گزشتہ چند سالوں سے عید کے موقع پر بچوں میں نئے نویلے کپڑوں، شوخ رنگ گھڑیوں، چشموں اور جوتوں کے ساتھ ساتھ کھلونا ہتھیاروں کی خریداری کے رجحان میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس عید پر نماز عید سے فارغ ہوکر جب میں نے اپنے مرحوم والد اور بہن کی قبروں پر فاتحہ کیلئے قبرستان کا رخ کیا تو راستے میں عید کے کپڑوں میں ملبوس سیکڑوں بچے اپنے ننھے ہاتھوں میں اصل جیسی نظر آنے والی کھلونا پستولوں، کلاشنکوفوں اور بندوقوں سے لیس نظر آئے جو ٹولیوں کی شکل میں ان کھلونا ہتھیاروں سے ایک دوسرے پر فائرنگ کا بھرپور مظاہرہ کر رہے تھے۔ ان بچوں کی چال ڈھال، لب و لہجہ اور کھلونا ہتھیاروں کو چلاتے ہوئے ان کے چہرے پر ابھرنے والے تاثرات سے یہ بآسانی اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ وہ خود کو کسی ”دہشت گرد“ کے کردار میں ڈھالنے کی کوشش کر رہے ہوں۔ اس طرح جن بچوں کے ہاتھوں میں کبھی روایتی کھلونے ہوا کرتے تھے، آج ان کے ہاتھوں میں کھلونا ہتھیار تھما دیئے گئے ہیں۔
پاکستان میں گزشتہ چند سالوں کے دوران کھلونا ہتھیاروں کی فروخت میں 70 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ ملک کے مستقبل کے معماروں میں کھیلوں سے متعلق چیزوں اور روایتی کھلونوں میں دلچسپی کم اور کھلونا ہتھیاروں کی خریداری میں دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے۔ اس سے قبل بچوں میں پانی والی بندوقیں یا پستولیں (واٹر گنز) مقبول تھیں مگر اب ان کی جگہ کھلونا ہتھیاروں نے لے لی ہے۔ یہ ہتھیار زیادہ تر چین سے درآمد کئے جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق عیدالفطر کے موقع پر چین سے تقریباً 6 کروڑ روپے کے کھلونا ہتھیار درآمد کئے گئے۔ کراچی شہر میں کھلونا ہتھیاروں کے 10بڑے تاجر خصوصی آرڈر پر یہ ہتھیار جن میں ٹی ٹی پستول، ریوالور، کلاشنکوف، ایل ایم جی، رپیٹر، لیزر گنیں، ماؤزر اور دیگر ہتھیار شامل ہیں چین سے درآمد کرکے مارکیٹ میں سپلائی کر رہے ہیں جو ملک کے ہر شہر اور گلی محلوں کی دکانوں میں کھلے عام فروخت ہورہے ہیں۔ ان ہتھیاروں میں سب سے زیادہ مقبول کلاشنکوف ہے جس کی قیمت 500 سے 1000 روپے کے درمیان ہے۔ کھلونا ہتھیاروں کو اصل سے قریب تر بنانے کیلئے ان میں اصلی ہتھیاروں کے لگ بھگ تمام فنکشنز رکھے جاتے ہیں، اس طرح ان کے نقلی ہونے کا شبہ نہیں ہوتا، اسی لئے رہزنی اور ڈکیتی کی وارداتوں میں کھلونا ہتھیاروں کے استعمال ہونے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔ بعض کھلونا بندوقوں میں لیزر لائٹس بھی نصب ہیں جو رات کے اوقات میں ٹھیک نشانہ لگانے میں مدد دیتی ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کھلونا ہتھیاروں کی مانگ میں بے پناہ اضافے کے باعث پلاسٹک کی مصنوعات بنانے والی مقامی فیکٹریوں نے بھی کھلونا ہتھیاروں کی تیاری شروع کردی ہے۔ ان ہتھیاروں میں استعمال ہونے والے چھرے کئی فٹ تک اپنے ہدف کو بآسانی نشانہ بناسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے عید کے موقع پر ان ہتھیاروں میں چھروں کے استعمال کی وجہ سے کئی افراد کے زخمی ہونے کے واقعات رونما ہوچکے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق ملک بھر میں چھروں سے زخمی ہونے والے بچوں کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔ آنکھوں کے ایک مقامی اسپتال کے مطابق عید کے دنوں میں کھلونا ہتھیاروں میں استعمال ہونے والے چھرے آنکھوں پر لگنے سے کئی بچوں کی بینائی بھی ضائع ہوئی ہے۔ کھلونا ہتھیاروں کے نقصانات سے عام طور پر بچوں کے والدین بھی آگاہ ہیں لیکن شاید وہ یہ نہیں جانتے کہ اگر آج ہم اپنے بچوں کو نقلی ہتھیار خرید کر دیتے ہیں تو یوں ہم اپنے بچے کی ابھی سے یہ تربیت کر رہے ہیں کہ ان ہتھیاروں میں گولیاں کس طرح بھری جاتی ہیں اور فائر کس طرح کیا جاتا ہے، اس طرح ان کھلونوں کی پریکٹس سے وہ نہ صرف بڑے ہو کر اصل ہتھیار چلانے کے قابل ہوجائے گا بلکہ اس کا ذہن بھی تشدد پسندی کی جانب مائل ہوگا۔
کھلونا ہتھیار نہ صرف نفسیاتی طور پر بچوں پر برے اثرات مرتب کر رہے ہیں بلکہ ماہرین کے مطابق کھلونا ہتھیاروں کی بچوں میں مقبولیت معاشرے میں عدم برداشت اور شدت پسندانہ رویوں کے پھیلاؤ کا مظہر ہے۔ بچے کسی بھی ملک کے معمار ہوتے ہیں لیکن اگر بچپن سے ہی وہ کھلونا ہتھیاروں کے عادی ہو جائیں گے تو بڑے ہوکر یہی بچے طاقت کے حصول کیلئے کسی دہشت گرد تنظیم سے بھی منسلک ہو سکتے ہیں یا اسلحہ سے لیس ہو کر جرائم کی دنیا میں کسی گینگ کا حصہ بھی بن سکتے ہیں۔ نئی نسل میں کھلونا ہتھیاروں کا بڑھتا ہوا رجحان ایک تشویشناک امر ہے۔ ہمیں تشدد پسندی کی طرف نئی نسل کے اٹھتے ہوئے قدم روکنا ہوں گے جس کیلئے پورے ملک خصوصاً بڑے شہروں میں بچوں میں بڑھتے ہوئے منفی رجحانات کی روک تھام کیلئے حکومتی سطح پر قانون سازی کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت سے میری اپیل ہے کی کہ کھلونا ہتھیاروں کی روک تھام کیلئے اقدامات کرے اور دہشت گردی کے موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے مقامی سطح پر کھلونا ہتھیار تیار کرنے والی فیکٹریوں اور بیرون ملک سے ان کی درآمد پر پابندی عائد کرے۔ والدین کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کیلئے کھلونوں کا انتخاب کرتے وقت انتہائی احتیاط سے کام لیں۔ اُنہیں چاہئے کہ وہ بچوں کیلئے ایسے کھلونوں کا انتخاب کریں جو اُن کی تصوراتی و منطقی سوچ کو بڑھانے میں مدد دیں اور ان کی ذہنی و جسمانی استعداد میں اضافے کیلئے کارآمد ثابت ہوں۔ اگر آج ہم اپنے بچوں کے ہاتھوں میں کھلونا ہتھیار تھمائیں گے تو کل مستقبل میں وہ اصل ہتھیار اٹھانے سے گریز نہیں کریں گے جس سے انارکی اور انتشار کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ بچوں کو کھلونا دیجئے لیکن اُنہیں کھلونا ہتھیاروں کے ذریعے منفی رویوں کے ہاتھوں کھلونا نہ بننے دیجئے۔