• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عالمِ اسلام موجودہ دور میں ایسی تباہی اور بربادی سے دوچار ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ افغانستان کی دہشت گردی اور انتہا پسندی نے اگر پاکستان میں ڈیرے ڈال دیئے ہیں تو دیگر اسلامی ممالک خانہ جنگی کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ کسی بھی اسلامی ملک کے رہنما کو اتنی قوت اور اختیار حاصل نہیں کہ وہ اپنے ملک میں امن و امان قائم کرنے کے ساتھ ساتھ عالم اسلام کو بھی سکھ کا سانس لینے کا موقع فراہم کرے۔ اسلامی رہنما عالم ِ اسلام کے مظلوم عوام میں اس لئے دلچسپی نہیں لیتے ہیں کہ ان کو خود اپنے ہی ملک میں اپنے عوام کی پشت پناہی یا حمایت حاصل نہیں ہوتی۔ اسی لئے یہ رہنما صرف اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے مغربی ممالک کے ہاتھوں کٹ پتلی بنے رہتے ہیں۔ ایک یا دو اسلامی ممالک کو چھوڑ کر تقریباً تمام ہی اسلامی ممالک خاص طور پر مشرق وسطیٰ کے ممالک کے رہنما عوام پر ظلم و ستم ڈھاتے ہوئے مطلق العنانیت کے ذریعے اپنے اقتدار کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
عالم اسلام میں ترکی واحد ملک ہے جہاں پر مغربی ممالک کے معیار کے عین مطابق جمہوریت پر عملدرآمد کیا جا رہا ہے۔اگرچہ ماضی میں ترکی میں فوج نے سویلین حکومت پر اپنی گرفت قائم کئے رکھی لیکن موجود دور میں حالات یکسر تبدیل ہو کر رہ گئے ہیں اور اب مکمل طور پر اقتدار سویلین حکومت کے ہاتھوں میں ہے۔ ترکی کے موجودہ وزیراعظم رجب طیّب ایردوان عالم اسلام کے ایک ایسے رہنما ہیں جن کو صرف ترکی ہی میں نہیں بلکہ پورے عالم اسلام میں نہ صرف مقبولیت حاصل ہے بلکہ اب انہیں عالمِ اسلام کا نجات دہندہ بھی سمجھا جا رہا ہے کیونکہ انہوں نے عالم اسلام کے عوام کو جو زبان عطا کی ہے اور ان میں جو جوش و جذبہ ابھارا ہے اس سے اب عالم ِ اسلام کے عوام نے بیدار ہونا شروع کردیا ہے۔ وزیراعظم ایردوان نے مسلمانوں میں نئی روح پھونک دی ہے جس کی وجہ سے اب مسلمان اپنے اپنے ملک کے رہنماؤں پر نظرِیں لگانے کے بجائے ایردوان پر نگاہیں مرکوز کئے ہوئے ہیں کیونکہ وہ اس بات سے پوری طرح آگاہ ہیں کہ ”اگر کوئی مسلم رہنما مسلمانوں کے مفاد کی بات کرنے کے فن سے آگاہ ہے تو وہ بلاشبہ ایردوان ہی ہیں“۔ ایردوان مغربی ممالک کے رہنماؤں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے فن سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ کیا ہم نے نہیں دیکھا کہ ایردوان نے اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نتن یاہو، فرانس کے سابق صدر نکولس سرکوزئی اور جرمنی کی موجودہ چانسلر انگیلا مرکیل کے غرور کو خاک میں نہیں ملا دیا؟ اسرائیل جس نے اپنے قیام ہی سے فلسطینیوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور اب غزہ کا محاصرہ کررکھا ہے، کے خلاف کیا کسی اسلامی ملک نے آواز اٹھائی ہے یا کوئی قدم اٹھایا ہے؟ ہر گز نہیں، اگر کسی نے آواز اٹھائی اور ساتھ دیا تو یہ صرف ترکی کے رہنما ایردوان ہی ہیں۔ کیا کبھی کوئی مسلمان حکمران کشمیر کے عوام کی امداد کے لئے کشمیر پہنچا یا کبھی قدم رکھا؟ نہیں ہر گز نہیں۔ 2005ء میں پاکستان اور آزاد کشمیر میں آنے والے زلزلے کے بعد اگر کسی بھی ملک کے رہنما نے آزاد کشمیر کا دورہ کیا تو وہ ترکی کے وزیراعظم ایردوان ہی تھے۔ ایردوان حکومت نے جس طریقے سے پاکستان کے زلزلے کے متاثرین کی امداد کی اس کی دنیا بھر میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
وزیراعظم ایردوان نے جس روز سے اقتدار سنبھالا ہے انہوں نے اسی روز سے جمہوریت سے متعلق اصولی موقف اپنا رکھا ہے اور بلاامتیاز مظلوموں کا ساتھ دینے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ ترکی جو کہ متحدہ امریکہ کا ایک قریبی اتحادی ملک ہے، نے امریکہ سے متعلق بھی اپنے اصولی موقف میں ذرّہ بھر بھی کوئی تبدیلی نہ کی۔ ترکی پر امریکہ نے اس وقت شدید دباؤ ڈالا تھا جب امریکہ اپنی فوجیں عراق میں اتارنا چاہتا تھا لیکن ترکی کے وزیراعظم ایردوان نے امریکی دباؤ کی پروا کئے بغیر امریکی فوجیوں کو ترکی سے گزرنے کیاجازت نہ دے کر اسلامی ممالک کے رہنماؤں کے لئے ایک مثال تشکیل دے دی (مشرف نے اس سے بھی سبق حاصل نہ کیا تھا)تھی۔ ایردوان نے مصر کے بارے میں امریکہ اور مغربی ممالک کی پالیسی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے فوجی انقلاب کی مذمت کرنے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور یورپی یونین پر اپنی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”یہ ادارے اب اپنا چہرہ بھی آئینے میں دیکھنے کے بھی قابل نہیں رہے ہیں“۔ حکومت ترکی نے اسلامی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل اکمل الدین احسان اولو( جن کا تعلق ترکی ہی سے ہے) کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ وزیراعظم ایردوان نے جب سے ترکی میں اقتدار سنبھالا ہے انہوں نے مظلوم مسلمانوں کی طرف خصوصی توجہ دی ہے۔ صومالیہ جس کو دنیا کے تمام ممالک اور بین الاقوامی اداروں نے نظر انداز کررکھا تھا کی جانب اگر کسی اسلامی ملک نے امداد کا ہاتھ بڑھایا ہے تو وہ بلاشبہ ترکی ہی ہے۔ ادھر افغانستان میں نیٹو فورسز میں اگر کسی ملک کی فورسز کو افغان پسند کرتے ہیں تو ترک فوج ہی کے دستے ہیں کیونکہ وہ صدقِ دل سے افغانیوں کا ہاتھ بٹا رہے ہیں اور تعمیر نو میں ان کے شانہ بشانہ کام کررہے ہیں۔
اگر شام خانہ جنگی کا شکار ہے تو اس کی سب سے اہم وجہ شام کے صدر بشار الاسد خود ہی ہیں کیونکہ بہار ِ عرب کے آغاز ہی کے موقع پر ایردوان جن کے بشارالاسد کے ساتھ بڑے گہرے مراسم تھے( فیملی مراسم بھی قائم تھے)شام میں اصلاحات کو متعارف کرانے کی نصیحت کی تھی اور اس سلسلے میں اپنے پورے تعاون کا یقین بھی دلایا تھا لیکن بشارالاسد نے ایردوان کی تمام نصیحتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی ڈکٹیٹر شپ کو اپنے قوت بازو سے جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اگر بشار الاسد عقل و منطق سے کام لیتے تو ان کو اِن حالات کا سامنا نہ کرنا پڑتا لیکن ڈکٹیٹر آخری لمحات تک جب تک ان کے پاوٴں سے زمین نہیں سرک جاتی اپنے قوتِ بازو کے زعم ہی میں مبتلا رہ کر اقتدار کے جاری رہنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اس وقت ترکی جس کے سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات، بحرین اور قطر کے ساتھ بڑے گہرے روابط ہیں اور جنہوں نے مصر کی موجودہ حکومت کی نہ صرف مکمل حمایت کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے بلکہ مصر کو ہر ممکنہ مالی امداد فراہم کررہی تاکہ مصر پر کھلنے والے جمہوری دروازوں کو مکمل طور پرکھلنے سے قبل ہی بند کردیا جائے۔ اس موضوع سے متعلق ترکی اور ان عرب ممالک کے نظریات اور سوچ میں بڑا واضح فرق پایا جاتا ہے لیکن جہاں تک ایردوان کی بات ہے وہ جمہوریت پر یقین رکھنے والے بااصول انسان ہیں۔اسی لئے دنیا میں جہاں کہیں بھی جمہوریت کو نقصان پہنچایا جا رہا ہو یا سول حکومت کا تختہ الٹا جا رہا ہواٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ وزیراعظم ایردوان نے مصر میں سول حکومت کا تختہ الٹنے کے پہلے روز ہی سے مصر کی عبوری حکومت کو نشانہ بنا رکھا ہے اور مرسی کی حمایت کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ترکی واحد اسلامی ملک ہے جس نے مصر میں ہونے والے قتلِ عام کے بعد اپنے سفیر کو بھی مصر سے واپس بلا لیا ہے اور مصر کے ساتھ اپنی فوجی مشقوں کو بھی منسوخ کردیا ہے۔ ترکی کے مختلف شہروں میں گزشتہ کئی دنوں سے مرسی کے حق میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ وزیراعظم ایردوان کے ایک جملے سے مصر کی صورتحال کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے وہ کہتے ہیں ”مصر میں موسیٰ کے خوف سے فرعون ہمیشہ قتل کرتے چلے آئے ہیں اور اب بھی ایسا ہی کیا جا رہا ہے“۔
ترکی کے ایردوان دور سے قبل کبھی بھی اسلامی ممالک (پاکستان کو چھوڑ کر) سے اچھے تعلقات قائم نہیں رہے بلکہ ترکی ہمیشہ ہی اسلامی ممالک سے دور رہنے ہی میں اپنی عافیت سمجھتا رہا ہے لیکن یہ ایردوان ہی ہیں جنہوں نے تمام اسلامی ممالک کے ساتھ نہ صرف بڑے قریبی تعلقات قائم کئے بلکہ ترکی کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتے ہوئے ان تمام اسلامی ممالک کو (سلطنتِ عثمانیہ) عظمتِ رفتہ کی یاد دلاتے ہوئے ان کو گائیڈ لائن بھی فراہم کرنا شروع کر دیا۔ اس وقت وزیراعظم ایردوان عالمِ اسلام میں واحد رہنما ہیں جن کی مقبولیت اپنی سرحد پار کرتے ہوئے تمام اسلامی ممالک تک پہنچ چکی ہے بلکہ وزیراعظم ایردوان تقریباً تمام ہی اسلامی ممالک میں برسراقتدار رہنماؤں سے زیادہ مقبولیت حاصل کئے ہوئے ہیں جس کا اندازہ ان ممالک میں ایردوان کے حق میں ہونے والے مظاہروں سے لگایا جاسکتا ہے۔ خاص طور پر جب استنبول کے تقسیم اسکوائر کے گیزی پارک میں مظاہرے ہوئے تھے تو اس وقت تقریباً تمام ہی اسلامی ممالک میں ایردوان کے حق میں مظاہرے کئے گئے تھے۔ کیا کبھی مختلف اسلامی ممالک میں ایک ساتھ کسی دیگر اسلامی ملک کے رہنما کے حق میں مظاہرے دیکھے گئے ہیں؟ موجودہ دور میں ایسا اعزاز ترکی کے وزیراعظم ایردوان ہی کو حاصل ہے۔ایردوان نہ صرف ترکی کا بلکہ عالمِ اسلام کا ا نمول اثاثہ بن چکے ہیں۔
تازہ ترین