• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زمرد خان بلا شرکت غیرے ” قومی ہیرو“ ہے۔ پوری قوم نے زمرد خان کی بہادری کو سراہا۔ وہ ستائش کے مستحق تھے۔ خواتین و حضرات! میری زمرد خان سے دوستی ہے۔ اس دیرینہ تعلق میں خوشی غمی کا ساتھ ہے۔ زمرد خان بنیادی طور پر زمیندار گھرانے کا فرزند ہے۔ اس نے 2002ء میں راجہ ظفر الحق کو شکست دے کر قومی اسمبلی کی رکنیت حاصل کی تھی مگر زمرد خان کا نمایاں کردار عدلیہ تحریک میں اس وقت سامنے آیا جب مارکٹائی کا مرحلہ درپیش تھا۔ زمرد خان چونکہ پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں، لہٰذا وہ بہت سے وکیلوں کو راولپنڈی سے اسلام آباد لے کر آتے تھے۔ عدلیہ بحالی تحریک میں ایک دن وہ بھی آیا جب ”سکندر“ نامی شخص سے ہارنے والی پولیس نے وکلا اور صحافیوں پر خوب ڈنڈے برسائے۔ زمرد خان نے چوہدری اعتزاز احسن کے گرد اپنے بازوؤں کا حصار بنایا ہوا تھا۔
زمرد خان کے بازوؤں پر اتنے ڈنڈے برسے کہ ان کا ایک بازو ہی ٹوٹ گیا۔ ان کی اس بہادری نے اعتزاز احسن کو زخم نہ آنے دیئے۔ شاہرائہ دستور پر صحافیوں پر بھی ڈنڈوں کی بارش ہوئی۔ حامد میر کو بچانے کے چکر میں مجھ پر بھی لٹھ برداروں نے ہلہ بول دیا، سر پر چوٹیں آئیں، ایک ڈنڈا میرے چہرے پر آ لگا۔ اس ڈنڈے کی کرامت کے طفیل میرا ”چہرہ“ اور لباس خون آلود ہو گیا۔ ایاز امیر نے اسی خون آلود شرٹ کے ساتھ مجھے پروگرام میں بٹھایا۔ شاہرائہ دستور پر ہونے والے جبر کے نتیجے میں زمرد خان اور میں پولی کلینک اسپتال پہنچ گئے۔ ایمرجنسی سے ہمیں آفیسرز وارڈ میں شفٹ کر دیا گیا جہاں میں اور زمرد خان کئی روز تک زیر علاج رہے۔ ہمارے کمرے ساتھ ساتھ تھے۔ اے آر ڈی میں شامل جماعتوں کے علاوہ بھی ملک کی دیگر جماعتوں کے لوگ ہماری عیادت کو آتے رہے۔ سول سوسائٹی اور صحافتی تنظیموں نے بھی ہمارے لئے آواز بلند کی۔ زخمی ہونے کے باوجود ہم ہر روز کوئی نہ کوئی ”پنگا“ ضرور کرتے تھے۔ مشرف حکومت ہم سے بہت تنگ تھی بلکہ حکمرانوں کا اسپتال انتظامیہ پر بڑا پریشر تھا کہ ان دونوں کو اسپتال سے نکال دو مگر میں اور زمرد خان ہر رات اگلے دن کی حکمت عملی ترتیب دیتے تھے۔ اس دور کی حکومت میں شامل صرف دو وزیر میرے پاس آئے۔ چوہدری شہباز حسین اور ظفر اقبال وڑائچ۔ دونوں جاٹ مراسم کے ہاتھوں مجبور ہو کر آئے، ورنہ کسی بھی حکومتی فرد کا اسپتال میں آنا جرم تھا۔ میں دو عورتوں کو بڑا بہادر سمجھتا ہوں۔ یہ دونوں عورتیں اس اسپتال میں کام کرتی تھیں۔ میری دوست ڈاکٹر انیس کوثر اور ڈاکٹر آمنہ مجھے روزانہ پھول پیش کرتی تھیں۔
میں نے ایک دن ڈاکٹر کوثر سے کہا کہ ٹھیک ہے تم میری دوست ہو مگر یہ خیال کیا کرو کہ خفیہ اداروں کی ہم پر بہت نظریں ہیں۔ میری باتیں سننے کے بعد ڈاکٹر کوثر مسکرائیں اور یہ کہہ کر چلی گئیں۔ ”مجھے تمہارے پاس بغیر پھولوں کے آنا اچھا نہیں لگتا“۔ پولی کلینک میں ہمارے پاس موجودہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان بھی آئے تھے۔ چوہدری صاحب کے ساتھ زمرد خان کے بہنوئی بھی تھے۔
اس دن مجھے پتہ چلا کہ چوہدری نثار علی خان کی زمرد خان کے بہنوئی سے بڑی دوستی ہے۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ چوہدری نثار علی خان کے بھائی جنرل افتخار علی خان کی بھی زمرد خان سے دوستی ہے۔آپ اس لمبی چوڑی داستان سے بور ہو گئے ہوں گے مگر اس کے سنانے کا مقصد صرف یہ تھا کہ زمرد خان نے کوئی پہلی مرتبہ بہادری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ وہ طبعاً اور عادتاً بہادر آدمی ہے۔ وہ بیت المال کا چیئرمین بنا تو اس نے بیت المال کو زندہ کر دیا۔ اس نے انسانیت کی خدمت کی بلکہ میرے دوست عصمت ہاشوانی کے بقول جو ضرورت مند زمرد خان تک پہنچ گیا اس کی ضرورت پوری ہو گئی۔ ملک بھر کے یتیم بچوں کیلئے ”سویٹ ہوم“ چلانے والے زمرد خان کی شخصیت ہی کچھ کمال کی ہے۔ اس نے کرپشن کو بیت المال کے قریب نہیں آنے دیا۔ سچا آدمی ہی بہادر ہوتا ہے۔تازہ ترین واقعے میں زمرد خان نے اس وقت بہادری دکھائی جب ایک شخص نے پورے وفاقی دارالحکومت کو یرغمال بنا رکھا تھا۔ پاکستانی قوم پانچ گھنٹے سے دنیا کے سامنے تماشا بنی ہوئی تھی۔ ہمارے سیکورٹی ادارے ناکامی کا منہ دیکھ رہے تھے۔ حکومت نام کی چیز نظر نہیں آ رہی تھی۔ وزیر داخلہ اور دوسرے حکومتی وزراء پتہ نہیں کہاں چھپے ہوئے تھے۔ یہ سارا منظر دیکھ کر زمرد خان کی غیرت نے للکارا۔ قومی غیرت کے تقاضے کے تحت زمرد خان آگ میں کود گیا جس کے باعث ڈراپ سین ہوا۔ اب حکومتی چیلے خفت مٹانے کیلئے زمرد خان پر تنقید کر رہے ہیں بلکہ سوشل میڈیا پر سکندر کا سرکسی اور کے دھڑ سے جوڑ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش ہو رہی ہے کہ سکندر، زرداری صاحب کا قریبی آدمی ہے۔ ایسی کوششوں سے کسی کی جیت کو ہار میں نہیں بدلنا چاہئے۔ حکومت کو مان جانا چاہئے کہ وہ امن و امان فراہم کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔میڈیا پر بھی تنقید ہورہی ہے ۔ میڈیا کالا کوے کو سفید کیسے پیش کرے۔
اگرچہ زمرد خان کی بہادرانہ کاوش کو احمقانہ بھی کہا جا رہا ہے، مگر زمرد خان نے یہ سب کچھ قومی غیرت کے طور پر کیا ہے۔ اس نے کرسچین کے کسی اقلیتی عبادت گاہ پر قبضہ کر کے پلازہ تعمیر نہیں کیا بلکہ اس نے تو جذبہٴ حب الوطنی کے تحت خود کو موت کے سامنے پیش کیا ہے۔ ہمیں زمرد خان جیسے جذبات کو سراہنا چاہئے۔ وہاں ایم کیو ایم کے نبیل گبول اور مسلم لیگ (ن) کی رکن قومی اسمبلی عارفہ خالد پرویز بھی گئی تھیں۔ عارفہ خالد نے ”سکندر“ کی بیوی سے مذاکرات بھی کئے۔ ہمیں عارفہ خالد کی کاوش کو بھی سراہنا چاہئے مگر کسی کی بہادری کو احمقانہ حرکت سے تعبیر نہیں کرنا چاہئے۔ حکومتی وزراء کو بھی ”بہادر“ بن کر ایوان سے غائب نہیں ہونا چاہئے۔ باقی جہاں تک امن و امان فراہم کرنے والوں کا تعلق ہے تو ان کیلئے مصطفیٰ زیدی کے یہ اشعار کافی ہیں کہ
ذہن میں خوف کی بنیاد اٹھانے والو
تمغہٴ مکر کو سینے پہ سجانے والو
کشتیاں دیکھ کے طوفان اٹھانے والو
برچھیوں والو، کماں والو، نشانے والو
دل کی درگاہ میں پندار مٹا کر آؤ
اپنی آواز کی پلکوں کو جھکا کر آؤ
تازہ ترین