• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے دنوں سری لنکا کے شہری پریانتھا کمارا کو، جوکہ بدھ مت سے تعلق رکھتا تھا، اردو بولنا اور پڑھنا بھی نہیں جانتا تھا، مشین پر لگے چند اسٹیکرز کو ہٹانے کے جرم میں بیدردی سے قتل کیا گیا۔ اِس واقعہ نے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں ذی شعور لوگوں کے دل ہلا کر رکھ دیے۔ درندگی کی حد یہ تھی کہ اس کی لاش کو سڑک پر گھسیٹا گیا اور پھر اُس نبیﷺ کے نعرے لگائے گئے جسے اللہ تعالیٰ نے رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا تھا اور جس نے زندگی بھر کسی بھی انسان کو نفرت سے نہیں دیکھا تھا۔ اس معاملے میں ریاست تماشہ دیکھنے اور ایف آئی آر درج کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر پائی۔ پاکستان کے مخالف یہ بات کرتے ہوئے نہیں تھکتے کہ جس ملک کی بنیاد ہی نفرت پر رکھی گئی ہو، وہاں نفرت ہی اگتی ہے۔ آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ان عوامل پر غور کیا جائے جس کی وجہ سے مذہبی شدت پسندی ہمارے سماج میں اتنی دور تک سرایت کر گئی ہے اور وہ کیا وجوہات ہیں کہ دوسرے اسلامی ملکوں میں ایسے واقعات نہیں ہوتے اور ہمیں ایسے کون سے اقدامات کرنے چاہئیں جو اکیسویں صدی میں ہمیں ایک قوم بنا کر رکھ سکیں، ورنہ ایسے واقعات ہمیں صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے کافی ہیں۔

تحریک پاکستان شاہد ہے کہ یہ ملک اسلئے حاصل کیا گیا تھا تاکہ مسلمان اپنے سیاسی حقوق حاصل کر سکیں لیکن شومئی قسمت سے ہمارے بانی قائداعظم محمد علی جناح اس ملک کو آئین دیے بغیر ہی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ اس کیساتھ ساتھ حکمرانوں نے عوام میں یہ ڈر اور خوف کو پیدا کرنا شروع کیا کہ اس ملک کا وجود خطرے میں ہے اور یہ دشمنوں میں گھرا ہوا ہے جو کسی بھی لمحے اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینگے۔ اور یوں ہندوستان کی طرف سے حملے کا خطرہ لوگوں کے دلوں میں بٹھا دیا گیا۔ قیام پاکستان کے بعد ہی ہندوستان سے ان تمام مذہبی رہنمائوں نے پاکستان کا رخ کیا جو پاکستان کے قیام اور جناح صاحب کی مخالفت کر رہے تھے اور ہندوستان میں سیکولر ازم کے داعی تھے جس کی وجہ سے 1949ءمیں قرار دادِ مقاصد کا ظہور ہوا۔ محققین کا خیال ہے کہ جناح صاحب اگر زندہ ہوتے تو قراردادِ مقاصد کبھی بھی منظور نہ ہوتی کیونکہ یہ قرارداد قائداعظم کی 11اگست کی تقریر سے ہرگز مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ یوں 1953ءمیں شدت پسند ی کی لہر نے پنجاب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا لیکن اس وقت مشرقی پاکستان کا اکثریتی صوبہ ہمارے ساتھ تھا جہاں جاگیردارانہ سماج کی عدم موجودگی کی وجہ سے سیاسی روایتیں جڑ پکڑ رہی تھیں، یوں یہ شدت پسندی مزید نہ بڑھ سکی۔ دانشوروں کا خیال ہے کہ وہ ریاست سے تو لڑ سکتے ہیں لیکن جب پورا سماج ہی اس شدت پسندی کی لپیٹ میں آجائے تو اس کی مزاحمت کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ ضیاء الحق نے اپنے اقتدار کو طول دینے اور امریکی آقائوں کو خوش کرنے کیلئے افغانستان اور کشمیر میں ان شدت پسندوں کو اپنے قومی اثاثے کے طور پر استعمال کیا اور یوں یہ عناصر سماجی حقیقت بننے کیساتھ ساتھ ہماری فوج کے مستقبل کا اثاثہ بھی بن گئے جسے بعد میں ریاست نے مختلف مواقع پر محفوظ اثاثوں کے طور پر استعمال کیا۔

دوسری طرف یورپ میں بھی ایسا ہی فرقہ ورانہ تشدد 1618سے لیکر 1648تک جاری رہا جس میں لاکھوں لوگ مارے گئے اور املاک کو شدید نقصان پہنچا لیکن اس کے بعد اس سماج نے اس مذہبی فرقہ واریت سے ہمیشہ کیلئے جان چھڑانے کیلئے سیکولر اسٹیٹ کا تصور دیا جس میں ریاست کا مذہب سے تعلق ختم کر دیا گیا اور یوں بادشاہِ وقت کسی ایک مذہبی فرقہ سے مل کر اپنے اقتدار کو طول دینے کے قابل نہ رہا اور یوں مذہبی رواداری کا بول بالا ہوا۔ اس کے بعد صنعتی انقلاب نے یورپ کو تحقیق اور علم کے راستوں پر ڈال دیا۔ کیا اس بات کے امکانات ہیں کہ پاکستان بھی اسی عمل سے گزرے اور کیا سرمایہ داری اور صنعتی ترقی ہمارے سماجی رشتوں کو بدل دے گی اور کیا جمہوری ادارے اور سیاست روایتی فرقہ ورانہ شناخت کو کمزور کر پائیں گے؟ پاکستان کی تاریخ شاہد ہے کہ یہاں عسکری اداروں، جاگیرداروں، سجادہ نشینوں، قبائلی سرداروں اور مذہبی فرقہ ورانہ قوتوں کے درمیان ایسا زبردست رشتہ ہے جو ایک دوسرے کو سہارا دیے ہوئے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ عمران خان نے تحریک لبیک کو چھ ماہ پہلے کالعدم قرار دیا اور پھر یوٹرن لیتے ہوئے نہ صرف انہیں مین اسٹریم سیاست میں حصہ لینے کی اجازت دی بلکہ اگلے الیکشن میں تحریک لبیک کیساتھ ملکر سیاسی جدوجہد کا عندیہ بھی دیا۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں اور انتظامیہ کو پاکستانی معاشرے میں مذہبی رواداری حاصل کرنے کی کوئی جستجو نہیں ہے۔ اگر پاکستان کو اکیسویں صدی میں ایک جمہوری، آئینی ملک بننا ہے تو سیکولر روایتوں اورجمہوری اداروں کو آئین کے مطابق قائم کرنا پڑے گا جو مساوی بنیادوں پر تمام شہریوں کو متحد کرکے اسکے سماجی، سیاسی اور معاشی رشتوں کو مضبوط کرے اور یوں اس سماجی ہم آہنگی سے ایسی مشترکہ ثقافت پیدا ہوجو کسی بھی قوم کی شناخت کیلئے ضروری ہوتی ہے۔

تازہ ترین