکومت سے بہتر آج تک دنیا میں کہیں بہتر نظام حکومت وجود میں نہیں آیا۔آج میں ان دونوں فرشتہ خصلت اعلیٰ حکمرانوں کے نظام حکومت کے چند اہم پہلوؤں پر توجہ دلانا چاہتا ہوں۔
آپ کو علم ہونا چاہئے کہ حضرت عمر کے زیر سایہ علاقوں کا رقبہ تقریباً ساڑھے بائیس لاکھ مربع میل تھایعنی تقریباً اُنسٹھ لاکھ مربع کلومیٹر۔ اس طرح یہ ریاست اسلامی پاکستان سے تقریباً آٹھ گنا زیادہ طویل رقبہ پر پھیلی ہوئی تھی۔ آپ نے صرف تقریباًساڑھے دس سال خلافت کی تھی اور یہ زیادہ تر فتوحات میں گزری تھی۔ رقبہ اور طاقت کے لحاظ سے اَپنے زمانے کی سب سے بڑی حکومت تھی۔ مدینہ سے لے کر مصر، آذربائیجان، آرمینیا، وسط ایشیا، مکران تک یہ سلطنت پھیلی ہوئی تھی۔ اس میں پارسی، عیسائی، آتش پرست، بدھ پرست سکونت پذیر تھے لیکن پوری سلطنت میں امن و امان اور سکون و اطمینان چھایا ہوا تھا۔ یہ فضا آپ نے ڈنڈے یا بندوق کے بل پر حاصل نہیں کی تھی بلکہ اپنے تدبّر، عقل و فہم، سیاست کی بدولت حاصل کی تھی۔ دنیا میں جتنے بھی حکمران گزرے ہیں جنھوں نے ملکی ضرورتوں کی وجہ سے عدل و انصاف کو بالائے طاق رکھ کر مخالفین پر ظلم نہ کیا ہو۔ نوشیرواں عادل تاریخ میں ایک اعلیٰ منصف حکمران مانا جاتا ہے لیکن اس نے بھی اپنے مخالفین پر ظلم و ستم ڈھائے تھے۔حضرت عمر  کی خلافت اپنی فتوحات کی وجہ سے نہیں بلکہ عدل و انصاف، عوام کی بہبودکا، سرحدوں کی حفاظت اور اعلیٰ انتظام حکومت کی وجہ سے مقبول اور مشہور تھی۔ جناب ثروت صولت نے اپنی کتاب ملت اسلامیہ کی مختصر تاریخ میں حضرت عمر کی ان چند اصلاحات کی فہرست دی ہے جو بے حد اہم اور ہمہ گیر تھیں۔ ان اصلاحات کا تذکرہ الفاروق میں بھی کیا گیا ہے۔ان میں مملکت کو صوبوں میں تقسیم کرنا ، فوجی محکمہ قائم کرنا، محکمہ مال کا قیام، پولیس کے محکمہ کا قیام، عدالتیں، بیت المال، زمین کی پیمائش، مردم شماری، جیلخانہ، فوجی چھاؤنیاں، اماموں اور مئوذنوں کی تنخواہیں، مکتب ، مدارس اور اساتذہ کی تنخواہیں، پرچہ نویس برائے خبر رسانی وغیرہ وغیرہ۔
دیکھئے حضرت عمر کی خصوصیات میں سچا مسلمان ہونے کے علاوہ جوہر شناسی سب سے بڑھ کر تھی۔ آپ خود نہ صرف اعلیٰ منتظم تھے بلکہ عرب کے قابل ترین اشخاص کو اعلیٰ عہدوں پر تعینات کیا تھا، یہ وہ لوگ تھے جن کی تمام عرب عزّت و تکریم کرتے تھے۔ سب سے بڑی چیز جس نے ان کی حکومت کو مقبول عام بنایا وہ ان کا عدل و انصاف تھا، اس میں کبھی کسی کے ساتھ رواداری کی اجازت نہ تھی۔ اعلیٰ عہدیداروں مثلاًعیاض بن غنم، عمروبن العاص، سعدبن ابی وقاص، مغیرہ بن شعبہ، خالد بن ولیدجیسے جیّدصحابہ کو فوراً عہدوں سے معزول کردیا جونہی ان کے بارے میں شکایات موصول ہوئیں۔
قادسیہ کی جنگ کی فتح لانے والے قاصد کے ساتھ آپ نے مجمع سے یہ سنہری اور تاریخی الفاظ کہے تھے: ”مسلمانوں! میں بادشاہ نہیں ہوں کہ تم کو غلام بنانا چاہتا ہوں، میں اللہ کا غلام ہوں البتہ خلافت کا بار میرے سر پر رکھا گیا ہے اگر میں اسی طرح تمھارا کام کروں کہ تم چین و آرام سے گھروں میں سوؤ تو یہ میری سعادت ہے اور اگر میری یہ خواہش ہو کہ تم میرے دروازے پر دستک دو تو یہ میری بدبختی ہے۔ میں تم کو ہدایت و تعلیم دینا چاہتا ہوں، لیکن باتوں سے نہیں، عمل سے“۔
اب کچھ عمر بن عبدالعزیز کے نظامِ حکومت کے بارے میں عرض کروں گا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز ، حضرت عمر  کے بیٹے عاصم کی بیٹی کے بیٹے تھے یعنی ان کے پڑ پوتے تھے۔ اگرچہ فتوحات، ترقی اور عوام کی فلاح و بہبودکے کاموں کے لحاظ سے ولیدکا دور سنہری تھا اور امیر معاویہ، عبدالمالک اور ولید بہت ہی اچھے حکمران تصور کئے جاتے تھے مگر ان کے دور میں مخالفین پر خاصی سختیاں بھی ہوئی تھیں اور یہ حکمراں شہنشاہ کے طور پر حکمرانی کررہے تھے۔ حضرت عمر کے والد عبدالعزیزخلیفہ عبدالملک کے بھائی تھے اور مصر کے نہایت کامیاب اور ہردلعزیز گورنر تھے۔ باپ کی نیک صحبت کا ان کے کردار پر گہرا اثر پڑا تھا۔ خلیفہ بننے سے پہلے آپ بہت مالدار تھے اور امیرانہ زندگی گزار رہے تھے لیکن خلیفہ بنتے ہی آپ حضرت ابوبکر صدیق  اور حضرت عمر کی جیتی جاگتی تصویر بن گئے، تمام مال و دولت غریبوں میں تقسیم کردی۔ ولید کے زمانہ میں آپ مدینہ کے گورنر تھے۔ آپ نے نہایت تردد اور عوام کے اصرار پر خلافت قبول کی تھی اور ان کو بُلا کر یہ تقریر کی : ”خدا نے جو چیز حلال کردی ہے وہ قیامت تک حلال ہے اور جو حرام کردی ہے وہ قیامت تک حرام ہے۔میں اپنی طرف سے کوئی فیصلہ کرنے والا نہیں ہوں بلکہ صرف احکام الٰہی کو نافذ کرنے والا ہوں۔کسی کو حق نہیں کہ خدا کی نافرمانی کرنے والے کی اطاعت کرے۔ میں تم سے برتر یا ممتاز نہیں ہوں بلکہ معمولی فرد ہوں۔ البتہ تمہارے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے زیادہ ذمہ داریاں عائد کردی ہیں“۔ آپ نے شاہی اُمراء سے زمینیں لے کر کسان کے اصل مالکان کو واپس کردیں، جن گرجاؤں پر ناجائز قبضے کرلیے گئی تھے وہ عیسائیوں کو واپس کردیے ۔ آپ کے اس انصاف کی وجہ سے لاتعداد عیسائی مسلمان ہوگئے۔ آپ نے معاشرہ کی اصلاح کی ، شراب، حماموں میں مردوں کا برہنہ نہانا، عورتوں کا جانا ممنوع قرار دیدیا، آپ نے شاہراہوں پر سرائیں بنوائیں، پانی کا بندوبست کیا، ضعیف اور شیر خوار بچوں کے وظائف مقرر کئے بلکہ تمام مسلمانوں کے وظائف مقرر کردیے تھے۔ آپ نے صرف دو سال پانچ ماہ حکمرانی کی اور ان کو شاہی خاندان کے افراد نے صرف 39 سال کی عمر میں زہر دے کر ہلاک کردیا تھا۔ یہ ہمارے مسلمانوں کی روایت رہی ہے جس نے اچھا کام کیا اس کو راستہ سے ہٹا دیا جاتا ہے۔حضرت عمربن عبدلعزیز نے حکومت سنبھالتے ہی عوامی ضروریات کی ذمہ داری بیت المال پر ڈال دی تھی اور ریاست کا کوئی محتاج و مفلس، مستحق فرد ایسا نہ تھا کہ جس کے اخراجات کی کفالت حکومت نے اپنے ذمہ نہ لے لی ہو۔آپ کے دور حکومت میں امن و امان کا یہ حال تھا کہ کہاجاتا تھا کہ ایک ضعیف عورت دمشق سے مدینہ اکیلی چلی جاتی تھی مجال ہے کہ کوئی اس کا سامان یا زیور لوٹ لے۔ وجہ یہی تھی کہ کوئی، مفلس، ضرورت مند، محتاج نہیں تھا۔ آپ کے دور خلافت میں یہ حالت تھی کہ اصحاب استعداد جو بھاری رقوم زکوٰة میں دیتے تھے اور اس کو لینے والے نہیں ملتے تھے۔ آپ نے ایک مرتبہ بہت سی اسی قسم کی رقم افریقی ممالک بھجوادی کہ وہاں ضرورت مندوں میں تقسیم کردی جائے کچھ عرصہ بعد وہ رقم جوں کی توں واپس آگئی کہ وہاں بھی کوئی حاجت مند، ضرورت مند نہیں تھا سب خوشحال و قانع تھے۔ یہ تھا اس وقت کا نظام حکومت اور آجکل کے حکمرانوں اور کارندوں کی کارکردگی آپ کے سامنے ہے۔ لوگ فاقہ کشی پر،خودکشی پر، عصمت فروشی پر، ڈاکہ زنی پر، چوری پر مجبور ہیں۔ غریب کے پاس نہ نوکری ہے اور نہ رزق، حکمراں طبقہ عیاشی میں مصروف ہے۔ایسا نظام حکومت لانا مشکل نہیں ہے بشرطیکہ حکمراں طبقہ ایماندار ہو اور خوف خدا رکھتا ہو۔جس طرح حضرت عمر نے اپنے دور میں تمام مسلمانوں کے وظائف مقرر کردیے تھے اسی طرح حضرت عمر بن عبدالعزیز نے بھی یہ کام کیا تھا۔
دیکھئے ، یہ اعلیٰ نظام مملکت ، حضرت ابوبکرصدیق  ، حضرت عمر اور حضرت عمر بن عبدالعزیزتک ہی محدود نہ تھا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا نظام حکومت بھی حضرت عمر  کی طرح تھا۔ آپ کی زندگی بھی نہایت سادہ اور زاہدانہ تھی۔ تنازعات کے فیصلے کرنے میں وہ ایک اتھارٹی تھے اور حضرت ابوبکر  اور حضرت عمر اور حضرت عثمان  بھی ان سے مشورہ لیتے تھے۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی عقل و فہم کی ایک جھلک آپ کو ان کے خط بنام مالک اَلاَشترسے ملتی ہے جن کو حضرت علی  نے مصر کا گورنر بنا کر بھیجا تھامگر راستہ میں امیر معاویہ  کے ایک کارندے نے ان کو زہر دے کر ہلاک کردیا تھا۔
آپ نے ان کو ہدایت کی تھی کہ :۔ ”تم کو اس کا علم ہونا چاہئے کہ ایک حکمراں صرف اس وقت ہی اپنے عوام کی ہمدردی، محبت، خلوص اور وفاداری حاصل کرسکتا ہے جب کہ وہ ان کے ساتھ رحم و شفقت کا سلوک کرے ، ان کی ضروریات کا خیال رکھے، ان کی تکالیف کا ازالہ کرے، ان پر جبر و ظلم نہ کرے اور ان سے ان کی استعداد سے زیادہ چیزوں کا مطالبہ نہ کرے۔ تم ان ہی اصولوں کو یاد رکھنا اور ان پر عمل کرنا“۔یہ خط اتنا اہم مانا جاتا ہے کہ اس کی کاپیاں راجیو گاندھی نے اپنے وزیروں کو دی تھیں اور سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کوفی عنان نے اقوام متحدہ کی عمارت میں ایک تختی دیوارپر آویزاں کرا دی تھی۔
میری میاں صاحب سے یہ توقع نہیں کہ وہ حضرت عمر ، یا حضرت عمر بن عبدالعزیز بن جائیں، میرا مقصد صرف ان کی توجہ ان فرائض منصبی کی جانب مبذول کرانا ہے جو اُن پر بطور حکمراں عائد ہیں۔اگر وہ اچھے، قابل، دیانت دار رفقائے کار کی تعیناتی کرینگے تو عوام کے لاتعداد مسائل جلد دور ہوجائیں گے اور ملک ترقی و خوشحالی کی جانب چل پڑے گا ورنہ وہ بھی تاریخ کے ورق پارینہ کی طرح عوام کی یادداشت سے غائب ہوجائینگے۔ عدلیہ کو فعال بنانے کے لئے جلد از جلد قوانین میں تبدیلیاں اور ملک کو اچھا نظام حکومت دینے کیلئے سول سروس کی مکمل تبدیلی اور بہتری وقت کی فوری ضرورت ہے۔
تازہ ترین