• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی کی معروف کاروباری شاہ راہ، آئی آئی چند ریگر روڈ کا شاہین کمپلیکس سگنل بند تھا۔ ٹاور سے آنے والی ٹریفک سبز بتی کی منتظر تھی اور آرٹس کاؤنسل کی طرف سے گاڑیاں ٹاور کی طرف رواں دواں تھیں کہ دفعتاً ایک موٹر سائیکل سوار سگنل توڑتے ہوئے آگے بڑھا، مگر ابھی وہ سڑک کے درمیان ہی میں تھا کہ دوسری طرف سے آنے والا تیز رفتار ٹرک اُسے کچلتا چلا گیا۔

اطراف میں کھڑے لوگ زمین پر گرے موٹر سائیکل سوار کی طرف دوڑے اور بُری طرح زخمی ہونے والے نوجوان کو اُٹھا کر سڑک کے کنارے لٹا دیا تاکہ ایمبولینس کے ذریعے اسپتال منتقل کیا جاسکے، مگر وہ نوجوان طبّی امداد سے قبل ہی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ کراچی کے سگنلز پر اِس طرح کے واقعات روز کا معمول ہیں، جب کہ مُلک کا شاید ہی کوئی علاقہ ایسا ہو، جہاں سے ٹریفک حادثات کی اطلاعات سامنے نہ آتی ہوں۔ پاکستان، تعلیم اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے باوجود اب بھی دنیا کے اُن ممالک میں شامل ہے، جہاں کثرت سے ٹریفک حادثات ہوتے ہیں۔ 

ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق، گزشتہ برس مُلک بھر میں 9 ہزار 701ٹریفک حادثات ہوئے، جن میں 5 ہزار 436 افراد ہلاک اور 12 ہزار 317 زخمی ہوئے۔ اگر صوبوں کی بات کی جائے، تو پنجاب میں 4 ہزار 294 حادثات میں 3 ہزار 102 افراد ہلاک اور 5 ہزار 746 زخمی ہوئے۔ سندھ میں ایسے حادثات کی تعداد 858 رہی، جن میں 741 افراد ہلاک اور اتنے ہی زخمی ہوئے۔ خیبر پختون خوا میں 3 ہزار 891 حادثات میں 1186افراد ہلاک اور 5 ہزار 69زخمی ہوئے۔ بلوچستان میں 469 حادثات ہوئے، جن میں 289 افراد ہلاک اور 640 زخمی ہوئے۔ 

وفاقی دارالحکومت، اسلام آباد میں ہونے والے 189 حادثات میں 118 افراد ہلاک اور 121 زخمی ہوئے۔ یہاں یہ امر پیشِ نظر رہے کہ یہ اعداد وشمار پولیس رپورٹس کی بنیاد پر تیار کیے گئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایسے ہزاروں حادثات اِس رپورٹ کا حصّہ نہیں بن سکے، جو پولیس تک نہیں پہنچ پائے۔ ہمارا روز کا مشاہدہ ہے کہ گاڑیاں آپس میں ٹکرا جائیں، کسی گاڑی سوار نے راہ گیر کو ٹکر ماردی، یا اِسی نوعیت کا کوئی دوسرا حادثہ ہوا، مگر معاملہ پولیس تک پہنچنے سے قبل ہی آپس میں نمٹا لیا جاتا ہے یا پھر حادثے کا ذمّے دار موقعے سے فرار ہو جاتا ہے اور متاثرہ فرد اُسے دیکھتا ہی رہ جاتا ہے، یوں بات پولیس تک نہیں پہنچ پاتی۔

پنجاب ایمرجینسی سروس، ریسکیو 1122 کی ویب سائٹ پر 10 اکتوبر 2004ء سے 7 نومبر 2021ء تک کے دست یاب اعداد وشمار کے مطابق ادارے کو اس عرصے کے دَوران سڑک حادثات کی 30 لاکھ 16 ہزار 358 کالز موصول ہوئیں۔نیشنل روڈ سیفٹی سے متعلق ایک سیمینار میں ماہرین نے بتایا کہ پاکستان میں ہلاکتوں کا سبب بننے والے عوامل میں ٹریفک حادثات 15 ویں نمبر پر ہیں اور اگر یہی صُورتِ حال برقرار رہی، تو2030ء تک پاکستان میں ٹریفک حادثات موت کی تیسری بڑی وجہ بن جائیں گے۔

اگر ہم ٹریفک حادثات کی وجوہ کا جائزہ لیں، تو معلوم ہوگا کہ ذرا سی توجّہ سے ان مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔اپنی اور دوسروں کی جانوں کو خطرات میں ڈالنے کی ایک بڑی اور بنیادی وجہ جلد بازی ہے۔خاص طور پر بڑے شہروں میں تو یہ رویّہ ایک وبا کی صُورت اختیار کرچُکا ہے۔ دفاتر جانے اور واپسی کے اوقات میں شاہ راہیں بدترین بدنظمی کا منظر پیش کرتی ہیں، جب کہ اِس دَوران گاڑیوں کے ٹکرانے جیسے واقعات پر لوگ ایک دوسرے سے اُلجھتے بھی نظر آتے ہیں۔اگر دیکھا جائے، تو موٹر سائیکل سوار اِس وبا کا زیادہ شکار ہیں۔

یہ اپنی بائیک نظم و ضبط کے ساتھ چلانے کی بجائے جہاں کوئی جگہ نظر آتی ہے، اُس طرف چل پڑتے ہیں، یہاں تک کہ فُٹ پاتھ پر بائیک چڑھانے اور سگنلز توڑنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ بیش تر اوقات ایسے ہی موٹر سائیکل سواروں کی وجہ سے ٹریفک کی روانی میں خلل پڑتا ہے اور یہ انسانی جانوں کو بھی خطرات سے دوچار کرتے ہیں۔ اِس ضمن میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ موٹر سائیکل سوار’’ چھوٹی‘‘ سواری ہونے کے سبب رانگ سائیڈ کے استعمال کو خود کا حق سمجھتے ہیں اور اس سے خُوب فائدہ بھی اُٹھاتے ہیں، مگر اُن کی اِس قانون شکنی کا خمیازہ شہریوں کو ٹریفک جام کی صُورت بھگتنا پڑتا ہے، تو کئی بار رانگ سائیڈ سے آنے والی گاڑیاں حادثات کا بھی باعث بنتی ہیں۔

اِسی طرح رکشے والے بھی کسی قانون یا ضابطے کی پابندی ضروری خیال نہیں کرتے کہ اُنھیں بھی بہت جلدی ہوتی ہے۔ جہاں دل کرتا ہے، رکشا کھڑا کرکے سواری سے بھاؤ تاؤ کرنے لگتے ہیں اور یہ بھی دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ اُن کے اِس عمل سے پیچھے گاڑیوں کی قطاریں لگ جاتی ہیں۔رکشوں کا بغیر کسی اشارے کے اچانک کسی طرف مُڑ جانا اور چلتے چلتے یک دَم کھڑے ہوجانا بھی معمول کی بات ہے، یہ اُن کا دردِ سَر نہیں کہ پیچھے آنے والی گاڑیاں خود کو کیسے سنبھالتی ہیں۔

بلاشبہ، چنگ چی رکشے عوام کے لیے سہولت کا باعث ہیں کہ حکومتیں مناسب سفری سہولتیں دینے میں ناکام رہی ہیں اور اِس طرح کی سواریوں سے شہریوں کے لیے آمد ورفت میں کچھ نہ کچھ آسانی ضرور ہوئی ہے، مگر اس کے ساتھ ان چنگ چی رکشوں نے حادثات میں بھی اضافہ کیا ہے۔ ایک تو یہ کہ اُن کے ڈرائیورز پر بھی جلد بازی کا بھوت سوار ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہ’’ ریس‘‘ لگاتے ہیں، تو دوسری طرف، وہ غیر تربیت یافتہ بھی ہوتے ہیں۔عام رکشوں کی طرح اُنھیں بھی جہاں کسی نے رُکنے کا اشارہ کیا، آگے پیچھے دیکھے بغیر فوراً بریک پر پاؤں رکھ دیتے ہیں۔

نیز، بہت سے چنگی رکشوں اور موٹر سائیکلز کو کم عُمر بچّے بھی اُڑائے پِھرتے ہیں۔ پچھلے دنوں اسلام آباد جیسے شہر میں ایسے واقعات سامنے آئے، جن میں چھوٹے بچّے بڑی گاڑیاں چلاتے ہوئے پکڑے گئے۔ گلی محلّوں میں بچّے موٹر سائیکل چلا رہے ہوتے ہیں، گو کہ بہت سے بچّے چُھپ چُھپا کر یہ کام کرتے ہیں، مگر اِس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ بہت سے والدین کو اِس بات کا علم ہوتا ہے کہ اُن کے بچّے موٹر سائیکل یا دوسری گاڑی چلا رہے ہیں، مگر اس کے باوجود وہ اُنھیں منع نہیں کرتے۔

پھر معاملہ موٹر سائیکل سواروں اور رکشوں تک ہی محدود نہیں، بسز اور دیگر گاڑیاں چلانے والے بھی کسی سے کم نہیں۔عام طور پر بسز کے ڈرائیور گیٹ پر’’ پائلٹ گیٹ‘‘ تحریر ہوتا ہے، جو اُن کے مزاج کی درست عکّاسی کرتا ہے کہ وہ واقعتاً ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر خود کو کسی بس کی بجائے جہاز ہی کا ڈرائیور سمجھتے ہیں۔ انتہائی خطرناک انداز میں اوور ٹیک کرتے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں کہ’’ دیکھا، کیسے پیچھے چھوڑا؟‘‘شہروں میں چلنے والی بسز اور ویگنز ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ میں ہر سال درجنوں افراد کو نگل لیتی ہیں، مگر یہ مقابلے ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔پہلے تو گاڑی کچھوے کی رفتار سے چلاتے ہیں، مگر جوں ہی اُن کے رُوٹ کی دوسری گاڑی قریب آجائے، تو پھر اُسے جہاز بنا دیتے ہیں، اُنھیں سڑک پر چلنے والوں کی فکر ہوتی ہے اور نہ گاڑی میں سوار افراد کی چیخ و پکار ڈرائیور کے کانوں تک پہنچ پاتی ہے۔

کچھ عرصہ قبل ڈیرہ غازی خان کے قریب بس اور ٹرالر میں خوف ناک تصادم کے نتیجے میں33 سے زاید افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے، جب اِس واقعے کی تحقیقات ہوئیں، تو پتا چلا کہ بس میں 35 مسافروں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی، مگر65 سے زاید افراد کو اُس میں ٹھونس دیا گیا تھا اور یوں بس اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پائی۔ یہ اوور لوڈنگ بھی ہمارے ہاں ٹریفک حادثات کی ایک اہم وجہ ہے۔ ہمیں کراچی کی شاہ راہوں پر ایسی بسز دوڑتی نظر آتی ہیں، جن سے لوگ چمٹے ہوتے ہیں۔ لوگ ان بسز کی چھتوں پر پاؤں لٹکائے بیٹھے ہوتے ہیں اور جنھیں یہ سہولت حاصل نہ ہو، وہ دروازوں اور سیڑھیوں پر لٹک جاتے ہیں۔ اخبارات میں ان افراد کی بسز سے گر کر ہلاک یا زخمی ہونے کی خبریں بھی چھپتی ہیں۔

یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ کراچی جیسے بڑے شہروں کے باسیوں کو، جنھیں اپنی معاشی ضروریات کے لیے بسز میں سفر کرنا پڑتا ہے،حکومت نے کیا سہولتیں فراہم کی ہیں؟ کیا شہر میں ان لاکھوں افراد کے لیے ٹرانسپورٹ کی تعداد کافی ہے کہ وہ یوں اپنی جانوں کو خطرات میں ڈال کر بسز سے نہ لٹکیں؟ اِسی سلسلے میں یہ بھی یاد رہے کہ ہمارے ہاں مسافر بسز سامان ڈھونے کا بھی کام کرتی ہیں۔ مختلف شہروں کے درمیان چلنے والی بسز کی چھتیں سامان سے لدی ہوتی ہیں، تو ایسے میں تیز رفتاری کے دَوران اُن کے لیے توازن برقرار رکھنا آسان نہیں ہوتا۔

گوکہ بیش تر لانگ روٹ گاڑیاں فٹنیس کے لحاظ سے بہتر ہوتی ہیں، تاہم یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اُن کا عملہ تربیت یافتہ بھی ہے۔ان بسز کے مالکان کی جانب سے اِس بات کا کم ہی خیال رکھا جاتا ہے کہ آیا ڈرائیور ذہنی اور جسمانی طور پر گاڑی چلانے کے لیے فِٹ بھی ہیں؟ یہ اِس لیے بھی ایک اہم معاملہ ہے کہ بہت سے ڈرائیور نشہ آور اشیا استعمال کرتے ہیں اور لانگ ڈرائیونگ کے سبب اُن کی نیند بھی پوری نہیں ہوپاتی۔ کئی مواقع پر یہ بات سامنے آئی کہ ڈرائیور کی آنکھ لگنے کے سبب حادثہ ہوا۔ 29 ستمبر کو کراچی کے قریب بس اور ٹرک کی ٹکر کے نتیجے میں 5 افراد جاں بحق اور 20سے زاید زخمی ہوئے، پولیس کا کہنا تھا کہ ڈرائیور کا اگلی گاڑی سے مناسب فاصلہ نہ رکھنا اس حادثے کی وجہ بنا۔

یعنی اگر وہ تربیت یافتہ اور گاڑی چلانے کے اصول وضوابط سے واقف ہوتا اور اُن پر عمل بھی کرتا، تو اِس طرح کے حادثے سے بچا جاسکتا تھا۔ اِسی طرح، ڈرائیونگ کے دَوران موبائل فون کا استعمال بھی ایک خطرناک عادت ہے، مگر ہمارے ہاں گاڑی چلاتے ہوئے موبائل پر طویل گپ شپ کا کچھ فیشن سا ہوگیا ہے۔خاص طور پر موٹر سائیکل سواروں کی وہ حالت تو بہت ہی عجیب، بلکہ مضحکہ خیز لگتی ہے، جب وہ بائیک چلاتے ہوئے کندھے اور جُھکی گردن کی مدد سے موبائل فون پر بات کر رہے ہوتے ہیں۔حالاں کہ اگر کوئی بہت ہی اہم کال ہے، تو گاڑی ایک طرف کھڑی کرکے بھی بات کی جاسکتی ہے۔ 

ڈرائیونگ لائسنس صرف گاڑی سڑک پر لانے کا اجازت نامہ نہیں، بلکہ یہ اس بات کی بھی علامت ہے کہ لائسنس یافتہ شخص ٹریفک قوانین سے مکمل طور پر آگاہ ہے، یقیناً دنیا میں ایسا ہی ہوگا، مگر پاکستان میں لائسنس اجرا کا نظام تنقید کی زد میں رہا ہے۔ گاڑیاں، خاص طور پر موٹر سائیکل وغیرہ چلانے والوں کی ایک بڑی تعداد لائسنس کے بغیر ہی کام چلا رہی ہے اور اگر کہیں اُن سے اِس بابت پوچھا جائے، تو وہ اُس طریقے سے بخوبی واقف ہیں، جس سے ٹریفک اہل کاروں کے چہروں پر مسکراہٹ دوڑ جاتی ہے۔ دوسری طرف، قانونی تقاضے پورے کیے بغیر لائسنس کا اجرا بھی ایک مسئلہ ہے، یہاں تک کہ ایک بار اندھے شخص کا بھی ڈرائیونگ لائسنس بنوا لیا گیا تھا۔

اس طرح لائسنس حاصل کرنے والے ٹریفک قوانین سے آگاہ ہی نہیں ہوتے، تو وہ اُن کی پاس داری کیسے کریں گے؟ علاوہ ازیں، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اور تجاوزات بھی ٹریفک حادثات کا اہم سبب ہیں۔کراچی ہی سے متعلق اخبار میں خبر چَھپی کہ تین ہٹّی سے گرو مندر کی طرف آتے ہوئے ٹوٹی سڑک کے سبب رکشا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور اُلٹ گیا، جس کے نتیجے میں رکشے میں سوار تین خواتین زخمی ہوگئیں۔ پچھلے دنوں میاں والی کی ایک سڑک سے متعلق رپورٹ شایع ہوئی، جسے’’ خونی سڑک‘‘ کا نام دیا گیا تھا کہ اُس ٹوٹی پھوٹی سڑک پر سفر کرنے والے حادثات کی زد میں رہتے ہیں۔ 

گزشتہ دنوں کراچی کی ایک خستہ حال بس کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، تاہم ایسی گاڑیاں صرف کراچی ہی نہیں، پورے مُلک میں موجود ہیں، بلکہ مسافر بھی’’ ڈھو ‘‘ رہی ہیں۔ اسکریپ بنی گاڑیوں کے لیے متعلقہ اداروں سے فٹنیس سرٹیفکیٹ کا حصول کبھی بھی دشوار نہیں رہا، بس فائل کے نیچے پہیّے لگانے ہوتے ہیں۔سڑکوں پر چلتی بہت سی گاڑیاں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اُنھیں کس نے اور کیسے قابلِ استعمال کا سرٹیفکیٹ جاری کردیا؟

ہمارے ہاں پیدل چلنے والے بھی ٹریفک حادثات کا نشانہ بنتے ہیں۔اِس کی ایک وجہ تو وہی جلد بازی اور شارٹ کٹ کی عادت ہے کہ اوور ہیڈ بریجز استعمال کرنے کی بجائے تیز رفتار ٹریفک کے درمیان سے گزرنے کی کوشش کی جاتی ہے، جس کے دَوران بعض افراد گاڑیوں کی زد میں بھی آ جاتے ہیں، تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں ابھی تک کسی کا پیدل چلنے والوں کے حقوق کی طرف دھیان ہی نہیں گیا۔ فُٹ پاتھ پر کاروبار ہو رہا ہے، جس کے سبب لوگ سڑکوں پر چلنے پر مجبور ہیں، جہاں گاڑیاں اُنھیں ٹکر مارنے کے لیے موجود ہوتی ہیں۔پھر یہ کہ بہت کم سڑکیں ایسی ہیں، جہاں پیدل چلنے والوں کے لیے زیبرا کراسنگ کی سہولت ہو اور اگر ہے بھی، تو گاڑی سوار اُنھیں اِس سہولت سے مستفید نہیں ہونے دیتے۔

ٹریفک حادثات سے بچاؤ کی چند تجاویز

٭ کسی شخص کو لائسنس کے بغیر گاڑی نہ چلانے دی جائے اور لائسنس اجرا کے نظام میں بھی شفّافیت لائی جائے۔ ٭ اپنی جیب بَھر کر قانون شکنی سے چشم پوشی کرنے والے ٹریفک اہل کاروں کا محکمے سے صفایا کیا جائے۔٭ایسا نظام وضع کیا جائے کہ متعلقہ ادارے ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی مرمّت کے لیے عوامی احتجاج یا کسی بڑے حادثے کا انتظار کیے بغیر ہی متحرّک رہیں۔ ٭ عوام میں ٹریفک قوانین کی پابندی کا شعور اجاگر کرنے کے لیے نچلی سطح پر مہم چلائی جائے اور اس سلسلے میں علمائے کرام کی بھی خدمات حاصل کی جائیں تاکہ وہ خطباتِ جمعہ میں عوام کو انسانی جان کی حفاظت کی اہمیت سے آگاہ کریں۔٭ سڑکوں اور فٹ پاتھ سے تجاوزات ختم کی جائیں۔ ٭ گاڑیاں صرف اپنے مقرّرہ اسٹاپ ہی پر رُکیں، اِس ضمن میں عوام کو بھی پابند کیا جائے کہ وہ اسٹاپ کے علاوہ گاڑیوں میں سوار ہوں، نہ اُتریں۔٭ کسی ایسی گاڑی کو سڑک پر آنے کی اجازت نہ ہو، جو فٹنیس کے معیار پر پوری نہ اُترتی ہو۔٭ بڑے شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر بنایا جائے تاکہ عوام بسز کی چھتوں پر چڑھنے پر مجبور نہ ہوں۔ ٭دنیا کے باقی ممالک کی طرح بڑے شہروں میں سرکلر ریلوے یا بڑی بسز چلائی جائیں تاکہ سڑکوں پر چھوٹی گاڑیوں کی تعداد میں کمی آسکے۔

تازہ ترین