• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قوم کو وزیراعظم کی تقریر کا بہت دیر سے انتظار تھا اور جناب وزیراعظم تھے کہ کوئی کچی بات نہیں کرنا چاہتے تھے، چنانچہ وہ گزشتہ اڑھائی ماہ سے مسلسل متعلقہ افراد اور اداروں سے مشاورت میں مشغول تھے تاکہ کسی نتیجے تک پہنچنے کے بعد قوم کے سامنے آئیں تو ان کے پاس کہنے کے لئے کوئی ٹھوس بات ہو اور ایسا ہی ہوا! انہوں نے قوم کے سامنے پورے پانچ سال کا روڈمیپ رکھا اور منزل کی طرف جانے والے رستوں کی نشاندہی کی۔ گزشتہ دور میں جب میاں شہباز شریف نے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالا تو میں نے اپنے پچھلے کالم کے آخر میں لکھا کہ ”شہباز شریف پنجاب کے عوام کو مایوس نہیں کریں گے اور میں اس کی گارنٹی دیتا ہوں“۔ اتنے یقین کے ساتھ میں نے یہ بات اس لئے کہی تھی کہ میں پاکستان کے لئے ان کی والہانہ محبت، تڑپ، دیانت اور عزم کی پختگی سے واقف تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ میری یہ بات سچ ثابت ہوئی اور آج ایک دنیا ان کے ان کارناموں کی مداح ہے جو انہوں نے پنجاب کے عوام کی خدمت کے ضمن میں انجام دیئے!
اور اب یہی بات میں وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کے حوالے سے کہنے جا رہا ہوں اور زیادہ شدت کے ساتھ چاہتا ہوں کہ اگر میاں صاحب کو اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے پانچ سال دستیاب ہوئے اور اس دوران انہوں نے وہ سب منصوبے مکمل کر لئے جن کا اعلان انہوں نے کیا ہے تو پاکستان کی قسمت بدل جائے گی بلکہ کامران خان کے بقول ”ان منصوبوں پر پچاس فیصد ہی عملدرآمد ہو سکا تو پاکستان ترقی کی ایک نئی شاہراہ پر گامزن ہو جائے گا“۔ مجھے اس امر میں رتی بھر بھی شک نہیں کہ میاں نواز شریف کا پاکستان کے ساتھ عشق آتش نمرود کو گلزار میں تبدیل کر دے گا اور ان منصوبوں کی تکمیل کے اثرات صرف پاکستان نہیں، بلکہ پورے خطے میں محسوس کئے جائیں گے۔ میں جانتا ہوں کہ اس طرح کی واضح اور کھلم کھلا قسم کی باتیں منجھے ہوئے کالم نگار نہیں کیا کرتے کہ کوئی بھی خود پر کسی قسم کا ٹھپا لگوانا پسند نہیں کرتا۔ میں چونکہ منجھا ہوا نہیں ہوں اس لئے اپنا مافی الضمیر لمبی چوڑی تمہید اور تجزیوں کی گرد میں چھپانے کی بجائے اس بات کی گواہی دینا چاہتا ہوں جس سے میں واقف ہوں کہ میاں نواز شریف پاکستان کے عاشق ہیں، وہ سیاست بھی کرتے ہیں اور کمپرومائز بھی لیکن پاکستان پر نہ وہ کبھی سیاست کریں گے اور نہ کمپرومائز کریں گے۔ میں نے ان کی گزشتہ اڑھائی ماہ کی حکومت کے دوران کئی مواقع پر اختلافی کالم بھی لکھے ہیں، ان کے سامنے بیٹھ کر بہت کچھ زبانی بھی کہتا رہا ہوں اور آئندہ بھی جہاں کہیں انہوں نے ٹھوکر کھائی، اپنا یہ فرض انجام دوں گا، تاہم میرا یہ یقین اپنی جگہ ہے کہ میاں نواز شریف نے جو کچھ کہا ہے وہ کر دکھائیں گے۔ میری یہ باتیں ریکارڈ پر آ گئی ہیں، اگر خدانخواستہ ایسا نہ ہوا تو جہاں میں خود شرمندہ ہوں گا، وہاں آپ کو بھی مجھے شرمندہ کرنے کا حق حاصل ہو گا!
میاں وزیراعظم پاکستان کی تقریر کے مندرجات کی تفصیل میں جا رہا ہوں اور نہ جاؤں گا کہ یہ سارے چینل سے نشر اور اخبارات میں شائع ہو چکی ہے، مجھے صرف اتنا کہنا ہے کہ وزیراعظم کی طرف سے جن ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا گیا ہے، ان کی تکمیل کی صورت میں ہماری معیشت کا گراف بہت اونچا جا سکتا ہے، صرف معیشت نہیں بلکہ اس کے نتیجے میں دنیا کو پاکستان کا روشن چہرہ بھی نظر آئے گا، لیکن اس کیلئے دہشت گردی کا خاتمہ ضروری ہے، اگر دہشت گرد ملک میں اسی طرح دندناتے رہے تو کوئی ترقیاتی درخت پھل نہیں دے سکے گا۔ میاں نواز شریف نے اپنی تقریر میں دہشت گردوں سے مذاکرات اور طاقت کے استعمال دونوں آپشن دیئے ہیں، ان دونوں میں سے مذاکرات کو اولین ترجیح میں رکھنا چاہئے، طاقت کے استعمال سے بھی مسائل حل ہو سکتے ہیں لیکن یہ ایک طویل اور پیچیدہ رستہ ہے۔ اس کی بھول بھلیوں میں پڑ کر منزل کی طرف جانے والے رستے گم بھی ہو سکتے ہیں، بلوچستان کا مسئلہ بھی اسی ذیل میں آتا ہے۔ ہمارے بلوچی بھائیوں کی شکایات برحق ہیں مگر انہیں لسانی بنیادوں پر محنت کشوں، خواتین اور بچوں کو مارنے کا حق بہرحال نہیں دیا جا سکتا۔ بلوچ رہنماؤں سے میاں صاحب کے تعلقات بہت دیرینہ ہیں۔ طرفین میں ایک دوسرے کیلئے عزت و احترام پایا جاتا ہے، چنانچہ امید ہے کہ میاں صاحب ان تعلقات، اپنے مزاج کی نرم خوئی اور دشواری سے صورتحال میں بہتری لانے میں کامیاب ہو جائیں گے! جہاں تک لوڈشیڈنگ کا تعلق ہے، میاں صاحب نے اپنی تقریر میں اس حوالے سے ماضی کی کرپشن اور نااہلی کا تفصیلی تذکرہ کیا اور مستقبل کیلئے ٹھوس منصوبے بھی پیش کئے جن میں سے کچھ پر کام شروع ہو چکا ہے، لوڈشیڈنگ کا مسئلہ بھی،دہشت گردی کے مسئلے کی طرح بہت اہم ہے، ریاست کی ان دونوں کمزوریوں پر قابو پائے بغیر معاشی ترقی ممکن نہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ عید کے روز سے لے کر آج تک لوڈشیڈنگ میں نمایاں کمی نظر آنا بھی شروع ہو گئی ہے جس کی وجہ پانچ سو ارب کے ان گردشی قرضوں کی ادائیگی ہے جو بجلی بنانے والی کمپنیوں کو ادا کرنا تھے اور بقول میاں صاحب ”یہ ہم ہی جانتے ہیں کہ یہ قرض ہم نے کیسے ادا کیا؟“ ایک ”حیران کن بات یہ بھی ہے کہ ہمارا میڈیا جو ہمہ وقت لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے حکومت کا ”سیاپا“ کرتا نظر آتا تھا، اس بہتری کے بارے میں خاموش ہے، شاید اسلئے کہ اچھی خبر، خبر نہیں ہوتی“۔ میں لاہور تا کراچی اور کاشغر سے کوئٹہ تک موٹروے بنانے اور اس طرح کے دوسرے میگاپراجیکٹ، جن کا اعلان میاں صاحب نے اپنی تقریر میں کیا، ایکسائیٹڈ تو بہت ہیں، مگر فکر مند بھی ہوں کہ جب کبھی ہم نے ترقی کی طرف سفر شروع کیا ہے، پاکستان دشمن طاقتیں پہلے سے زیادہ فعال ہو جاتی ہیں اور یوں ترقی کا یہ مسئلہ کہیں درمیان ہی میں رہ جاتا ہے۔ سو میاں صاحب سے گزارش ہے کہ وہ تمام سوراخ بھی بند کرنے کی طرف توجہ دیں جن میں پھنیئر سانپ پھن پھیلائے موقع کے منتظر ہیں۔
میاں نواز شریف نے اپنی ماضی کی ادھوری مدت کی حکومتوں میں جتنے بھی منصوبے بنائے، وہ چند سو یا چند ہزار لوگوں کے فائدے کے نہیں، بلکہ لاکھوں پاکستانیوں کے فائدے میں جاتے تھے، جن میں سے موٹروے کی تعمیر، ملک بھر سے محصول چونگیوں کا خاتمہ، ایئر پورٹوں اور بندرگاہوں کی تعمیر، پاکستان ہندوستان اور اردگرد کے ممالک کے کروڑوں عوام کو جنگ کے خطرے سے محفوظ رکھنے کے لئے انڈیا کے جواب میں ایٹمی دھماکہ، جسکے بعد جنگ کا خطرہ ہمیشہ کیلئے ٹل گیا۔ سندھ کے ہاریوں میں زمین کی تقسیم، پاکستان میں سائیکل رکشے کا خاتمہ، نوجوانوں کو باعزت روز گار کے لئے قرضے، ایسے بہت سے منصوبے تھے، جو عوامی مفاد میں مکمل کئے گئے۔ اب وہ ایک اور بڑے منصوبے کے ساتھ میدان میں اترے ہیں اور یہ لاکھوں بے گھر لوگوں کیلئے گھروں کی تعمیر ہے، بے گھر لوگوں کا دکھ وہ لوگ نہیں جان سکتے جو اپنے گھروں میں رہتے ہیں۔
میں نے میاں صاحب سے ایک ملاقات میں عرض کی تھی کہ دس ہزار روپے ماہوار تنخواہ لینے والے شخص کو جب ہر ماہ کبوتروں کے کھڈے جتنے دو کمروں کے سات ہزار روپے ادا کرنا پڑتے ہیں تو باقی بچنے والے تین ہزار روپوں میں سے وہ گھر کے اخراجات کیسے پورے کرے گا چنانچہ میں نے عرض کیا تھا کہ اگر غریب آدمی کے صرف مکان کا مسئلہ حل کر دیا جائے تو اس کے آدھے سے زیادہ مسائل حل ہو جائیں گے۔ اس کے لئے میں نے کئی منزلہ فلیٹس کی تجویز پیش کی تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو گھر کی سہولت مہیا ہو سکے۔ میری میاں صاحب سے گزارش ہے کہ وہ اس منصوبے پر بھی جتنی جلدی ممکن ہو کام شروع کریں، تاہم اس میں لاکھ دو لاکھ پیشگی ادا کرنے کی شرط نہ ہو کہ دس ہزار روپے ماہوار پانے والے غریب شخص کے پاس تو سوائے آنسوؤں کے اور کچھ نہیں ہوتا؟
میں یہ بات کالم کے درمیان میں بھی کہہ چکا ہوں اور اب یہ سب کچھ لکھنے کے بعد بھی اس سوچ میں گم ہوں کہ اگر یہ سب منصوبے تکمیل کی طرف اپنا سفر شروع کرتے ہیں تو کیا پاکستان دشمن طاقتیں یہ سب کچھ خاموشی سے دیکھتی رہیں گی؟ یقینا نہیں، تاہم ان طاقتوں کا موثر سدباب کیا جا سکتا ہے اور اس میں سب سے موثر کردار میڈیا انجام دے سکتا ہے، میڈیا حکومت پر تنقید ڈٹ کر کرے، ان کی غلطیوں کی بھرپور طور پر نشاندہی کرے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے اچھے کاموں پر اسے شاباش بھی دیتا رہے۔ صرف اور صرف منفی پروپیگنڈہ دشمن کے ہاتھ مضبوط کرتا ہے، ایک مایوس قوم دشمن کے لئے ترانوالہ ہوتی ہے۔ اس ضمن میں دوسری اہم بات حکومت کی پشت پر عوام کا ہونا ہے، مگر میاں نواز شریف ایک بات یاد رکھیں کہ عوامی رابطے کے بغیر یہ ممکن نہیں، بیورو کریسی اپنی مجبوریوں کے تحت ان کے سامنے پورا سچ نہیں بول سکتی، پورا سچ انہیں عوام کے صحیح نمائندوں میں سے سننے کو ملے گا۔ عوامی نمائندوں میں عوام کے سبھی طبقے شامل ہیں، اگر آپ لاہور سے اسلام آباد اور اسلام آباد سے لاہور آتے جاتے رہے اور چاروں صوبوں کے لوگوں سے براہ راست مکالمے سے محروم رہے تو دشمن انہیں بھڑکانے میں کامیاب ہو جائے گا… تو میاں صاحب! کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ پاکستان کو ایک ترقی یافتہ ملک بنانے کے لئے دن رات کوشش کرتے رہیں گے اور پاکستان کے دشمن خاموشی سے یہ سب کچھ دیکھتے رہیں گے؟ ایسا پہلے بھی نہیں ہوا تھا، ایسا اب کے بھی نہیں ہو گا؟
تازہ ترین