• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی 67سالہ تاریخ تو ویسے کوئی اتنی شاندار اور قابل ذکر نہیں کہ جس پر پوری قوم فخرکرسکے اور باہر کی دنیا کو ہم بتاسکیں کہ ہم نے کیا کیا ہے؟ سوائے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کے کارنامے کے، اگر ہمارے پاس ایٹم بم نہ ہوتا تو بھارت جس سے ہمارے اکثر دانشوروں اور فلم سٹارز کو وہاں جانے، کام کرنے اور انتہائی گہرے تعلقات بنانے کی شدید خواہش ہے وہ کب کا ہمیں کھاپی چکا ہوتا۔ حالیہ تمام واقعات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ بھارت کے دل میں ہمارے لئے کتنی محبت اور نرمی ہے۔ کاش!ہم ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کو ان کی خدمت سے کہیں بڑھ کر مقام دیتے۔ بھارت اپنے ایٹمی سائنسدان کو صدر بناتا ہے اور ہم اپنے ایٹمی سائنسدان کو ٹی وی پر شرمندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کو شرمندہ کرنے والا آج خود کچھ زیادہ اچھے حال میں نہیں۔
ہاں تو صاحبو! بات ہورہی تھی کہ ہماری67سالہ تاریخ میں کوئی ایسا قابل ذکر کارنامہ نہیں جس کا ہم ذکر کسی پنجابی فلم کی طرح فخریہ انداز میں پوری دنیا کے آگے پیش کرسکیں،البتہ میاں محمد شہباز شریف نے پچھلے چھ برس کے دوران تعلیم کے شعبے میں ایک نئی روایت کا آغاز کیا ہے جس کا بہر طور ذکر ضرور کرنا چاہئے اور پاکستان کی تعلیمی تاریخ میں اس کو سنہری حروف کے ساتھ تحریر کیا جائے گا۔ پچھلے ہفتے انہوں نے پورے پاکستان میں میٹرک کے امتحانات میں پوزیشن ہولڈرز طلباء و طالبات میں چار کروڑ 22 لاکھ روپے کے نقد انعامات اور جن اساتذہ نے انہیں اس قابل بنایا انہیں ایک کروڑ68لاکھ روپے کے نقد انعامات دئیے۔ شکر ہے کسی نے سرکاری خزانے سے مستقبل کے ان ہونہار بچوں میں کوئی رقم تقسیم کی۔ آج تک کسی دوسرے وزیر اعلیٰ کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اس قسم کی تقریب منعفد کراتا، میاں محمد شہباز شریف نے پنجاب کے وزیر تعلیم رانا مشہود خاں کو کہا کہ آئندہ پانچ سال میں اگر کوئی بچہ یا بچی تعلیم سے رہ گیا /رہ گئی تو وہ سیاست سے باہر ہوں گے، اگرچہ اس بات پر تقریب میں موجود تمام لوگ ہنس پڑے مگر یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ انہوں نے وزیر تعلیم کو اس طرح کہا۔صرف تعلیم کے وزیر کو ہی کیوں؟ باقی تمام محکموں کے وزیروں کو بھی کہیں کہ اگر ان کے محکمے کی کارکردگی اچھی نہ ہوئی تو وہ سیاست نہیں کریں گے۔ یہ سیاست کا”کھیل“ تو وہ غریب عوام کو مسائل سے باہر لانے کے لئے”کھیل“ رہے ہیں۔ اس وقت صحت اور تعلیم دو اہم شعبے ہیں، حکومت کا یہ نعرہ ”پڑھو، بڑھو اور پھر میدان جیت لو“اس میں بہت حقیقت ہے۔ بشرطیکہ اس پر بھرپور طریقے سے کام کیا جائے ۔اس تقریب میں ایک ایسا طالبعلم ایاز جام پور سے آیا جس نے ڈی جی خاں بورڈ میں اول پوزیشن حاصل کی۔وہ عزم و ہمت کی ایک خوبصورت تصویر ہے دوران تعلیم اس کے والد کو(جو رکشا چلاتا ہے) فالج ہوگیا۔ اس نے گھر کی کفالت کے لئے رکشا زیادہ چلایا اور پڑھائی کم کی یعنی وہ صبح سکول میں ہیڈماسٹر کی مہربانی سے رشکہ کھڑا کرکے پڑھتا اور سکول سے بعد رات تک رکشہ چلا کر خرچہ اکٹھا کرتا اور پھر پڑھتا اور بیمار باپ کا علاج کراتا۔حکومت کو چاہئے کہ ایسے طالبعلم کے آئندہ تمام تعلیمی اخراجات ناصرف خود ادا کرے بلکہ اس خاندان کے لئے کوئی ماہانہ رقم مقرر کردے تاکہ یہ لڑکا مزید تعلیم حاصل کرسکے۔اس طالبعلم نے تقریب میں اردو میں بڑے بے ساختہ پن میں تقریر کی، البتہ جن سٹوڈنٹس نے انگریزی میں رٹی رٹائی اور کاغذ پڑھ کر تقریر یں کیں وہ دلوں پر اثر نہ کرسکیں ۔پنجاب کے وزیر تعلیم رانا مشہود خان کہتے ہیں کہ حکومت نے تعلیمی ایمرجنسی نافذ کردی ہے اور ساتھ ہی وہ انگریزی میڈیم پر زور دے رہے ہیں حالانکہ جن قوموں نے اپنی زبان میں تعلیم دی انہوں نے ہمیشہ ترقی کی اور یا مقبول جان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اگر ہم پانچ ہزار سال پرانی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں صرف ان قوموں نے ترقی جہاں پر علم وفنون ان کی ا پنی زبانوں میں دئیے گئے۔ ہم ترکی کا ذکر آج جگہ جگہ پر کررہے ہیں ترکی ڈراموں کو بہت پسند کیا جارہا ہے۔ وہاں پر میڈیکل ایجوکیشن تک ترکی زبان میں ہے ۔ چین ، جاپان، فرانس اور کئی دیگر ممالک صرف اور صرف اپنی زبان میں تعلیم دیتے ہیں اگر حکومت تعلیمی میدان میں اور ملکی ترقی کی خواہاں ہے توانہیں اردو میڈیم کو ترقی دینا ہوگی۔ اردو کے ساتھ ساتھ عربی زبان کو لازمی کریں ، قرآن پاک اور اللہ تعالیٰ کی ہدایات اور احکامات صرف عربی زبان میں ہیں اور اللہ تعالیٰ انبیاء کرام سے صرف عربی ز بان میں مخاطب ہوئے آج عربی لازمی کردیں پاکستان کے 95فیصد مسلمانوں کو خود بخود قرآن پاک پڑھنا آجائے گا اور روایتی مدرسوں میں جانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
جنرل ضیاء الحق کے دو ر میں سکولوں کو اردو میڈیم کردیا گیا تھا بعد میں کچھ سکولز پھر انگلش میڈیم ہوگئے اور کچھ اردو میڈیم ہوگئے اور ابھی تک یہ صورتحال ہے کہ کچھ انگلش میڈیم ہیں اور کچھ اردو میڈیم ہیں۔ ایک طرف تو پنجاب حکومت سٹوڈنٹس کی حوصلہ افزائی کررہی ہے تو دوسری طرف کے پی کے(سابق صوبہ سرحد) کی حکومت ہے جس نے کے پی کے ا ٓٹھ بورڈوں میں ٹاپ کرنے والے کرنے والے حمزہ یونس رول نمبر110222 کو صرف پانچ ہزار روپے انعام میں دئیے جبکہ پنجاب حکومت نے چار لاکھ روپے اس طالبعلم کو دئیے حالانکہ عمران خاں کا یہ دعویٰ کہ وہ صرف یوتھ کو آگے لانا چاہتے ہیں، تو دوسری طرف کے پی کے کی حکومت نے پوزیشن ہولڈرز سٹوڈنٹس کے لئے کوئی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ اس طالبعلم نے بتایا کہ وہاں تعلیم پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔ یہ طالبعلم ایبٹ آباد سے میاں شہباز شریف کی دعوت پر لاہور آیا تھا ۔ جو بات قابل ذکر ہے کہ ہمارے ہاں جب غریب طالبعلم کوئی پوزیشن حاصل کرتے ہیں تو اپنے انٹرویوز اور تقریروں میں قوم کی خدمت کرنے کے بڑے بڑے دعوے اور عزم کا وعدہ کرتے ہیں مگر جب یہ مقابلے کا امتحان پاس کرکے بیوروکریٹس بنتے ہیں تو سب سے زیادہ لوٹ مار یہی کرتے ہیں۔ آج بھی بیوروکریسی میں اکثریت ان افراد کی ہے جو دیہاتی علاقوں، ٹاٹ کے سکولوں سے آئے ہیں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کی یہ بات درست ہے کہ بیوروکریسی میں آنے والوں کی اکثریت ٹاٹ سکولوں کی ہے تو پھر وہ اپنا ٹاٹ کیوں بھول جاتے ہیں، کیوں وہ پھر ہر وہ کام کرتے ہیں جس پر وہ جب خود طالبعلم ہوتے ہیں تو شور مچاتے ہیں۔ تنقید کرتے ہیں، نکتہ چینی کرتے ہیں، شہری علاقوں کے بیوروکریٹس کم ہیں بے شک سروے کرلیں یہ طالبعلم علامہ اقبال کے افکار کا ذکر تو بہت کرتے ہیں مگر جب خو د ”گورے“ افسر بنتے ہیں تو پھر اس غریب قوم کو محکوم بنالیتے ہیں حالاکہ خود بھی غریب گھروں سے آئے ہوتے ہیں #
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناؤں
بیباکی و حق گوئی سے گھبراتا ہے مومن
مکر و فریب پر اترتا ہے مومن
جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈر ہو
وہ رزق اب بڑے شوق سے کھاتا ہے مومن
کردار کا،گفتار کا، اعمال کا مومن
قائل نہیں ایسے کسی جذبہ کا مومن
سرحد کا مومن ہے تو کوئی پنجاب کا مومن
ڈھونڈے سے بھی ملتا نہیں قرآن کا مومن
اقبال# تیرے دیس کا کیا حال سناؤ
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ہمارے بعض دانشور، دانش سکولوں پر تنقید کرتے ہیں کہ یہ شہباز شریف کی حکومت کے بعد کیسے چلیں گے؟ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ایچی سن کالج بھی تو چل رہا ہے، کئی پرائیویٹ سکولز بھی تو کام کررہے ہیں۔ یہاں پر ہم وزیر اعلیٰ سے نہایت ادب کے ساتھ یہ اختلاف کریں گے کہ اگر ماضی میں حکومتوں نے اپنے تعلیمی اداروں کا معیار برقرار رکھا ہوتا تو کبھی بھی پرائیویٹ سیکٹر آگے نہ آتا۔ دوسرے آپ کیوں نہیں ان پرائیویٹ اداروں کے مالکان کو مجبور کرتے کہ وہ غریب کے لئے بھی سکولز قائم کریں اگر دوسو برانچوں میں سے ایک یا دو برانچیں غریب عوام کے لئے مخصوص کردیں تو اس سے کیا فرق پڑے گا؟ تعلیمی ایمرجنسی کو اگر کامیاب بنانا ہے تو تعلیم کو اپنی زبان میں کریں۔
تازہ ترین