• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سری نگر میں بھارتی پرچم کو سلامی دینے کے موقع پر مقبوضہ کشمیر کے ”وزیراعلی“ عمر عبداللہ نے شکایت کی ہے کہ بھارت کشمیریوں کو اپنا نہیں سمجھتا۔ ان سے ایسا سلوک کررہا ہے جیسے وہ اس کا ”انگ“ ہی نہیں۔ اب انہیں کون بتائے کہ اول تو بھارتی آئین کی دفعہ370 کشمیریوں کو اپنا سمجھنے سے روکتی ہے۔ اس کے تحت تنازعہ کشمیر کے مستقل تصفیے تک مقبوضہ کشمیر بھارت کیلئے علاقہ غیر ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی یہی کہتی ہیں پھر تاریخ میں آج تک باہر سے حملہ کرنے والے کس ”قبضہ گر“ نے کشمیریوں کو اپنا سمجھا ہے جو بھارت سمجھے۔ وہ تو بس لوٹ مار کرنے کیلئے یہاں آتے رہے اور بھارت بھی اسی تاریخ کا تسلسل ہے۔ اس کے علاوہ کشمیری بھی تو بھارت سے کچھ اچھا سلوک نہیں کر رہے۔ ایک عالم جانتا ہے کہ دنیا کی اس ” سب سے بڑی جمہوریت“ نے انہیں اپنا ”اٹوٹ انگ“ بنانے کیلئے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے۔ اس نے تو وادی کشمیر‘ جموں اور لداخ کے ایک کروڑ سے زائد عوام اور ساڑھے پچاس ہزار مربع میل علاقے کو ”اپنا“ بنانے کیلئے8 لاکھ سے زائد فوج تعینات کررکھی ہے اور تقریباً ہردس کشمیریوں کی ”حفاظت“ کیلئے ان کے سروں پر ایک بندوق بردار کھڑا کر رکھا ہے۔ ”امن وامان“ کیلئے جموں کے قتل عام سے لے کر اب تک وہ 6 لاکھ کشمیریوں کی قربانی دے چکا ہے۔ بستیوں کی بستیاں جلانے کے علاوہ ہزاروں کشمیری نوجوانوں کو لاپتہ کرکے عقوبت خانوں کی سیر کرانے کے بعد آرام کی نیند سلا چکا ہے۔ ان میں سے دس ہزار کی گمنام آخری آرام گاہیں تو صرف وسطی کشمیر میں دستیاب ہیں۔ پھر کشمیریوں کو ”دکھ“ سے بچانے کیلئے یہ بھی نہیں بتایا جاتا کہ ان میں سے کس کس کے جگر گوشے کہاں کہاں دفن ہیں۔ جو زندہ ہیں وہ کہاں اور کس حال میں ہیں‘ ایک امدادی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پچھلے20 سال میں ایک لاکھ کشمیریوں کو قید حیات سے آزاد کردیا گیا ہے‘ اس کے نتیجے میں صرف دولاکھ بچے یتیم ہوئے ہیں ۔ ابھی کل ہی کی تو بات ہے ”احسان فراموش“ کشمیری جنگجوؤں کی تلاش میں بھارتی فوج جوتے اتارے بغیر ایک مسجد میں گھس گئی قرآن پاک کے نسخے پھاڑ کر پھینکے اور امام سمیت سات نمازیوں کو سفر آخرت پر روانہ کردیا۔ اس پر احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے تو اگلے روز مزید6 کو ان کے پاس پہنچا دیا۔ گھروں میں گھس کر مردوں‘ عورتوں اور بچوں کی خوب تواضح کی گئی۔ کشمیریوں کو اپنا بنانے کیلئے اور کیا کیا جائے۔ اس پر بھی” انتشار اور بدامنی“پھیلانے والے سفید ریش علی گیلانی‘ جوان یٰسین ملک‘ شبیر احمد شاہ اور دوسرے ”سرپھرے“ آزادی کے نعرے لگا رہے ہیں۔ روزانہ ہڑتالیں اور مظاہرے کرا رہے ہیں۔ پاکستانی پرچم لہرائے جا رہے ہیں۔ تعلیمی ادارے بند ہیں‘ بازار بند ہیں‘ دکانیں جل رہی ہیں۔ کاروبار زندگی معطل ہے۔ پورے جموں اور پوری وادی میں جگہ جگہ کرفیو نافذ ہے۔ پھر بھی یہ لوگ ”سرکشی“ سے باز نہیں آتے۔ اپنے ”انگ“ تڑوا رہے ہیں مگر خود کو بھارت کا ”انگ“ ماننے کیلئے تیار نہیں۔ اوپر سے انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں‘ عالمی رائے عامہ‘ حتیٰ کہ خود ”عقل سے پیدل“ بعض بھارتی دانشور بھی ان کی باغیانہ سرگرمیوں کوحق بجانب اور انہیں روکنے کی ” امن پسندانہ کارروائیوں“ کو ظلم اور زیادتی قرار دیتے ہیں‘ اور تو اور عمرعبداللہ بھی کہتے ہیں کہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں۔ پاکستان سے مذاکرات کئے جائیں۔
لیکن طنز اور تفنن برطرف‘ یہ ہنگامہ داروگیر اہل کشمیر کیلئے کوئی نئی بات نہیں۔ وہ صدیوں سے اپنے انسانی حقوق اور آزادی کیلئے جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان کی پانچ ہزار سالہ تاریخ امن وانصاف سے زیادہ ظلم وجبر اور تگ و تاز کی تاریخ ہے۔ انہوں نے اپنے مطلق العنان راجوں مہاراجوں‘ بادشاہوں‘ سلطانوں‘ صوبیداروں اور گورنروں کے بہت ظلم سہے ہیں۔ اتنے ظلم کہ بعض دل جلے قلم کاروں نے انہیں ”ظلم پرست“ قوم قرار دے ڈالا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کے بعض حکمران عادل اور منصف بھی تھے جنہوں نے کچھ اپنی سہولت اور کچھ رعایا کی بہتری کیلئے اچھے کام بھی کئے مگر ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ اکثریت ظالموں‘ لیٹروں اور ڈاکوؤں کی تھی۔ ان میں مقامی بھی شامل ہیں اور باہر سے آنے والے بھی۔ تاہم تاریخ کا روشن اور پرامید پہلو یہ ہے کہ کشمیری جب بھی اپنے حکمرانوں کی چیرہ دستیوں کے سامنے بے بس یا بیرونی حملہ آوروں کی وحشیانہ قوت کے مقابلے میں مغلوب ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی نجات کا راستہ ضرور نکالا۔ کبھی کسی کو کسی دوسرے کے ذریعے تباہ و برباد کیا اور کبھی آفات سماوی کے ذریعے براہ راست اپنا قہرنازل کرکے اسے صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ جموں وکشمیر کی تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں ملتی ہیں جو عبرتناک بھی ہیں اور سبق آموز بھی‘ جو لوگ کشمیر کی تاریخ سے بے خبر ہونے کے باعث موجودہ صورت حال کے تناظر میں مایوسی اور بددلی کا شکار ہیں وہ پنڈت کلہن سے جی ایم میر تک نامور ملکی اور غیر ملکی مورخین کی کتابیں ضرور پڑھیں جن میں ایسی مثالیں کثرت سے ملتی ہیں۔ یہ اندھیروں میں روشنی کا پیغام ہیں اور بتاتی ہیں کہ رات کتنی ہی لمبی کیوں نہ ہو‘ اس کا اختتام ضرور ایک روشن صبح پر ہوتا ہے۔ قرآن پاک میں فرعون‘ شداد‘ہامان اور نمرود کا انجام یہی بتانے کیلئے بیان کیا گیا ہے کہ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں‘ کشمیر کے حوالے سے یہاں صرف ایک مثال پیش کرتا ہوں‘ باقی کا ذکر اگلے کالموں میں آئے گا۔ زمانہ قبل از مسیح میں پانڈو خاندان نے کشمیر پر994سال تک حکومت کی‘ اس کا آخری راجہ سندرسین نہایت ظالم اوربدکار تھا۔41 سال تک رعایا پر مسلط رہا جب اس کا ظلم حد سے بڑھ گیا تو خداوند جبار و قہار کا اس پر قہر نازل ہوا۔ ایک رات زبردست زلزلہ آیا‘ دارالحکومت سندیمت نگر کی زمین پھٹ گئی۔ پہاڑ کا ایک بڑا ٹکڑا گرنے سے دریائے جہلم رک گیا۔ راجہ اپنے حالیوں موالیوں سمیت پانی میں غرق ہوگیا ظلم کا ایک دور آناً فاناً ختم ہو گیا اور سندیمت نگر کی جگہ جھیل وولروجود میں آگئی۔
تازہ ترین