• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بات چیت : عالیہ کاشف عظیمی

شوبز انڈسٹری سے وابستہ باصلاحیت اداکار یاسر حسین نے 16برس کی عُمر میں اپنے کیرئیر کا آغاز تھیٹر سے کیا اور اب وہ ڈراما ’’کوئل‘‘ کے ذریعے ہدایت کاری کی دُنیا میں بھی قدم رکھ چُکے ہیں۔اس پورے سفر میں انہوں نے بطور میزبان، اداکار، کامیڈین اور لکھاری خُوب کام یابیاں سمیٹیں اور سمیٹ رہے ہیں۔ اگرچہ یاسر نے چھوٹی/ بڑی اسکرین پر سلیکٹڈ کام ہی کیا، مگر ان کے فالووورز کی تعداد2ملین تک ہے۔

ان کے مشہور ڈراموں میں’’دریچہ‘‘، ’’کوک کہانی‘‘ ،’’شادی مبارک ہو‘‘، ’’باندی‘‘ اور ’’جھوٹی‘‘، جب کہ ٹیلی فلمز میں ’’فیملی مین‘‘، ’’اریجنڈ شادی کی لَو اسٹوری‘‘، ’’تم ملے ہو یوں‘‘، ’’دِل والی دولھا لے جائے گی‘‘، ’’ایسا بھی ہوتا ہے‘‘اور’’فوٹو کاپی‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔نیز، فلم ’’کراچی سے لاہور‘‘اور’’لاہور سے آگے‘‘میں بھی(جن کے رائٹر بھی وہ خود ہیں) اداکاری کے جوہر دکھاچُکے ہیں۔گزشتہ دِنوں ہم نےیاسر حسین سے جنگ، سنڈے میگزین کے معروف سلسلے ’’کہی اَن کہی‘‘ کے لیے ایک تفصیلی انٹرویو لیا، جس کی تفصیل نذرِ قارئین ہے۔

س: اپنے آبائی گھر، خاندان، والدین اور بہن بھائیوں کے متعلق کچھ بتائیں؟

ج: میرا آبائی گھر آزاد کشمیر میں ہے۔ہم 12بہن بھائی ہیں اور سب اپنی اپنی فیملیز کے ساتھ مختلف مُلکوںاور شہروں میں رہتے ہیں، جب کہ والدین کا انتقال ہوچُکا ہے۔

س: کس شہر میں جنم لیا، کہاں سے تعلیمی مدارج طے کیے اور تعلیم کہاں تک حاصل کی؟

ج: مَیں کراچی میں پیدا ہوا، لیکن ابتدائی تعلیم راول پنڈی سے حاصل کی کہ میری پیدایش کے بعد والدین راول پنڈی منتقل ہوگئے تھے۔ انٹر کے بعد بی اے میں داخلہ لیا تھا، مگر پھر تھیٹر کے کام کی وجہ سے تعلیم ادھوری چھوڑ دی۔

س: بچپن میں شرارتی تھے، کبھی پٹائی وغیرہ بھی ہوئی اور بہن بھائیوں میں آپ کا نمبر کون سا ہے، آپس میں کیسی دوستی ہے؟

ج: مَیں بچپن میں شرارتی تھا، نہ کبھی والدین سے پٹائی ہوئی۔بہن بھائیوں میں میرا نمبر 12واں ہے اور میری سب ہی سے بہت اچھی دوستی ہے۔ ہاں کبھی کبھار ناراضی بھی ہوجاتی ہے، جو سب ہی بہن بھائیوں میں ہوتی ہے۔

س: آپ نے کیرئیر کا آغاز تھیٹر سےمیں کیا، پھر چھوٹی اور بعد ازاں بڑی اسکرین پر بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا، تو اس پورے سفر کی کچھ تفصیل بتائیں؟

ج: مَیں نے کیریئر کا آغاز16برس کی عُمر میں تھیٹر سے کیا۔ تھیٹر کی دُنیا میں انور مقصود، شاہ شرابیل، داور محمود اور کئی ڈائریکٹرز کے ساتھ کام کیا۔ پھر 2010ء میں جیو کے میوزک چینل ’’آگ‘‘ سے بطور وی جے منسلک ہوگیا۔ بعدازاں، 2011ء میں سیّد محمود احمد کے تحریر کردہ سوپ سیریل ’’دریچہ‘‘ میں شاہ رُخ کا کردارنبھایا۔ 2012ء میں وجاہت رئوف کی ٹیلی فلم ’’فیملی مین‘‘ میں کام کیا۔ 

اس کے بعد بھی مختلف ڈراموں اور ٹیلی فلمز میں کام کا سلسلہ جاری رہا۔رہی بات بڑی اسکرین کی تو ’’کراچی سے لاہور‘‘ اور ’’لاہور سے آگے‘‘میں پرفارم کر چُکا ہوں، جب کہ یہ فلمیں تحریر بھی مَیں نے ہی کیں۔ نیز، ’’چھلاوا‘‘ اور ’’ہو من جہاں‘‘بھی میری ہی لکھی ہوئی فلمز ہیں۔ جب کہ رواں برس ڈراما ’’کوئل‘‘ کے ذریعے ہدایت کاری کی دُنیا میں بھی قدم رکھ دیا ہے۔

س: تھیٹر کے ساتھ دونوں اسکرینز پر کام کا تجربہ ہے، اسکرین رائٹر بھی ہیں اور ہوسٹ بھی، اب ہدایت کاری بھی کررہے ہیں، تو یہ سب کیسے مینیج ہوجاتا ہے؟

ج: مَیں نے تھیٹر، چھوٹی اور بڑی اسکرین کے لیے لکھا زیادہ ہے، کام کم کیا ہے۔ شو بھی ہوسٹ کیے ہیں، تو مناسب وقفے کے ساتھ، اس لیے الحمدللہ سب کام باآسانی مینیج ہوجاتے ہیں۔

اہلیہ ،اقراءعزیز اور بیٹے کبیر کے ساتھ
اہلیہ ،اقراءعزیز اور بیٹے کبیر کے ساتھ

س: آپ شوبزانڈسٹری میں خاصے منہ پھٹ مشہور ہیں،آپ کی اکثر باتیں متنازعات کی شکل اختیار کرلیتی ہیں، تو ایسا کیوں ہے؟

ج: یہ تو مجھے بھی نہیں پتا کہ میری باتیں کنٹرو ورشل کیوں ہو جاتی ہیں۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ اکثر مارننگ شوز میں میری تصاویر دکھا کر بھی مجھے ڈسکس کیا جاتا ہے۔ پتا نہیں کیوں…؟؟؟ آپ کوئی بھی شو دیکھ لیں، چاہے وہ مارننگ شو ہو یا سیلیبریٹی ٹاک شو ان میں کوئی نہ کوئی کنٹروریسی نظر آئے گی ہی۔ جہاں تک منہ پَھٹ ہونےکی بات ہے، تو مجھے لگتا ہے کہ مجھ سے پہلے اداکار سوشل میڈیا پر اس طرح کسی کو جواب نہیں دیتے تھے، غالباً مَیں نے ہی یہ ٹرینڈ سیٹ کیا ہے۔ ویسے جب سوشل میڈیا پر ہر فرد اپنی رائے کا اظہار کررہا ہے، تو فن کاروں کو بھی اس کا بَھرپور حق حاصل ہونا چاہیے۔

س: آپ نے مزاحیہ کردار بھی کیے، تو مزاح پسند ہے یا تجرباتی طور پر ایسا کیا؟

ج: تھیٹر میں کامیڈی کا عنصر زیادہ ہوتا ہے اور میری کامِک ٹائمنگ بہتر ہے، تو مَیں نے کامیڈی زیادہ کی۔ ویسے مجھے طنز و مزاح اور ہنسنا ہنسانا بے حد پسند ہے۔

س: کس طرح کے کردار ادا کرنا اچھا لگتا ہے، سنجیدہ، مزاحیہ، رومانی یا نیگیٹو؟

ج: مجھے ہر وہ کردار ادا کرنا پسند ہے، جس میں اداکاری کا مارجن زیادہ ہو۔ اگر کردار میں کچھ کرنے کو نہ ہو، تو مَیں وہ ڈراما یا فلم سائن ہی نہیں کرتا۔ ایک فلم ’’جاوید اقبال‘‘ میں میرا کردار بالکل الگ ہی نوعیت کا ہے، تو ہارر کامیڈی فلم ’’پیچھے تو دیکھو‘‘ بھی یک سر مختلف ہے۔ یعنی میری کوشش ہے کہ خود پر ایک ہی جیسے کرداروں کی چھاپ لگوانے کی بجائے مختلف نوعیت کے کردار ادا کروں۔

س: سیریل کِلر، جاوید اقبال کی زندگی پر بننے والی فلم ’’جاوید اقبال: دی اَن ٹولڈ اسٹوری آف اے سیریل کِلر‘‘ میں آپ کا مرکزی کردار ہے،اس حوالے سے بھی کچھ بتائیں؟

ج: یہ ایک ایسا کردار ہے، جس کے بارے میں تقریباً سب ہی جانتے ہیں۔ پھر یوٹیوب پر بھی جاوید اقبال سے متعلق خاصی ریسرچ موجود ہے۔ یہ فلم جاوید اقبال کی زندگی کے کچھ دِنوں کی کہانی ہے، جس کے لکھاری، ہدایت کار ابو علیحہ ہیں۔ 

انہوں نے کچھ عرصہ قبل ایک کتاب ’’ککڑی‘‘ کے نام سے لکھی، جو جاوید اقبال کے گھر کا نام ہے۔ تو بس، یہ فلم اِسی کتاب پر مبنی ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ شائقین سے خُوب داد سمیٹے گی۔

س: ان دِنوں کیا مصروفیات ہیں، کس نئے پراجیکٹ پر کام کررہے ہیں؟

ج: ان دِنوں مَیں ایک ڈراما ڈائریکٹ کررہا ہوں، جس کا نام ’’کوئل‘‘ ہے۔ اس ڈرامے کی کاسٹ میں منشا پاشا، ماہم عامر، فہد شیخ، نورالحسن، فریحہ جبیں اور سینئر اداکارہ، ڈاکٹر ہما میر شامل ہیں۔ ہم ڈاکٹر ہمامیر کو اس ڈرامے کے ذریعے شوبز انڈسٹری میں واپس لا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ میری دو فلمیں ریلیز کی منتظر ہیں، جب کہ ایک دِل چسپ پراجیکٹ پر بھی کام جاری ہے،لیکن اس کے حوالے سے ابھی کچھ بھی بتانے سے قاصر ہوں۔

س: آپ نے حال ہی میں ہدایت کاری کا باقاعدہ طور پر آغاز کیا ہے، تو اس طرف آمد کی کوئی خاص وجہ؟

ج: میرے لیے یہ ایک نیا کام ہے اور مجھے نئے نئے کام کرنا پسند ہے۔چوں کہ اداکاری، میزبانی کا تجربہ ہے اور اسکرین رائٹر بھی ہوں، تو مجھے لگا کہ اب ڈائریکشن کی فیلڈ میں بھی قسمت آزمائی جائے کہ یہ ایک محنت طلب شعبہ ہے اور اس میں کام کرکے مزہ بھی آرہا ہے ۔

س: آپ کو کیا لگتا ہے، پاکستان میں فلم انڈسٹری کا احیاء ہو چُکا یا ابھی بہت کام باقی ہے؟

ج: صرف یہی کہوں کہ ’’پيوستہ رہ شجر سے، اُميدِ بہار رکھ‘‘۔ حقیقتاً ہماری فلم انڈسٹری بہت آگے کی طرف جارہی تھی کہ کورونا وائرس نے آن دبوچ لیا۔اور اس سے صرف ہماری نہیں، بلکہ دُنیا بَھر کی فلم انڈسٹری شدید متاثر ہوئی ہے۔ مگر مجھے یقین ہے کہ یہ انڈسٹری ایک بار پھر سے پَھلنے پُھولنے لگے گی۔

س: دُنیا بَھر میں آن ڈیمانڈ اسٹریمنگ کلچر کے اضافے کو مدِّنظر رکھتے ہوئے پاکستان نے بھی اُردو او ٹی ٹی پلیٹ فارم لانچ کرنے کا اعلان کیا،توکیا اس سے کسی بہتری کی توقع ہے؟

ج: جی بالکل، ان شاءاللہ اس اقدام سےبہتری آئے گی، ہمارا کانٹینٹ بہت بہتر ہوگا۔ چوں کہ ٹی وی پالیسی کے تحت بعض موضوعات پر ڈرامے نشر نہیں کیے جاسکتے ہیں، تو اب اس پلیٹ فارم کے ذریعے وہ بھی نشر ہوسکیں گے۔

س: انسٹا گرام پر آپ کے2ملین فالوورز ہیں۔خود آپ نے2,722سے زائدپوسٹس شئیر کیں تو اس قدر ایکٹیو رہنے کے لیے وقت مل جاتا ہے؟

ج: پوسٹ اَپ لوڈ کرنے میں بمشکل دو منٹ لگتے ہیں، تو24گھنٹوں میں سے صرف دو منٹ نکالنا میرے نزدیک کوئی بڑی بات نہیں۔ ویسے بھی میں صرف انسٹاگرام ہی استعمال کرتا ہوں۔ رہی فالوورز کی بات تو میری زندگی بناوٹی نہیں، بالکل عام آدمی کی زندگی ہے، جو انسٹاگرام پر بھی عام ہی نظر آتی ہے، اِسی لیے لوگ مجھے فالو کرتے ہیں۔

س: عموماً شوبز انڈسٹری سے وابستہ افراد فلاحی امور میں بھی بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے ہیں، تو آپ کا بھی کوئی ایسا پلان ہے؟

ج: فلاحی امور بے شمار لوگ انجام دیتے ہیں۔ بس، بعض افراد علانیہ کرتے ہیں، تو کچھ چُھپ چُھپا کر مدد کے قائل ہیں۔ میری نظر میں دونوں ہی ٹھیک ہیں کہ علانیہ مدد کرنے سے لوگوں کو ترغیب ملتی ہے اور چُھپا کر کرنے سے سُکون۔ تو مَیں بھی کچھ نہ کچھ کرتا ہی رہتا ہوں۔

س: ستارہ کون سا ہے، سال گِرہ مناتے ہیں؟

ج: میرا ستارہ قوس ہے اور 29نومبر کو اپنی سال گِرہ مناتا ہوں۔

س: فیلڈ میں دوست زیادہ بنائے یا دشمن؟

ج: فیلڈ میں میرے دوستوں کی تعداد زیادہ ہے یا دشمنوں کی، اس ضمن میں وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا کہ دیکھنے میں تو سب ہی دوست لگتے ہیں۔

س: اقراء سے پہلی ملاقات کہاں ہوئی اور اس کی کس خُوبی نے اتنا متاثر کیا کہ شریکِ سفر بنانے کا فیصلہ کرلیا؟

ج: ویسے توہماری پہلی ملاقات لاہور میں ایک ایوارڈ شو میں ہوئی، مگر جب ٹورنٹو میں منعقدہ ایک ایوارڈ شو میں دوسری ملاقات ہوئی، تو دِل نے بے اختیار کہا، ’’یاسر! یہی وہ لڑکی ہے، جسے شریکِ سفر بنایا جاسکتا ہے۔‘‘ اقراء کسی کی بُرائی کرتی ہے، نہ غیبت اور ہمیشہ مثبت ہی سوچتی ہے۔ اور مجھے اس کی یہی عادت بہت پسند ہے۔

س: آپ دونوں کی عُمروں میں قریباً12,11سال کا فرق ہے، تو کیا عُمر کے اس فرق سے کچھ مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا؟

ج: ہاں، ہم دونوں میں پورے 11سال کا فرق ہے، لیکن مجھے لگتا ہے کہ ایک کام یاب شادی کے لیے اتنا فرق ہونا ہی چاہیے۔مَیں نے اکثر دیکھا ہے کہ ہم عُمر میاں بیوی میں لڑائیاں زیادہ ہوتی ہیں۔ 

دراصل لڑکوں کی نسبت لڑکیاں اپنی عُمر سے پہلے میچور ہوجاتی ہیں۔ اب اگر لڑکا بڑی عُمر کا ہو تو ظاہر سی بات ہے کہ ذہنی طور پر لڑکی اس کی ہم عُمر ہوگی۔ سو، ہم دونوں بھی میچوریٹی میں قریب قریب ہیں۔

س: دونوں میں سے لڑائی میں پہل کون کرتا ہے اور مناتا کون ہے؟

ج: الحمد للہ!ہم دونوں میں لڑائی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نظرِبد سے بچائے اور ہم اسی طرح خوش باش اور خوش حال زندگی گزارتے رہیں۔

س: اقراء کو باقاعدہ طور پر پروپوز کرنے کے لیے ایوارڈ تقریب کا انتخاب کیا، جس پر لوگوں نے کافی تنقید بھی کی، تو یہ کس کے ایماء پر ہوا؟

ج: اصل میں کئی لوگ میرے اور اقراء کے بارے میں سوالات کررہے تھے،لہٰذا مَیں نے مجمعے میں اقراء کو پروپوز کرکے نہ صرف سب کے سوالوں کا جواب دیا، بلکہ شادی بھی کرلی۔ میری نظر میں یہ بہتر تھا، بجائے اس کے کہ ایلفل ٹاور یا تاج محل لے جاکر پروپوز کرتا۔

س: کبیر کو جب پہلی بار گود میں اُٹھایا، تو کیا احساسات تھے؟

ج: یقین جانیے، مجھے اقراء سے ایک بار پھر شدید محبّت ہوگئی۔

س: آپ دونوں ہی خاصے مصروف رہتے ہیں،تو کبیر کی تربیت پر فوکس کے لیے کیا اقراء عارضی طور پر شوبز اندسٹری سے کنارہ کشی اختیار کررہی ہیں؟

ج: میرے خیال میں خاصاوقت ہوگیا ہے کہ اقراء نے کسی ڈرامے میں کام نہیں کیا۔حال ہی میں ان کا ایک ڈراما ’’خدا اور محبّت‘‘اختتام پذیر ہوا ہے۔تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ اقراء نے عارضی طور پر کنارہ کشی اختیار کی ہوئی ہے، البتہ کوئی چھوٹا موٹا ایک آدھ دِن کا شوٹ کروالیتی ہے۔ ہم دونوں مل جُل کر اپنے بیٹے کے ساتھ بَھرپور انجوائے کررہے ہیں، اِس لیے دونوں ہی زیادہ کام نہیں کرتے۔ اقراء کا سال میں ایک ڈراما نشر ہوتا ہے اور مَیں بھی ایک فلم کرلیتا ہوں۔

س: آپ کورونا وائرس کا بھی شکار ہوئے ، توقرنطینہ کے دِنوں میں کیا کیا؟

ج: مَیں نے ٹی وی نشریات دیکھیں، کچھ کتابیں بھی پڑھیں، نت نئے آئیڈیاز سوچے کہ قرنطینہ میں بس یہی کچھ کیا جاسکتا تھا۔

س: آپ کے بارے میں آپ کے دوستوں کا کہنا ہے کہ’’بندہ ملنگ ہے‘‘،سچ کیاہے؟

ج: جی بالکل سو فی صد درست ہے، مَیں واقعی ملنگ سا بندہ ہوں اور صرف ظاہری طور پر نہیں، اندر سے بھی ملنگ ہوں۔

تازہ ترین