• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رمضان المبارک کا مہینہ روزوں، تراویح، شبینوں، اعتکاف اور خصوصی عبادات کا مہینہ ہے۔ ہم نے اس کو خریداری کا مہینہ بنا لیا ہے۔ اسٹیٹ بینک نے 194/ارب روپے کے نئے نوٹ جاری کئے۔ بینکوں سے اربوں کی رقوم نکالی گئیں۔ جس ملک میں انسانوں کی صحیح تعداد معلوم نہ ہو وہاں خریداری وغیرہ مصارف کا علم کسے ہوتا ہے؟ پھر بھی یار لوگوں نے قیاسات کے گھوڑے دوڑائے، تخمینے اور اندازے لگا کر بتایا کہ 700/ارب روپے کا کاروبار ہوا اور اس کا بڑا حصہ چاند رات میں صرف ہوا۔ سال میں 12 چاند راتیں آتی ہیں، گیارہ کا تو پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب آئیں اور کب گزر گئیں مگر عیدالفطر کی چاند رات کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔ گو اشتہاری تیکنیک سے نئے نئے ملبوسات، نئے نئے ڈیزائن کے مردانہ، زنانہ اور بچگانہ جوتوں، دس سے 50 فیصد رعایتی سیل کے اعلانات سے جہاں ایک طرف حضرات مساجد میں اور بزرگ خواتین کمروں کے کونوں میں اعتکاف میں بیٹھتی ہیں وہاں نئی نسل اور خواتین بازاروں میں خریداری کرتی ہیں۔ کچھ لوگ اپنی خریداری چاند رات ہی کو کرتے ہیں حالانکہ اس شام بعض چیزیں مہنگی بھی ہو جاتی ہیں۔
چند سال پہلے تک اس رات مردوں کا دھاوا درزیوں کی دکانوں، لانڈریوں اور حجامت خانوں تک ہوتا تھا اور خواتین کا چوڑیوں اور بیوٹی پارلرز میں مہندی لگوانے کیلئے اب خواتین بیوٹی پارلرز کا رخ مہندی لگوانے کے لئے نہیں کرتیں، اب وہاں مہندی نہیں لگائی جاتی بلکہ بال تراشی اور ان کے نئے نئے انداز، ناخنوں کی تراش خراش اور ان پر پالش اور چہرے کو نکھارنے والے سنگھار کیلئے دو ہزار سے پانچ ہزار معاوضہ وصول کیا جاتا ہے۔ کچھ خواتین ملبوسات اور جوتوں کی دکانوں کا رخ کرتی ہیں۔ خریداری سے زیادہ وقت پسندیدگی اور میچنگ کو دیا جاتا ہے۔ استعمال کی دوسری اشیاء کے ساتھ خواتین کے بیگز اور پرس زیادہ خریدے جاتے ہیں، زیورات کی دکانوں پر اکا دکا خریدار ہی آتے ہیں کیونکہ اندیشہ یہ ہوتا ہے کہ دکان سے نکلتے ہی کوئی رہزن پیچھے نہ لگ جائے اور موقع دیکھتے ہی ہاتھ کی صفائی نہ دکھا جائے۔ سب سے زیادہ بِکری ٹھیلے اور پتھاریداروں کی ہوتی ہے جن کے پاس مصنوعی زیورات، آرائش اور سنگھار کا سامان جیسے طرح طرح کے بندے، انگوٹھیاں، چھلّے، ریشمی کمربند اور چوٹیاں، مختلف ڈیزائن کے بالوں کے کلپس، سستے پرفیوم اور پاؤڈر، لپ اسٹکس، کریم، درجنوں چھوٹی موٹی چیزیں وغیرہ فروخت کیلئے موجود ہوتی ہیں۔ یہاں خواتین اور بچوں کا رش ہوتا ہے۔ دراصل ان تمام بازاروں اور شاپنگ سینٹروں پر خواتین اور نوجوان لڑکیاں چھائی ہوئی نظر آتی ہیں۔ مرد حضرات یا تو بطور محافظ ہوتے ہیں یا پھر نوجوان تفریح کی غرض سے گھومتے نظر آتے ہیں۔ البتہ ان کی اکثریت بیکریز اور مٹھائی کی دکانوں کا رخ کرتی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کیک اور مٹھائیاں مفت تقسیم ہو رہی ہیں۔ دراصل شیر یا شیرخرما کی روایت دم توڑتی نظر آ رہی ہے۔ اس کے بجائے اب میزوں پر چھوٹے بڑے کیک، طرح طرح کی مٹھائیاں، چکن سموسے، پیسٹریز اور کچوریاں نظر آتی ہیں۔ غریب غربا سویّاں ابال کر اور ان میں میٹھا ڈال کر عید منا لیتے ہیں۔
دوسری طرف کراچی کے تجّار کو شکایت ہے کہ رواں سال کا عید سیزن مایوس کن رہا۔ عید پر فروخت کیلئے تیار کیا جانے والا مال 60 فیصد کے قریب فروخت نہ ہو سکا۔ رمضان المبارک کے پہلے عشرے میں بازاروں میں آنے والا ریلا مصنوعی ثابت ہوا۔ یہ صرف اشیائے فروخت کی چمک دمک دیکھنے آتا تھا۔ ہماری فروخت کا ہدف 50/ارب روپے تھا مگر یہ خواب پورا نہ ہو سکا۔ اگرچہ دہشت گردی نے پورے ملک کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے مگر کراچی ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، قبضہ گیری، اغواء برائے تاوان میں سرفہرست ہے۔ اس وجہ سے خوشحال گھرانے خریداری سے ہچکچاتے رہے۔ ہمیں تو یہ پریشانی لاحق ہے کہ مال لینے والوں کی ادائیگی کس طرح کریں گے؟ رعایتی سیل کے اعلانات کے باوجود خریداری میں تیزی نہ آ سکی۔ البتہ رہزنوں، لٹیروں،جیب کتروں، پولیس اہلکاروں، ٹیکسی اور رکشے والوں کے ساتھ گداگروں کی چاندی ہو گئی۔
دراصل یہ سمجھنا کہ صارفین کی قوت خرید کم ہو گئی ہے، صحیح نہیں۔ ان کی قوت خرید میں تو کافی اضافہ ہوا ہے۔ ملک میں معاشی لحاظ سے تین طبقے تھے اور اب بھی یہی طبقے ہیں۔ خوشحال طبقہ، متوسط آمدنی والا طبقہ اور غریب طبقہ۔ پاکستان کے قیام کے بعد آہستہ آہستہ متوسط طبقے کی آمدنی میں اضافہ ہوتا رہا۔ غریب طبقے سے لاکھوں افراد اس طبقے میں منتقل ہو گئے جیسے ڈرائیور، کمپاؤنڈر، فزیولوجسٹ، نرسیں، گریڈ ایک سے 17 والے سرکاری ملازمین، ٹائپسٹ، کمپیوٹر آپریٹر، منشی، کاتب وغیرہ۔ ہنرمندوں نے اپنے معاوضے بڑھا دیئے جیسے ہر طرح کے مکینک، ترکھان، معمار، حجّام، گھریلو ملازمین، نقشہ نویس، فوٹو گرافرز، راج گیر وغیرہ۔
دیہات میں چھوٹے کاشت کاروں کو غریب تصور کیا جاتا ہے۔ یہ گندم، چاول کی کاشت کرتے تھے اور حاصل شدہ اجناس فروخت کیا کرتے تھے اور اپنے کھانے کیلئے مکئی، جوار، باجرہ کی فصلیں کاشت کرتے تھے جن کو ادنیٰ غلّہ کہا جاتا ہے۔ آج ادنیٰ غلّہ بھی اعلیٰ غلّہ بن گیا ہے اور دوسری فصلوں کی قیمتوں میں کافی اضافہ ہو چکا ہے۔ سندھ میں سو کلوگرام (ڈھائی من) گندم کی قیمت 3,450 روپے مقرر کی گئی ہے۔ کپاس اس سے بھی زیادہ مہنگی ہو گی۔ سندھ میں پنجابی کپاس کی قیمت 7,000 روپے فی من تک پہنچ گئی ہے۔ کاشتکار تو ان قیمتوں سے نہال ہو گئے ہیں اور وہ شہریوں سے اچھے ہیں کیونکہ دیہات میں معیار زندگی شہروں سے کم ہوتا ہے اور صارف کی حیثیت سے بھی وہ شہریوں سے بہتر حالات میں ہیں۔ بہرحال رمضان یا چاند رات کو خریداریوں میں جتنی بھی رقم صرف ہوئی اس کا بڑا حصّہ خواتین کے ہاتھوں صرف ہوا اور آئندہ بھی صارف کی حیثیت سے انہی کا پلّہ بھاری رہے گا۔ گو اس میں تھوڑا بہت اسراف کا پہلو شامل ہے اور خواتین بھاؤ تاؤ کرنے میں بھی شہرت رکھتی ہیں۔ اس طرح ایک متوازن صارف کا کردار ادا کرتے ہوئے ملکی معیشت کی ترقی کا سبب بن جاتی ہیں۔
تازہ ترین