• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کشور حسین شاد باد کو آزاد ہوکر 66برس بیت چکے ہیں اور ان برسوں میں ہم چاہے کچھ بھی نہ ہوئے ہوں لیکن آزاد ضرور ہو گئے ہیں، کوئی بھی ایسا میدان نہیں ہے جس میں ہم آزاد نہ ہوئے ہوں ، دوسرے ملک جب آزاد ہوتے ہیں تو انہیں سیاسی آزادی حاصل ہوتی ہے لیکن ہم آزاد ہوئے ہیں تو ہم نے زندگی کا ہر گوشہ آزاد کرلیا ہے ، رہا سوال صحافت کا تو ہماری صحافت بھی بالکل آزاد ہے۔ سیاست میں ہم جتنے آزاد ہے اتنا آزاد دنیا کا کوئی بھی دوسرا ملک نہیں ہے ، سیاست میں ہم غیر ملکی غلامی سے ہی آزاد نہیں ہوئے ہیں بلکہ ہر پالیسی سے بھی آزاد ہوگئے یہاں تک کہ اپنے فیصلے کرنے سے بھی آزاد ہوگئے ہیں، ایسا کوئی اصول ، قاعدہ ، قانون اور اخلاقیات نہیں جس سے ہم آزاد نہ ہوئے ہوں۔ ایسا کوئی اصول، آدرش، منطق ، عذر اور جواز نہیں جس سے ہم آزاد نہ ہوئے ہوں ۔ ہمارے بڑے سے بڑے رہنما کے بارے میں کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ جہاں ہے وہیں رہے گا کہ وہ آزاد ہے، جس پارٹی کانمک کھایا ہے اسی کا ساتھ نبھائے گا یا اب تک جس کی مخالفت کرتا ہے اس کی مخالفت کرتا رہے گا کہ وہ آزاد ہے۔ کوئی بڑے سے بڑا نجومی یاجوتشی بھی پتہ نہیں چلا سکتا کہ ہمارا لیڈر کب قلابازی کھائے گا، کب یوٹرن لے گا، کب فوج کاساتھ دے گا، کب خیمہ بدل لے گا کہ وہ آزاد ہے ۔ وہ جسے آج گالی دے رہا ہے شاید کل اسے گلے لگا لے اور آج جسے گلے لگا رہا ہے کل اس کا گلہ کاٹ دے ! مطلب یہ کہ ہمارے سیاسی رہنما اور آمر ملک کے مفاد کے خلاف جو بھی کرتے ہیں نہ انہیں کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ خطرہ ۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ جو کچھ کررہے ہیں اسے کرنے کی انہیں پوری آزادی ہے ، کس کی مجال ہے جو ان کی آزادی میں رکاوٹ بنے ۔ ہمارے سیاسی اور فوجی لیڈر آزادی سے کام کرنے کے اتنے عادی ہیں کہ ملک کی آزادی بھلے ہی خطرے میں پڑ جائے، بھلے ہی آدھا ملک گنوادیا جائے لیکن وہ اپنی آزادی کو ہرگز خطرے میں نہیں ڈالتے۔ جس ملک کے لیڈران کرام اتنے آزاد ہیں کہ انہیں آزادی کے علاوہ کچھ اور دکھائی نہیں دیتا تومان لینا چاہئے کہ ملک حقیقت میں آزاد ہے، ہماری اس آزادی کو دیکھتے ہوئے ہمارے ملک کا سرمایہ بھی آزاد ہے اور سرمایہ دار بھی ۔ پیسے اور سرمائے کے معاملے میں جو آزادی چور کو حاصل ہے وہی جیب کترے اور اسمگلر کو بھی ملی ہوئی ہے ۔ ہمارے ملک کا سرمایہ آزادی سے ادھر ادھر گھومتا ہے اسے پرہیز ہے تو صرف غریبوں سے ، مزدوروں اور کسانوں سے۔
بنکوں سے اربوں روپے معاف کرانے والوں سے نہیں جھجھکتا ، جو جتنا بڑا اسمگلر، جتنا بڑا منافع خور، جتنا بڑا کرپٹ ہے وہ اتنا ہی پیسے والا ہے۔ ہمارے وطن عزیز میں چور چوری کرنے کیلئے ، ڈاکو ڈاکہ ڈالنے کیلئے، اسمگلر اسمگلنگ کرنے کے کیلئے، تاجر کالا دھندا کرنے کیلئے تو افسررشوت لینے کیلئے آزاد ہیں۔ آپ چاہیں تو دوا میں زہر ملائیں یا دالوں مسالوں میں اینٹ پتھر یا آٹے میں ریت اس آزاد ملک میں آپ کوکوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔
آزادی کی کتنی ہی ایسی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں لیکن میں ہوں کہ ” اپنی آزادی “ کو کوس رہاہوں ، اپنے نظام زندگی کوکوس رہا ہوں جس میں خود غرضی ، لالچ ، جھوٹ ، فریب ، استحصال ، بنی نوع انسان کا جلال وقتال اور انتقام وعداوت روزمرہ کا معمول ہے ملک شاد باد کو قائم ہوئے چھیاسٹھ برس بیت گئے اس دوران پانچ دریاوٴں کے پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے ۔ آدھی صدی سے زائد بیت گئی ہم نے بہت کچھ دیکھا اور سنا ہے لیکن جو حاصل ہے وہ کیا ہے ، دشمنی ، جنگیں ، اسلحہ ، میزائل ، ایٹم بم ، ناداری ، استحصال ۔ افلاس ، جرائم ، جہالت ، انتشار ، دہشت گردی ، تعصبات ، توہمات ، انتہا پسندی ، مذہبی جنونیت ، عسکریت پسندی ، رشوت ، چوری ، ڈاکے ، اجتماعی خودکشی اور قتل وغارت۔ اس تناظر میں جب میں اپنی امن پسندی ، عقل پرستی ، سیکولرازم ، خیر سگالی ، اخوت ، عدم تشدد ، روشن خیالی اور خوشحالی کی خواہش کودیکھتا ہوں تو مجھے ہمسایہ بھارت کی یاد آتی ہے ، میں سوچتا ہوں کہ پاکستان میں بھی بھارت کی طرح جمہوریت ، رواداری ، امن پرستی سیکولرازم ، بھائی چارہ ، حقیقت پسندی ، وقار ، انسانی عظمت اور دیانتداری کی فضا کیوں ساز گار نہیں ہوسکتی؟
آج جب ملک عزیز میں جرائم ، جہالت ، بھوک ، لوٹ کھسوٹ ، دکھ درد اور تاریکیوں کاراج ہے ان حالات میں سیکولرازم ، افہام وتفہیم ، عدم تشدد ، بھائی چارہ ، خوشحالی ، شرافت ، عظمت ، عروج ، ترقی ، دیانتداری ، وقار ، شائستگی ، حقیقت پسندی ، عقل دوستی ، روشن خیالی ، ترقی پسندی اور امن پسندی کی اہمیت پہلے سے کہیں بڑھ جاتی ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم حالت جہاد میں رہنے کے بجائے ناداری ، افلاس ، جہالت ، جرائم اور مذہبی جنونیت کے خلاف جہاد شروع کریں لیکن سماج میں تبدیلی لانے کے بجائے حالات کو جوں کاتوں رہنے دینے میں ہی عافیت محسوس کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ارباب اختیار گزشتہ چھیاسٹھ برسوں سے ” فراہم کئے جائیں گے … اقدامات کریں گے … گامزن کیاجائے گا … حاصل کریں گے … آمدنی میں اضافہ ہوگا… توقع کرتے ہیں … صحت مندانہ ہوگی … حاصل کیاجائے گا … لایا جائے گا … توجہ دی جائے گی … سہولتیں دی جائیں گی … یقینی بنایا جائے گا … اقدام اٹھائے جائیں گے … شروع کئے جائیں گے… فراہم کی جائیں گی… خاتمہ کریں گے … کی جارہی ہے … پوری کریں گے … قائم کئے جائیں گے … کارروائی کی جائے گی … وغیرہ وغیرہ قسم کے راگ الاپے جارہے ہیں ۔ مندرجہ بالا یہ وہ جملے اور وعدے ہیں جو ہر وزیر یا حکومتی عہدیدار گاہے بگاہے دہراتا رہتا ہے ۔
میں اور میرے جیسے لوگ زندگی کواپنی ڈگر پر لانے کی سعی کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے تاکہ انسانیت امن اور خوشحالی کی طرف گامزن ہوکہ ہم میں زندگی کو حسین سے حسین تر بنانے اور دیکھنے کی آرزو اور اس سے لطف اندوز ہونے کی تمنا ہر حال میں باقی رہتی ہے ۔
متحد ہو تو بدل ڈالو نظام گلشن!
منتشر ہو تو مرو، شور مچاتے کیوں ہو
تازہ ترین