• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک منحنی اور چھیٹکے سے آدمی نے بیوی بچوں سمیت گھنٹوں کے حساب سے پوری اسلام آباد پولیس کو نتھ ڈالے رکھی۔ بیوی بچے ساتھ ہوں تو اچھا خاصا جی دار آدمی بھی آدھا رہ جاتا ہے لیکن یہ ٹڈا سا آدمی تو جیسے فیملی کے ساتھ پکنک منا رہا تھا۔ گولیوں کے چھٹے دے رہا تھا، انرجی ڈرنک سے لطف اندوز ہو رہا تھا، اپنے پسندیدہ برانڈ کے سگریٹ پی رہا تھا، گھوریاں ڈال رہا تھا اور اپنے سے ڈیڑھ گنا زیادہ قد کے ایس ایس پی کے ساتھ ”مذاکرات“ بھی کر رہا تھا۔ ایک بات طے کہ ”حکومتی رٹ“ کے جسم پر جو ایک آدھ پھٹی پرانی چڈی باقی رہ گئی تھی، اس نے وہ بھی اتار پھینکی ہے۔ ثابت ہو چکا کہ ”حکومتی رٹ“ صرف ان کے لئے ہے جو سر پھینک کر ذلیل ہونے پر راضی ہیں اور ہتھیار اٹھانے پر تیار نہیں۔ اس کی گاڑی کے ٹائر ہی پنکچر کر دیتے، ٹانگوں پر ہی گولیاں مار دیتے، کوئی گیس کا گولہ، کوئی آبی توپ؟ بیہوش کرنے والی کوئی گولی، کوئی جال؟؟؟ معصوم عوام کے لئے عفریت، شیش ناگ، فرعون اور دہشت کا نشان یہ قانون نافذ کرنے والے نام نہاد ادارے بیچتے کیا ہیں؟ کیا ان کی تمام تر طاقت، قوت، وحشت اور بربریت صرف امن پسند، بھوک مرتے، لوڈشیڈنگ زدہ عوام کے لئے ہے؟
معاملہ صرف اسلام آباد تک ہی محدود نہیں، لاہور کا حال اس سے بھی بدتر جس کی انتہا یہ کہ میاں برادران کے جاتی عمرے سے چند منٹ کے فاصلے پر عین ان کی ناک کے نیچے بھی کہرام مچا ہے۔ چوری، چکاری، لوٹ مار، راہزنی کی پے درپے وارداتوں پر بھی کسی کے کان پر جوں نہیں رینگ رہی، چنگ چی، ڈرائیوروں سے بھتے وصول ہو رہے ہیں جن کی تفصیلات پھر سہی کہ فی الوقت واپس اسلام آباد جانا ضروری ہے، جہاں گھنٹوں پر مشتمل یہ ڈرامہ اس وقت تک جاری رہا جب تک پیپلز پارٹی کا زمرد خان جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں نہیں اترا۔ ہلکے پن کی انتہا یہ کہ پورا پاکستان زمرد خان کی جی داری کی تعریف کر رہا ہے اور ن لیگ والے اسے حماقت قرار دے رہے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ جرأت اور حماقت کے درمیان بالکل ویسے ہی ایک بہت باریک لکیر ہوتی ہے، جیسے کسی جینیئس اور پاگل کے درمیان۔ ایک نکتے کا فرق ہی محرم کو مجرم اور مجرم کو محرم بنا دیتا ہے۔ ہو سکتا ہے تکنیکی طور پر زمرد خان کی یہ حرکت غیر مناسب ہو لیکن اس کی نیت اور جرأت سے انکار کم ظرفی ہی کہلائے گی۔ دوسری طرف اپوزیشن بھی جوتوں سمیت چوہدری نثار علی خان کے سر پر چڑھی جا رہی ہے۔ یہ ایک اور قسم کا غیر متوازن رویہ ہے۔ وزیر داخلہ کی اس بات میں اپنی قسم کا وزن ہے کہ جب انہیں بتایا گیا کہ سکندر سے کوئی خطرہ نہیں تو ان کا سارا فوکس اس کے بیوی بچوں کی طرف منتقل ہو گیا۔ نثار کا یہ کہنا کہ وہ باپ کو بچوں کے سامنے تڑپتا دیکھنا نہیں چاہتا تھا، انسانی اور اخلاقی حوالوں سے قابل تعریف سوچ ہے، لیکن ہم عجیب لوگ ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب ایک جتھہ لال مسجد میں مورچہ لگائے ریاستی رٹ کو مسلسل چیلنج کر رہا تھا تو ہر کوئی حکومت کو برا بھلا کہہ رہا تھا، لعن لعن کر رہا تھا۔ پچاس پچپن فون تو میں نے سنے جس میں میرے دوست احباب سے لے کر قارئین تک حکومت کو ہیجڑا، زنخا، کنفیوژڈ قرار دے رہے تھے لیکن جب حکومت نے ایکشن لیا تو یہی لوگ ”ظلم ہو گیا ظلم ہو گیا“ کی دہائی دینے لگے۔
میں اس حالیہ واقعہ کو ایک خاص تناظر میں دیکھنے اور دکھانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ مقصد اپنے ”غیر متوازن رویوں“ کی نشاندہی ہے، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ مدت ہوئی حکومتی رٹ بری طرح ہٹ (Hit) اور Hurt ہو چکی، حکومت صرف مرے ہوؤں کو ہی مار سکتی ہے۔ دہشت گرد تو دور کی بات کرپٹ لوگوں کا یہ کلب المعروف حکومت تو کسی ”چھوٹو گینگ“ کا بال بھی نہیں اکھاڑ سکتی۔ پانی چور، بجلی چور، گیس چور، چینی مافیا، سیمنٹ مافیا، قبضہ گروپ، راشی، ذخیرہ اندوز وغیرہ وغیرہ کے سامنے یہ ”پروٹوکولئے“ پرکاہ جتنی وقعت بھی نہیں رکھتے… سچ یہ ہے کہ حکومت کی رٹ ان آوارہ کتوں پر بھی نہیں جو سو فیصد لاوارث ہیں اور کسی پارٹی کے عہدیدار، ووٹر یا سپورٹر نہیں۔
یہ ووٹ بینکوں کے مارے ہوئے، ملک لوٹ کر بیرون ملک کھربوں ڈالرز اور اثاثوں کے مالک، ضرورت سے کہیں زیادہ سکیورٹی اور چھچھورے پروٹوکول کے دلدادہ جن کے پاس نہ نیت نہ اہلیت… سینکڑوں قسم کے سکینڈلز میں لتھڑے ہوئے، موروثیت کے مریض پروموٹرز، دھن دھونس دھاندلیوں کی پیداوار تو جیلوں کے وہ گھونسلے ہیں جن سے نہ کبھی ماس برآمد ہوا نہ کبھی ہوگا… انہی سب نے مل جل کر تو پاکستان کو اس حال تک پہنچایا کہ اس ملک کا عام آدمی نہ زندوں میں نہ مردوں میں۔
ملکی حالات اور عوام کی ابتری نے مجھ جیسے آدمی کو بھی یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ … طالبان کو ہی کیوں نہ آزما لیا جائے؟ ملک اور معاشرہ جس سوا ستیاناس سٹیج پر پہنچ چکا تو آخری آپشن کے طور پر طالبان کیوں نہیں؟ اگر وہ آئین کو نہیں جانتے تو یہ آئین کے کون سے عاشق ہیں؟
جنگل کاقانون ہی سہی… قانون تو ہو گا؟
کہیں لا اینڈ آرڈر تو دکھائی دے گا۔
صحیح غلط پر لعنت بھیجو… فوری انصاف تو ہو گا
کھربوں کی لوٹ مار تو رکے گی
ان ناپاک پروٹوکولز سے تو جان چھٹے گی
لوٹی ہوئی بے تحاشہ دولت کی واپسی کی ہی شاید کوئی صورت نکل آئے؟
نہ سہی یہ ”سوٹوں اور پچاس پچاس کروڑ کی گھڑیوں والے، سرے محلوں اور پارک بستیوں والے، یہ صنعتوں اور جاگیروں والے… ہم پھٹی پرانی شلواروں قمیضوں میں ملبوس ننگے فرش پر سونے والوں کے ساتھ گزر بسر کر لیں گے… کم از کم کوئی سر،پیر اور سمت تو ہو گی۔
پاکستان… طوفان در طوفان در طوفان تو طالبان ہی سہی، سو جھوٹ در جھوٹ اور لوٹ در لوٹ میں لپٹے حکمران طبقات سوچ لیں کہ اگر میں ایسا سوچ رہا ہوں تو عام پاکستانی اور کتنی دیر ان کے ڈرامے برداشت کرے گا؟ کب تک ان کے ”جمہوری ظلم“ سہے گا جو پورا پورا خاندان لے کر اہل پاکستان کے چٹختے ہوئے کندھوں پر سوار مسلسل ان کا خون پی رہے ہیں اور چہروں پر عوام دوستی کے نقاب چڑھا رکھے ہیں۔
نوٹ: یہ کالم ایک دن لیٹ ہے کہ بجلی کا بارہ گھنٹہ بریک ڈاؤن جبکہ گھر کا جنریٹر خراب تھا سو فیکس نہ کیا جا سکا۔
تازہ ترین