• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ جمعرات اسلام آباد کے جناح ایونیو پر ریڈ بُل اور سَتُوالیون کے درمیان ہونے والا ”ملاکھڑا“ دیکھنے کے بعد آپ بھی میری طرح یقیناً افسردہ ہوئے ہوں گے ۔ بات توتھی رسوائی کی مگر دل چھوٹا نہ کیجیے کیونکہ اس میچ کے تمام شرکاء نے بڑے دل گردے کا مظاہرہ کیا۔ ان پانچ گھنٹوں میں ملک سکندر نے ریڈبُل پی کر اپنی ٹیم کی جارحانہ قیادت کی، جس میں ان کی اہلیہ، دو بچوں اور دو گنوں نے حصہ لیا۔ دوسری طرف مخالف ٹیم سَتُوپیئے اپنے موٹو مدد عوام کی پاسداری کرتے ہوئے نہایت صبراور حوصلے سے ریڈ بُل کے اردگرد پھرتی رہی۔ میچ کے دوران میڈیا نے سکندر کو مقدر کا سکندر قرار دیا اور کچھ چینلز نے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک صاحب کو چہل قدمی کرتے ہوئے براہِ راست ناظرین سے ملوایا۔ ٹاک شوز میں ریٹائرڈ سویلین اور فوجی ماہرین گاہے بگاہے اپنی ماہرانہ رائے سے عوام کو مستفید کرتے رہے۔کئی حضرات اسٹوڈیو کے کمرے میں ڈاکٹر رضوان کا روپ دھارکر شاعرانہ انداز میں کچھ یوں بولے ” میں اور میری تنہائی اکثر یہ سوچتے ہیں کہ میں ہوتا تو ایسا ہوتا، میں جو یہ کرتا تو کیسا ہوتا،وہ جو یہ نہ کرتا تو کیسا ہوتا؟“۔ موقع پر موجود ہجوم نے رفتہ رفتہ سکندر اور پولیس دونوں کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔ نبیل گبول اور زمرد خان کی آمد کے بعد یہ مجمع سیاسی گھیراؤ کی شکل اختیار کر گیا۔اس نزاکت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے PTIکے ایک معتبر کارکن نے موبائل پراسد عمر (جو اسلام آباد سے ضمنی انتخاب لڑ رہے ہیں) سے رابطہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ بھی یہاں آکر اپنی سیٹ کھری کر لیں کیونکہ حکومتی جماعت تو ویسے بھی نرغے کی نذر ہو چکی تھی۔ افسوس کہ موبائل بند ہونے کی وجہ سے اسد عمر ہیرونہ بن سکے اور ان کی جگہ زمرد خان نے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ بس کود پڑے آتشِ نمرود میں۔ چند لمحوں کی بُل فائیٹ کے بعد زمرد اور سکندر دونوں سڑک پر چت ہوئے ۔ پھر پولیس کی طرف سے جشنِ آزادی کی آتش بازی کا مظاہرہ دیکھنے کو ملا جس کے نتیجے میں سکندر پولیس کے کاندھوں پر اور شیر ببر عوام کے کاندھوں پر۔اس کے بعد سکندرVentilator پر اور زمرد ٹی وی پر۔ زمرد خان کے ایکشن پر کچھ چینلز نےSMSکے ذریعے رائے شماری شروع کر دی جہاں 1دبانے سے بہادری اور 2سے حماقت کو ووٹ دیا جا سکتا تھا۔ اس رائے عامہ میں شرکت سے عوام کی جیب تو خالی ہوئی مگر کسی اور کی ضرور بھری۔قارئین کرام! یہ تو تھا اس کھیل کا آنکھوں دیکھا حال اب اس پر میرا تجزیہ بھی پڑھ لیں۔ میری ناقص رائے میں یہ قصہ، بہت سے ایسے اور قصوں کی طرح ہمارے کھوکھلے عمل کا منہ بولتا ثبوت ہے جو ہمارے کردار کی بحیثیت قوم نشاندہی کرتا ہے۔ ہماری فرض شناسی گمشدہ اور پیشہ ورانہ صلاحیت لاپتہ ہے! سخت سے سخت سانحہ ہوجائے اس پر ایک دو روز واویلا اور اس شور میں اپنا اپنا اُلو سیدھا کرنا، تیسرے روز سب اچھا اور پھر نئے سانحے کا انتظار۔ پولیس کو بُرا بھلا کہنا آسان ہے اور حکومت وقت کو آڑے ہاتھوں لینا اس سے بھی زیادہ آسان مگرکیا ان قائدین سے پوچھ گچھ نہ ہو جو اس فورس کی پیشہ ورانہ مہارت کے ذمہ دار تھے یا اب ہیں۔ کتنے ”بنی گالہ“ نامی گرامی اسلام آباد کے سربراہ آئے ، وردیاں نئی ہوئیں، نئی نئی کاریں آئیں، اخلاق کی درستی ہوئی، ناکے پر ناکہ لگا مگر سب دھرے کا دھرا رہ گیاکیونکہ ایمرجینسی کی نہ تو ٹریننگ ہے ، نہ سازوسامان، نہ ہی وقت اور نہ ہی سوچ ۔ بد قسمتی سے ہماری پولیس وردی تو جدید پہنتی ہے مگر سوچ قدیم رکھتی ہے ۔ ہماری "Crisis Management"کی سوچ بھائی فَضلُو جیسی ہے جو کام کے وقت جوتے کی تلاش میں لگ جاتا ہے۔ سوال اُٹھائے گئے کہ یہ شخص داخل کیسے ہوا؟ جواب بڑا سادہ۔ سکندر اسلحے کی دھونس سے داخل ہوا اور زمرد خان نے رتبے کی دھونس سے پولیس کی ہوائی حد بندی عبورکی۔ محترم وزیرداخلہ نے جرأت مندانہ انداز میں اپنے احکامات کا اعتراف اور دفاع کیا جو قابل قدر ہے مگر ذرا سوچیے کہ کیا بر طانیہ کی پولیس لندن میں کسی جرم سے نمٹنے کے لےئے احکامات وہاں کے میئر یا ہوم سیکرٹری سے لے گی؟ قطعاً نہیں کیونکہ جرم کا تعاقب اور اس کا پیشہ ورانہ فیصلہ پولیس کا ہی ہوگا۔ جب سکندر نے گاڑی ناکہ توڑ کر دوڑائی تو آپ کیا توقع رکھتے ہیں کہ ناکے پر تعینات پولیس سائیکل یا موٹر سائیکل پر اس کا تعاقب کرتی؟ مجھے یقین ہے کہ ان کے پاس اگر ہتھیار، آلات، ٹریننگ اور فیصلہ کرنے کی خود اعتمادی ہوتی تو وہ اس کو احکامات ملنے سے پہلے ہی دبوچ لیتے۔ زمرد خان کی بہادری یا حماقت کی فضول اور لاحاصل بحث پر میرا نقطہٴ نظر یہ ہے کہ موصوف نے بالکل درست کہا کہ سب کچھ ان سے اللہ نے کروایاکیونکہ کوہاٹی چپلوں میں ان کا یک لخت شیر کے سامنے کود جانا یقیناً جان لیوا ہو سکتا تھا۔ ان کی تیاری او ر ہوشیاری سے تو یہی لگا کہ یہ بہادری بھی تھی اور حماقت بھی! ان کے حق میں ایک قصہ بیان کرتا ہوں۔ بحری فوج کی آبدوز کا ایک نڈر کمانڈر اپنی آبدوز کو بغیر اجازت سمند ر سے لے اڑا۔ موصوف نے آبدوز کو د شمن کی بندرگاہ میں کچھ روز غوطے میں رکھا اور اہم معلومات حاصل کرکے لوٹا۔واپسی پر بحریہ کے سربراہ کو ٹیلیکس کے ذریعے گمشدہ آبدوز کی واپسی بمع اہم معلومات، کی اطلاع دی گئی جس پرانہوں نے اپنے ساتھ بیٹھے غیر ملکی کمانڈر ان چیف سے مشورہ کیا کہ اگر ان کی بحریہ میں یہی واقعہ پیش آتا تو ان کا ردعمل کیا ہوتا۔ وہ بولے"I would give him the highest gallantry award and then court marshal him"قارئین کرام! اسلام آباد کی پولیس اور حکومت وقت بجا طور پر زیرعتاب ہیں مگر ذرا غور فرمائیے اگر یہی ایکشن جلد لے لیا جاتا اور اس کے نتیجے میں سکندر زخمی ہوتا یا جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا تو پھر پولیس اور حکومت جلدبازی اور طیش کی مرتکب ٹھہرائی جاتی جس کا نعرہ میڈیا اور عوام بھی لگاتے۔ محکمانہ انکوائری بھی ہوتی اور سوموٹو بھی لیا جاتا۔ بد قسمتی سے ہماری پولیس کے قائدین کی قوت فیصلہ، سیاسی، قانونی، سماجی اور میڈیائی دباؤ کی بدولت مفلوج اور ماؤف ہو چکی ہے۔ یہ سچ ہے کہ حال تو ہر ادارے کا کم وبیش یہی ہے بس بچا وہی ہے جو اس آزمائش سے بچ گیا۔ اب حکومت وقت کو چاہیے کہ وہ تمام ملک کی پولیس کو وسائل مہیا کرے تاکہ وہ اپنا پیشہ ورانہ قبلہ درست کر سکے۔ یہ سب کچھ تبھی ممکن ہوگا جب پولیس کے اہم عہدوں پر ایسے پیشہ ورافسران (جنکی محکمے میں کوئی کمی نہیں) تعینات کیے جائیں جو جی حضوری کی بجائے اپنی ساکھ کو بہتر بنانے کے لیے عملی اقدام کرنے میں تاخیر نہ کریں۔ میں اُمید کرتا ہوں کہ ہماری حکومت اور عوام اس ضمن میں ہماری پولیس فورس سے تعاون کریں گے۔ اللہ ہماری پولیس کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
تازہ ترین