• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی آئینی تاریخ میںآ ئینی اختیارات اور تنازعات کی تشریح کے بارے میں ہمیشہ ابہام رہا ہے ۔ آزاد میڈیا کے عروج نے اس ابہام پر ہو نیوالے مباحثوں کو بام ِعروج سے بھی اوپر پہنچا دیا ہے ۔ لیکن جس معاملے پر ابہام نہیں ہے وہ یہ ہے کہ آئین کو ویسا ہی پڑھا جائے جیسا اسے لکھا گیا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ آئین کے ایک ایک لفظ پر عملدرآمد کرنا آئین کا بنیادی تقاضہ ہے ۔
آئین میں اٹھارویں اور انیسویں ترمیم کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے قیام کے علاوہ مجھے بطور وفاقی وزیر ِقانون دو بڑے اہم اداروں کی تشکیل کا موقع ملا۔ ان میں سے پہلا ادارہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ہے ۔جس کی نئے سرے سے تشکیل اور تنظیم کی گئی۔ جبکہ دوسرا ادارہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان ہے جو دنیا کی آئینی تاریخ میں ایک نئی تخلیق کے طور پر سامنے آیا ۔ اسی لئے آئین کے آرٹیکل -175(اے) کے تحت جوڈیشل کمیشن آف پاکستان اور آرٹیکل 213تا 221میں ترامیم اور تنسیخ کے عمل کے ذریعے بننے والا الیکشن کمیشن اٹھارویں آئینی ترمیم کے بل ،ایکٹ نمبردس مجریہ 2010کے پاس ہو نے کے دن یعنی 20اپریل 2010ءء سے ہی آج تک زیر بحث ہے۔ اگرچہ یکم نومبر 2011ءء کے روز آئین میں انیسویں ترمیم بذریعہ ایکٹ نمبر ایک مجریہ 2011ءء کے ذریعے کچھ حل نہ ہو نے والے مسائل کو بھی حل کیا گیا ۔ لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان اور جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے متعلق مسلسل اورحال ہی میں اٹھنے والے سوالات کا جواب سامنے نہیں آ سکا۔ اس لئے ضروری ہے کہ مقدر کے سکندر کے قبضے میں رہنے والی شاہراہ جناح ایونیو کی پڑ وسن شاہراہ دستور پر پیدا ہو نے والے اس ابہام کو عوام کے کٹہرے میں بھی لایا جائے۔ آئین کے آرٹیکل 217میں قائم مقام کمشنر کی آسامی مو جود ہے ۔ جس پرسپریم کورٹ کے سینئر موسٹ جج جسٹس تصدق حسین جیلانی کی تعیناتی چیف جسٹس آف پاکستان نے آرٹیکل-217(بی)کے تحت درست طور پر کی ہے ۔ لیکن اس تقرری سے 22اگست کو بروز جمعرات منعقد ہونے والے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات یا عدالت عظمیٰ کے حکم کے تحت لوکل باڈیز الیکشن آئینی نہیں ہوں گے۔ان انتخابات کے انعقاد کے ساتھ ہی انتخابی تنازعات کا انگریزی میں” پنڈورا باکس” یا پنجابی میں“ کھاتہ“کھل جائیگا۔ اس کا سیدھا سبب ہمارے آئین کی وہ اسکیم ہے جسکے آرٹیکل 217میں اگر چہ قائم مقام الیکشن کمشنر کی گنجائش مو جود ہے۔ لیکن سینیٹ اورقومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ چاروں صوبوں کی اسمبلیوں اور دیگر عوامی عہدوں کے انتخابات کی بابت یہ آرٹیکل واضح اور حتمی طور پر مستقل الیکشن کمیشن کی تشکیل و تعیناتی کا تقاضا کرتا ہے۔
آئین کا آرٹیکل 218ریفرنس کی سہولت کیلئے یہاں درج کر رہا ہوں:
1۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں(سینیٹ اور قومی اسمبلی) صوبائی اسمبلیوں اور دوسرے عوامی عہدوں۔ جن کا تعین قانون کرتا ہے کے انتخابات منعقد کرانے کیلئے ایک مستقل الیکشن کمیشن کا قیام لازمی ہے۔
2۔الیکشن کمیشن ان ارکان پر مشتمل ہوگا:(الف)چیف الیکشن کمشنر جو کمیشن کا چیئرمین ہوگااور(ب)چار ارکان جن میں سے ہر ایک کسی عدالت عالیہ کا سابق جج ہو گا جسے صدر اس طریقہ کار سے مقرر کرے گا جو کمشنر کی تقرری کیلئے ذیلی آرٹیکل(2۔اے) آرٹیکل 213میں مہیا کیا گیا ہے۔
3۔ الیکشن کمیشن کا یہ فرض ہوگا کہ وہ انتخابات کا انتظا م کرے اور انہیں منعقد کرائے ۔ ایسے انتظامات کرے جو اس امر کے اطمینان کیلئے ضروری ہو ں کہ انتخابات ایمانداری، حق اور انصاف کے ساتھ اور قانون کے مطابق منعقد ہو ں اور یہ کہ بد عنوانیوں کا سد باب ہو سکے۔
اس غیر مبہم آئینی پوزیشن کی موجودگی میں بیالیس ایسے حلقے جہاں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن منعقد ہوں گے وہ آئینی طور پر مشکوک، متنازعہ اور ناقابلِ قبول ہوں گے ۔ موجودہ صدارتی انتخاب کی طرح۔ کوئی بھی آئینی عدالت ان انتخابات کے حوالے سے از خود نوٹس لے سکتی ہے یا کوئی متاثرہ فریق یہ معاملہ آئینی پٹیشن میں اُٹھا سکتا ہے۔ اس لئے الیکشن کمیشن اور حکومت دونوں کو اس آئینی ابہام کو دور کرنے کیلئے اپنی ذمہ داری یاد رکھنی چاہئے تھی۔
دوسری جانب جوڈیشل کمیشن آف پاکستان جس میں عدلیہ، انتظامیہ اور وکلاء کی بار کونسلوں کو اگرچہ نمائندگی دی گئی ہے۔ لیکن اس کے ذریعے حال ہی میں کی گئی تعیناتیوں اور بعض تقرریوں کی سفارشات مسترد کرنے کیخلاف پاکستان بار کونسل، بلوچستان بار کونسل، بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور سندھ کے ممتاز وکلاء اور بلوچستان بار ایسوسی ایشن نے سنجیدہ تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ بلوچستان کے طول و عرض میں وکلاء نے زور دار ہڑتال کے ذریعے وکیلوں کے اجتماعی شعور پر مبنی پیغام بھی دیا۔ ان وکلاء کا موقف آئینی طور پر سو فیصد درست ہے۔ اُس کی تفصیل میں جائے بغیر صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ آئین کے آرٹیکل 175اے کی شق نمبر دو کے ضمن نمبر چار میں فیڈرل منسٹر فار لا اینڈ جسٹس کی موجودگی کے بغیر جوڈیشل کمیشن آف پاکستان مکمل ہی نہیں ہوتا۔ کون نہیں جانتا ؟ آج کل وزیرِ اعظم نواز شریف وزیرِ خارجہ ، وزیرِ دفاع اور وفاقی وزیر ِ قانون بھی ہیں۔ اسی آرٹیکل کے ضمن چار میں صراحت سے لکھا ہے کہ جوڈیشل کمیشن اپنی کارروائی چلانے کیلئے رولز بنائے گا۔ کمیشن کو کسی رکن کی رکنیت فارغ کرنے یا اُسے باہر رکھ کر کمیشن میں تعیناتیاں کرنے کا کوئی اختیار آئین ِ پاکستان نہیں دیتا۔ آئین کے تقدس، انتخابات کی حرمت اور بار ایسوسی ایشنز کے اجتماعی شعور کی آزادی کا تقاضہ ہے کہ چاہے آسمان گر جائے آئین کے ایک ایک لفظ کو بالا دستی ملنی چاہئے۔ خاص طور پر بلوچستان میں ایسی آوازیں موجود ہیں جو آئین کو تسلیم نہیں کرتیں۔ جنیفر موسیٰ اور ڈاکٹر حئی بلوچ نے 1973کی آئین سازاسمبلی میں کیا کہا تھا…؟ سوال یہ ہے ہم اُن وکیلوں کی آواز کیوں نہیں سُن سکتے جو بلوچستان کے طول و عرض میں کہہ رہے ہیں ” ہمیں آئین کی بالا دستی چاہئے“ 14اگست کے دن بلوچستان کے ایک وکیل نمائندے نے یومِ آزادی کے حوالے سے حبیب جالب کے اشعار مجھے بھیجے آپ بھی پڑھئے:۔
کہاں ٹوٹی ہیں زنجیریں ہماری
کہاں بدلی ہیں تقدیریں ہماری
وطن تھا ذہن میں زنداں نہیں تھا
چمن خوابوں کا یوں ویراں نہیں تھا
یہ سوچا تھا ہمارا راج ہو گا
سرِ محنت کشاں پر تاج ہو گا
مسلط ہے سروں پر رات اب تک
وہی ہے صورتِ حالات اب تک
تازہ ترین