• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملکی اقتصادی ترقی میں ایکسپورٹ کا اہم کردار ہے۔ آج دنیا کے تمام ممالک اپنی برآمدات کے فروغ میں کوشاں ہیں لیکن ہماری برآمدات خطے میں دوسرے ممالک کی رفتار سے نہ بڑھ سکی۔ ہمارے مقابلے میں خطے میں بنگلہ دیش اور بھارت کی برآمدات میں سال بہ سال اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر ہم دنیا کی ٹریڈ میں اضافہ کا تجزیہ کریں تو باہمی تجارت سب سے کامیاب ماڈل نظر آتا ہے۔ نارتھ امریکن (NAFTA)، یورپی یونین(EU)، آسیان (ASEAN) وغیرہ وہ بلاکس ہیں جن کی 50% سے زیادہ تجارت اپنے ممبر ممالک کے مابین ہے لیکن ہماری یہ بدقسمتی ہے کہ سارک ممالک کے مابین تجارت صرف 6%سے 7% ہے تاہم اس میں اضافے کا بے انتہا پوٹینشل پایا جاتا ہے۔ ہمارے خطے کے ممالک کی مارکیٹس ابھرتی ہوئی منڈیاں کہلاتی ہیں جن کی جی ڈی پی گروتھ بھی متاثر کن ہے۔ ہمیں خطے کے ممالک کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری بڑھانے کیلئے بینکنگ نیٹ ورک، ویزوں کے اجراء میں نرمی، ترجیحی تجارتی معاہدے اور زمینی راستے سے تجارت کو فروغ دینا ہوگا کیونکہ آنے والی صدی میں تجارت کا مرکز ایشیاء ہے۔ گزشتہ 10 سالوں میں ٹیکسٹائل کی پیداوار مغرب کے ترقی یافتہ ممالک سے ایشیاء کے ترقی پذیر ممالک میں منتقل ہوئی ہے جس میں چائنا، انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش اور ترکی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ٹیکسٹائل ایپرل کی 2011ء میں مجموعی ٹریڈ 650 بلین ڈالر تھی جس میں سب سے زیادہ گروتھ بنگلہ دیش19%ویت نام16%، چائنا اور ہانگ کانگ10%، انڈیا10%، ترکی 3% اور پاکستان 3% قابل ذکر ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے خطے ایشیاء جس کی آبادی تقریباً 4.1 بلین ہے میں ٹیکسٹائل کی فی کس کھپت عالمی کھپت سے نہایت کم ہے۔ امریکہ میں ٹیکسٹائل مصنوعات کی فی کس کھپت 21 کلو گرام اور یورپ میں 17.7 کلوگرام ہے، اس کے مقابلے میں ایشیائی ممالک جاپان میں فی کس کھپت 8.5 کلوگرام، چائنا میں 5.5 کلوگرام، پاکستان میں 4 کلوگرام اور انڈیا میں 2.8 کلوگرام ہے جبکہ دنیا میں ٹیکسٹائل مصنوعات کی فی کس کھپت اوسطاً 6.8 کلوگرام ہے۔
ٹیکسٹائل انڈسٹری ایشین ممالک کی معیشت کا ایک اہم سیکٹر ہے کیونکہ یہ سیکٹر ان ممالک میں سب سے زیادہ ملازمتیں اورزرمبادلہ کمانے کا ذریعہ ہے۔ بنگلہ دیش میں ان کی ٹیکسٹائل کا جی ڈی پی میں حصہ 12%، پاکستان کا 8.5%، ترکی کا 10%، چائنا کا 7.11% اور انڈیا کا 4% ہے جبکہ مینوفیکچرنگ سیکٹر میں ٹیکسٹائل کا بنگلہ دیش میں حصہ 40% اور پاکستان میں 46% ہے۔ اسی طرح بنگلہ دیش کی ایکسپورٹ میں ٹیکسٹائل کا حصہ 88.10% اور پاکستان میں 53.79% ہے۔ چائنا کی مجموعی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ 248 بلین ڈالر، انڈیا 29.16 بلین ڈالر، ترکی 24.6 بلین ڈالر، بنگلہ دیش 21.5 بلین ڈالر، ویت نام 16.8 بلین ڈالر اور پاکستان 13.8 بلین ڈالر ہے۔ اس لحاظ سے ایشیاء عالمی ٹیکسٹائل اور ایپرل ٹریڈ میں 38% شیئر کے ساتھ ایک نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ گلوبل ٹیکسٹائل اینڈ ایپرل انڈسٹری ویژن 2015ء کے مطابق دنیا کی ٹیکسٹائل اور ایپرل کی موجودہ ٹریڈ 650 بلین ڈالر سے بڑھ کر 2015ء تک 805 بلین ڈالر تک ہوجائے گی۔ انڈیا نے ٹیکسٹائل کی مصنوعات میں تنوع کرکے اپنی ایکسپورٹ میں اضافہ کیا ہے، ٹیکنیکل، جیو ٹیکسٹائل جیسی نئی مصنوعات میں انڈیا دیگر ایشین ممالک کے مقابلے میں آگے ہے۔ انڈونیشیا نے اپنی بڑی مقامی مارکیٹ سے استفادہ کیا ہے، پاکستان نے کورس کاؤنٹ یارن اور اس سے تیارکردہ مصنوعات مثلاً ڈینم فیبرک، بیڈلینن وغیرہ میں ترقی کی ہے لیکن ان ممالک میں مزدوروں کی اجرت ، بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے سے ان کی پیداواری لاگت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جس سے چائنا سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ ”واشنگٹن پوسٹ“ کے ہاورڈ شنیڈر کے آرٹیکل ”ٹیکسٹائل انڈسٹری کی کم اجرتوں والے ممالک میں منتقلی“اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ ایپریل انڈسٹری میں پیداواری لاگت بالخصوص اجرتوں کے بڑھنے سے ان ممالک کی امریکہ کو ایکسپورٹ متاثر ہوئی ہے۔ بنگلہ دیش میں 2010-11ء میں اجرتوں میں 2% کمی ہوئی ہے جبکہ میکسیکو میں ان میں 30%اور کمبوڈیا میں 22% کمی ہوئی ہے۔ پاکستان میں OBI میں 20 پوائنٹس کا اضافہ ہوا ہے لیکن چائنا میں اجرتوں میں سب سے زیادہ 125%اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ کو گارمنٹس ایکسپورٹ کرنے والے سرفہرست 21 ممالک میں سے 15 ممالک کی اجرتوں کے موازنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ میکسیکو میں گارمنٹس انڈسٹری کی اجرتیں 2001ء میں 755.14 ڈالر سے 30% کم ہوکر 2011ء میں 536.57 ڈالر ہوگئی ہیں، کمبوڈیا میں اسی عرصے کے دوران اجرتیں161.89ڈالر سے 22% کم ہوکر 126.26% ڈالر ہوگئی ہیں جبکہ چائنا میں یہ 144.86 ڈالر سے بڑھ کر 324.90 ڈالر ہوگئی ہیں جس کی وجہ سے گارمنٹس انڈسٹریاں کم اجرتوں والے ممالک مثلاً بنگلہ دیش، کمبوڈیا اور میکسیکو منتقل ہورہی ہیں لیکن حال ہی میں بنگلہ دیش میں گارمنٹس فیکٹریوں میں ہولناک آتشزدگی کے واقعات میں سینکڑوں افراد کی ہلاکت کے بعد امریکہ اور یورپ کے بڑے خریداروں نے بنگلہ دیش کی ان فیکٹریوں میں مستقبل میں اس طرح کے حادثات کو روکنے کیلئے سخت حفاظتی اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔
پاکستان میں ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹس میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوسکا ہے جس کی وجہ ملک میں بجلی، گیس کی لوڈ شیڈنگ اور امن و امان کی ناقص صورتحال ہے جس کے باعث غیر ملکی خریدار پاکستان آنے سے گریز کررہے ہیں۔ پاکستان کی امریکہ اور یورپ کی بڑی منڈیوں میں مالی بحران، مندی اور طلب میں کمی کی وجہ سے امریکہ اور یورپ سے ہمارے ایکسپورٹ آرڈرز میں کمی آئی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کو یورپی ٹیکسٹائل اپیرل مارکیٹ میں چین، بنگلہ دیش، تائیوان اور ترکی سے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ ہمارے علاقائی تجارتی حریفوں انڈیا اور بنگلہ دیش نے اپنی ٹیکسٹائل کی صنعتوں کو مراعات دی ہوئی ہیں جبکہ پاکستان میں قومی ٹیکسٹائل پالیسی 2009-14ء اور تجارتی پالیسیوں میں وزارت خزانہ سے فنڈز فراہم نہ کرنے کی وجہ سے ٹیکسٹائل صنعت کو دیئے جانے والی مالی مراعات پہلے 2 سالوں کے بعد روک دی گئیں جس کے باعث ہم ان پالیسیوں سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرسکے۔ دنیا کی ٹیکسٹائل میں چائنا کا حصہ سب سے زیادہ 24%، ہانگ کانگ کا 9%، اٹلی 7%، جرمنی 6%، ترکی 4%، انڈیا 3%، پاکستان 2% ہے۔ امریکہ، چائنا اور انڈیا کے بعد پاکستان چوتھا بڑا کاٹن پیدا کرنے والا اور تیسرا بڑا کاٹن کی کھپت والا ملک ہے۔ پاکستان کاٹن یارن ایکسپورٹ کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جبکہ یارن کی ایکسپورٹ میں دنیا میں ہمارا حصہ 26% ہے لیکن پاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے اور گیس کی قیمتوں میں متوقع اضافے کے باعث ہماری مقابلاتی سکت آہستہ آہستہ کم ہورہی ہے۔ یاد رہے کہ چند دہائیوں قبل جاپان اور کوریا ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹس میں نمایاں مقام رکھتے تھے لیکن پیداواری لاگت اور اجرتوں میں اضافے کے باعث ان ممالک نے ہائی ٹیک ٹیکنالوجی، الیکٹرونکس اور آٹو موبائلز سیکٹرز کو ترقی دے کر اپنی ٹیکسٹائل ایکسپورٹس کو ہائی ٹیک سیکٹرز کی ایکسپورٹس پر منتقل کردیا جو اب ان ممالک کی اہم ایکسپورٹس ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ جب تک ٹیکسٹائل سیکٹر کے مقابلے میں دیگر سیکٹرز کی ایکسپورٹس میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوجاتا وہ ملکی مجموعی ایکسپورٹس میں 55% حصہ رکھنے اور مینوفیکچرنگ سیکٹر میں تقریباً 40% ملازمتیں فراہم کرنے والے ٹیکسٹائل سیکٹر کو بین الاقوامی منڈیوں میں مقابلاتی رکھے۔
تازہ ترین