• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی کے تیسرے دور کا آغاز ہوا، آصف علی زرداری نے بےنظیر بھٹو کی ’’وصیت‘‘ کا سہارا لے کر نہ صرف بلاول زرداری کو پارٹی کا چیئرمین بنادیا بلکہ ان کے نام میں بھٹو کے لاحقے کا بھی اضافہ کر دیا۔ بعض حلقوں کی جانب سے اس ’’وصیت‘‘ کو متنازعہ بنانے کی کوشش بھی کی گئی لیکن وہ کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے، ’’ایک زرداری سب پہ بھاری‘‘ سبھی کو آصف علی زرداری کے فیصلے کے سامنے سرنڈر کرنا پڑا۔ انہوں نے بلاول بھٹو زرداری کو اپنا سیاسی جانشین بنا تو دیا ہے لیکن عملاً پیپلز پارٹی کی قیادت اپنے پاس ہی رکھی۔ یہ پاکستان کی واحد سیاسی جماعت ہے جو دو ناموں سے کام کر رہی ہے، ایک پاکستان پیپلز پارٹی جس کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری ہیں اور دوسری پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین، (الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ ہے) جس کے صدر آصف علی زرداری ہیں، گویا پارلیمانی پارٹی کی قوت آصف علی زرداری کے تابع ہے۔ سیاسی منظر پر بظاہربلاول نظر آرہے ہیں لیکن پس پردہ زرداری ہی پارٹی کے فیصلے کرتے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو اور بےنظیر بھٹو کے ادوار میں پیپلز پارٹی وفاقی جماعت ہونے کے ناطے چاروں صوبوں کی زنجیر تصور کی جاتی تھی لیکن جب آصف علی زرداری کا دور شروع ہوا تو اس کا حجم سکڑ کر سندھ کی حد تک محدود ہو گیا، کبھی پنجاب پیپلز پارٹی کا گڑھ تصور کیا جاتا تھا لیکن اب اس کے ٹکٹ لینے والوں کی تعداد میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ پیپلز پارٹی پر اتنا برا وقت کوئی آمر یا مخالف سیاسیجماعت نہ لا سکی بلکہ یہ سب کچھ کیا دھرا اپنوں کی وجہ سے ہے، جیسا کہ پارٹی سے ’’جیالا‘‘ کلچر ختم کر دیا گیا۔ جیالوں کی جگہ آصف علی زرداری کے ’’دوستوں‘‘ نے لے لی۔ 25جولائی 2018کے انتخابات میں دھاندلی کے بعد نواز شریف انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے لیکن آصف علی زرداری نے مارشل لا کے خطرات کے پیش نظر نواز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن کو پارلیمنٹ کا راستہ دکھایا۔ پی ٹی آئی کی حکومت کی ناقص کارکردگی نے ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا لیکن پیپلز پارٹی کی ’’بےاصولی‘‘ پر مبنی سیاست نے پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم کے راستے جدا کر دیے، آصف زرداری ’’ڈیل‘‘ کرنے میں بڑی مہارت رکھتے ہیں لیکن ان کی سیاست نے پیپلز پارٹی کی ’’کریڈیبلٹی‘‘ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ پیپلز پارٹی کا ماضی شاندار ہے، اس جماعت نے معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے ان لوگوں کواپنی پارٹی میں عزت و مقام دیا جنہیں جاگیر دار اپنے سامنے چارپائی پر نہیں بیٹھنے دیتے تھے، ان کو پارٹی میں عہدے اور ٹکٹ دئیے لیکن جب جاگیر داروں نے اس جماعت پر گرفت مضبوط کر لی تو اس کا عوام سے رابطہ کٹ گیا، آج کی پیپلز پارٹی میں شاید ہی کوئی لیڈر ہو جس نے ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ کام کیا ہو، سید قائم علی شاہ، سردار سلیم اور تاج حیدر اس وقت بقید حیات ہیں، گو قاضی سلطان محمود کا قد تو چھوٹا تھا لیکن وہ قد آور لیڈر تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو ان کا چینی وزیراعظم چو این لائی سمیت دیگر غیرملکی مہمانوں سے تعارف کراتے تھے۔ سردار سلیم جنہوں نے احمد مختار چوہدری کے پارٹی میں ’’جیالا‘‘ کلچر ختم کرنے کے بیان پر پیپلز پارٹی راولپنڈی کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا تھا، ان کو بھی پارٹی کی مین اسٹریم سے تو نکال دیا گیا لیکن وہ آج بھی پارٹی کے پرچم کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ سید نیئر حسین بخاری اگرچہ پیپلز پارٹی کے قیام کے وقت طالبعلم تھے لیکن پچھلے چار عشروں سے خطہ پوٹھوہار کے اس سپوت نے سرد گرم موسم میں پارٹی کا پرچم سربلند رکھا ہے اور وہ بلاول بھٹو کی پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل ہیں۔

اگر حاجی نواز کھوکھر کا ذکر نہ کریں تو اسلام آباد کی سیاست نامکمل ہوگی، ان کا شمار پیپلز پارٹی کے ان رہنمائوں میںہوتا ہے جنہوں نے اسلام آباد میں پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی، وہ پیپلز پارٹی اسلام آباد کے جنرل سیکریٹری رہےاور آخری وقت تک پیپلز پارٹی میں رہے، آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی تھے، ان کے ہونہار صاحبزادے سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر بلاول بھٹو زرداری کے ترجمان ہیں، ابرار رضوی کو بھی پارٹی کی چار آنے کی پرچی سے ابتدائی رکنیت حاصل کرنے کا اعزاز حاصل ہے، ذوالفقار علی بھٹو کا مزار پیپلز پارٹی کی قوت کا سرچشمہ ہے، ان کی برسی پر عرس کا سماں ہوتا ہے، ذوالفقار علی بھٹو کے شیدائی آج بھی ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘ کے نعرے لگاتے نظر آتے ہیں، فاطمہ بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو جونیئر ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی جانشین تھے لیکن حالات کے جبر نے دونوں بہن بھائیوں کو سیاسی منظر سے ہٹ جانے پر مجبور کر دیا ۔ ڈاکٹر غلام حسین آج آصف علی زرداری کی پیپلز پارٹی میں نہیں، وہ غنویٰ بھٹو کے ساتھ ہیں۔ تحریک انصاف پیپلز پارٹی کی بہت بڑی تعداد اپنے ساتھ لے گئی ہے، اس کا اندازہ این اے 133کے ضمنی انتخاب سے لگایا جا سکتا ہے جس میں تحریک انصاف کی قوت کا باعث بننے والے پیپلزپارٹی کے کارکنوں نے اپنا امیدوار نہ ہونے پر مسلم لیگ ن کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا۔ پیپلز پارٹی 2018کے انتخابات کے مقابلہ میں 6گنا زیادہ ووٹ ملنے پر جشن تو منا رہی ہے لیکن یہ مانگے تانگے کے ووٹ ہیں، پنجاب میں پیپلز پارٹی کا Come Backنہیں ہوا، خانیوال پی پی 206کا ضمنی انتخاب ہمارے سامنے ہے، ذوالفقار علی بھٹو نے ’’اسٹیٹس کو‘‘ ختم کرنے کے لئے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تھی لیکن آج بھی پیپلز پارٹی پر جاگیرداروں کا تسلط ہے؟ جاگیر دارانہ سیاست نے معراج محمد خان جیسے لیڈروں کو پارٹی سے نکل جانے پر مجبور کیا تھا۔ ڈاکٹر مبشر حسن اور اور شیخ محمد رشید جیسے انقلابی لیڈروں کی بات کسی نے نہیں سنی۔ آصف علی زرداری نے اپنے دورِ صدارت میں تمام اختیارات پارلیمان کے سامنے سرنڈر کر دیے اور ملک کی تاریخ میں ایک بار پھر پارلیمانی نظام بحال ہوگیا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ 18ویں ترمیم منظور کرانے کے باب میں مسلم لیگ(ن) تعاون نہ کرتی تو سرحد کا خیبر پختونخوا نام رکھا جا سکتا تھا اور نہ ہی تیسری بار وزیراعظم بننے پر پابندی ختم ہوتی، اِس آئینی ترمیم سے ہی ملک میں صوبائی خود مختاری کا مسئلہ حل ہو گیا، ذوالفقار علی بھٹو معاملہ فہم، بہادر اور عوام کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے لیڈر تھے، ذوالفقار علی بھٹو کا بڑا کارنامہ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کے منصوبہ کا سنگِ بنیاد رکھنا اور دوسرا کارنامہ 7ستمبر 1974کو قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دینا ہے، اِن اقدامات نے ان کی عاقبت سنوار دی ہے۔

تازہ ترین