• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ضروری نہیں کہ ایک سچا اور کھرا شخص زندگی بھر سچ بولتا رہے، کبھی منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے اور کبھی حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر ہر سچا اور کھرا شخص کبھی کبھار بڑی ڈھٹائی سے جھوٹ بولتا ہے۔ اسی طرح میرے جیسا چھٹا ہوا جھوٹا بھی کبھی کبھار سچ بولتا ہے۔ آج کے قصے میں آپ سچ پڑھیں گے، سچ کے سوا کچھ نہیں پڑھیں گے۔ عید کی گہما گہمی میں اچانک میرا آمنا سامنا چیچی چمڑے سے ہوا تقسیم ہند کے بعد اب تک زندہ رہ جانے والے باقی ماندہ کراچی کے پرانے باسی چمگادڑ کو چیچی چمڑا کہتے ہیں۔ چیچی چمڑے کا اصلی نام بابل ہے۔ دبلا پتلا، رنگ کا کالا ہے اس کے کھلے ہوئے منہ سے چھ نوکدار دانت دکھائی دیتے ہیں۔ اس لئے یاروں نے بابل کا نام چیچی چمڑا رکھ دیا ہے چیچی چمڑا وہ شخص ہے جس نے مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد کہا تھا ”چلو، اچھا ہی ہوا، بنگالیوں سے جان چھوٹی“۔
عید کی گہما گہمی میں چیچی چمڑے سے ملاقات ہوئی وہ بھی برسوں بعد۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد اس کا کہا ہوا جملہ میرے ذہن میں گونجتا رہا ہے ”اچھا ہی ہوا، بنگالیوں سے جان چھوٹی“۔ میں نے چیچی چمڑے سے کہا ”تیری کہی ہوئی بات کی بازگشت میں آج تک سنتا رہا ہوں“۔
چیچی چمڑے نے کہا ”میں نے اپنے جملے میں ترمیم کردی ہے اب میں یہ نہیں کہتا کہ ”اچھا ہی ہوا، بنگالیوں سے جان چھوٹی“ اب میں کہتا ہوں ”اچھا ہی ہوا، بنگالیوں کی ہم سے جان چھوٹی“۔
میں نے چونک کر چیچی چمڑے کی طرف دیکھا اور کہا ”یہ کیا بات ہوئی“۔
چیچی چمڑے نے کہا ”بنگلہ دیشی اس طرح ایک دوسرے کو کاٹتے اور قتل نہیں کرتے جس طرح مغربی پاکستان والے ایک دوسرے کو کاٹتے اور قتل کرتے ہیں۔
میں نے اسے روکا، ٹوکا اور کہا ”یہ مغربی پاکستان کہاں سے بیچ میں آ گیا“۔
”یہ مغربی پاکستان ہی تو ہے جس کو اب ہم پاکستان کہتے ہیں“ چیچی چمڑے نے کہا۔ ”1947ء والا پاکستان تو 1971ء میں ٹوٹ گیا تھا“۔
سویوں سے بھرا چمچہ منہ تک لاتے لاتے میں نے روک دیا میں نے غور سے چیچی چمڑے کی طرف دیکھا چیچی چمڑے نے کہا ”تم جس پاکستان کی 66ویں یوم آزادی کا دن منا رہے ہو وہ پاکستان تو چوبیسویں برس1971ء میں ٹوٹ گیا تھا۔ جو ملک وجود میں نہیں رہا اس ملک کا یوم آزادی تم کیسے منا سکتے ہو! یہ مغربی پاکستان کے پاکستان بننے کی بیالیسویں سالگرہ ہے“۔
میں نے لمحہ بھر کے لئے سوچا کہ چوہے مارنے والا زہر لے آؤں اور چیچی چمڑے کی سویوں میں ملا دوں، میں اسے زندہ نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ مجھے نادانستہ جلا رہا تھا، مجھے کباب کر رہا تھا۔ ”جانتے ہو بالم!“ چیچی چمڑے نے مجھے چونکاتے ہوئے کہا ”سابقہ مشرقی پاکستان سابقہ مغربی پاکستان سے تعلیم، تربیت، صحت عامہ، اقتصادیات ، پیداوار اور نظام حکومت میں کتنا آگے بڑھ گیا ہے؟ اور سب سے بڑی بات یہ کہ اقوام متحدہ میں بنگلہ دیش کی عزت ہے“۔
چیچی چمڑے جیسے لوگوں سے آپ کی بھی کبھی کبھار ملاقات ہو جاتی ہو گی وہ کھاتے کسی کا ہیں اور گن گاتے کسی اور کے ہیں! میں نے اللہ سے دعا کی کہ کراچی سٹی اسٹیٹ بننے سے پہلے میری ملاقات پھر کبھی چیچی چمڑے سے نہ ہو۔ عین ممکن ہے کہ میں اسے چائے کے کپ میں چوہے مارنے والی گولیاں گھول کر پلا دوں، پلا کہیں کا!
اب دوسری حلفیہ سچی بات سن لیجئے۔ آپ جتنی بھی پیٹ کی بیماریوں کے بارے میں جانتے ہیں وہ تمام بیماریاں مجھے لاحق ہیں۔ آج کل میں باتھ روم کے آس پاس نظر آتا ہوں، نہ جانے کب پیٹ میں مروڑ اٹھے اور مجھے باتھ روم جانا پڑے۔ متلی ہو جائے، قے آجائے۔ ایسے میں میرے لئے لازمی ہو گیا ہے کہ میں باتھ روم سے قریب قریب رہوں۔ جس طرح بڑھ چڑھ کر میں نے رمضان کے دوران نفس کی خدمت کی تھی، اس کے نتیجے میں یہ تو ہونا ہی تھا۔ سحری اور افطار میں ہر وہ طعام میں نے تناول کیا جس کی خواہش میرے نفس نے کی۔ نفس کو میں نے طرح طرح کے مشروبات پلائے۔ آئس کریم اور فالودہ کھلائے۔ روسٹ فش، روسٹ چکن، تکے، کباب ہر طرح کے شامی کباب، لبنانی کباب، افغانی کباب، مصری کباب، ٹرکش کباب، عراقی کباب، دمشقی کباب وغیرہ۔ نمونے نمونے کی بریانیاں نفس کو کھلائیں جیسا کہ سندھی بریانی، پنجابی بریانی، بلوچی بریانی، پشتو بریانی اور اردو بریانی۔ اردو بریانی کواب نیا نام دیا گیا ہے، اردو بریانی کو اب کراچی بریانی کہتے ہیں۔ میرے نفس نے جس جس ڈش کی فرمائش کی میں نے وہ لاکر اسے پیش کی اس نے پیزا کھائے، برگر کھائے، سینڈوچ کھائے، اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ طرح طرح کے طعام تو میرے نفس نے کھائے پھر باتھ روم کے چکر مجھے کیوں کاٹنے پڑ رہے ہیں؟ نفس کو کیوں نہیں؟
یہی تو کمال ہے نفس کا! خواہش اور فرمائش ہوتی تو نفس کی ہیں مگر بھگتنا ہمیں پڑتا ہے۔ وہ اس لئے کہ نفس ہمارے اندر رہتا ہے۔ نہ جانے کب اور کیسے بدبخت نفس ہمارے وجود کا حصہ بن بیٹھتا ہے۔ ہمارے ساتھ پنپتا رہتا ہے جب ہم بچے ہوتے ہیں تب نفس ہمیں ماں باپ سے ضد کرنے پر اکساتا ہے، قیمتی کھلونوں کی فرمائش کراتا ہے اگر والدین ہماری ضد کے آگے جھک جائیں یا نرم پڑ جائیں تو بدبخت نفس ہمیں مزید فرمائشوں پر اکساتا ہے تب ہم بچپن سے اپنے نفس کے ماتحت ہو جاتے ہیں، نفس کے تابع ہو جاتے ہیں عمر کے ساتھ ساتھ نفس ہم پر حاوی ہو جاتا ہے۔ نفس کو کوٹھی چاہئے، نفس کو اعلیٰ برانڈ کی گاڑی چاہئے، نفس کو بیرون ملک سیر سپاٹوں کے لئے دولت چاہئے، بڑے لوگوں، سیاستدانوں اور حکمرانوں سے راہ و رسم بڑھانے کے لئے نفس کو آئے دن فائیو اسٹار ہوٹلوں میں دعوتیں چاہئیں۔ ایسی خواہشیں پوری کرنے کے لئے مجھے رشوت لینی پڑتی ہے، فنڈز میں گھپلے کرنے پڑتے ہیں، چوری کرنی پڑتی ہے، بینکوں میں ڈاکے ڈالنے پڑتے ہیں۔ جب پھنسنے کا وقت آتا ہے تب ہتھکڑیاں نفس کو نہیں، ہتھکڑیاں ہمیں لگتی ہیں۔
نفس نے ایک مرتبہ وتایو فقیر سے بڑی گاڑی کی فرمائش کی وتایو فقیر نے انکار کر دیا، چھوٹی گاڑی کی فرمائش کی وتایو نے نفس کی بات سنی اَن سنی کردی، نفس نے موٹر سائیکل مانگی وتایو نے اس کی بات ٹال دی، نفس نے آخر کار سائیکل کی فرمائش کی وتایو فقیر نے سائیکل خرید لی اورسیر کرنے نکل پڑا۔ راستے میں نفس نے ہنس کر کہا ”چلو وتایا، تم نے میری ایک فرمائش تو پوری کی“۔ وتایو فقیر سائیکل سے اتر پڑا، اس نے دونوں پہیوں کی ہوا نکال دی اور سائیکل کو کندھے پر اٹھا کر گھر کی طرف لوٹ آیا۔
تازہ ترین