• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہندوستان اور پاکستان میں آزادی کے 74سال گزرنے کے باوجود سماجی نفرت اور افراتفری اپنے عروج پر ہے جس کی اصل وجہ تاریخی حقائق سے رو گردانی ہے۔ دونوں ملک اپنے نظریاتی خواص کو ثابت کرنے کیلئے ہر موقع پرست رجحان کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں اور اِس میں مذہب، تاریخ، فلسفہ اور ہر ایک چیز سے وقتی ضرورت کو پورا کیا جاتا ہے۔ تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کیلئے سازشی نظریات گھڑے جاتے ہیں جس کیلئے ریاستی دانشور اور بڑے بڑے وکیل ہردم تیار بیٹھے ہوئے ہیں۔ سازشی نظریات دراصل تاریخی حقائق کو عوام تک نہیں پہنچنے دیتے جس کی وجہ سے قوم بھی ذہنی طور پر مفلوج ہو جاتی ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ 16دسمبر 1971کو پاکستانی فوج نے مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈال دیے اور یوں اکثریتی صوبہ ہم سے علیحدہ ہو گیا لیکن آج بھی معروف دانشور اس اہم سانحہ کے تاریخی حقائق پر بحث کرنے کی بجائے سارا ملبہ بنگالیوں اور بھارت پر ڈال رہے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ کوئی بھی دشمن ملک کے اندرونی حالات کی خرابی کے بغیر اُس سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتا۔

پاکستان میں تاریخی حقائق سے رو گردانی کرنے کا تصور یوں بھی ابھرتا ہے کہ ہمیں کبھی نہیں بتایا گیا کہ وہ کیا وجوہات تھیں کہ بنگالی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ نہیں دیا گیا؟ تاریخی حقائق سے روگردانی کرتے ہوئے ہمیں نہیں بتایا گیا کہ جب چیف جسٹس عبدالرشید ریٹائرڈ ہوئے تو مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے جسٹس اکرم سینئر ترین جج تھے لیکن پھر بھی پنجاب کے جسٹس منیر کو نیا چیف جسٹس مقرر کیا گیا جنہوں نے ریاستی احکامات کو بروئےکار لاتے ہوئے منتخب حکومتوں کی برطرفی کیلئے نئے نئے قانونی جواز پیدا کرنے کی روایتیں ڈال دیں جس کی وجہ سے ہمارا عدالتی نظام آج بھی جمہوریت اور سویلین سپرمیسی کو پروان چڑھانے میں ناکام ہے۔ اُن وجوہات کا ذکر نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے ابتدائی دنوں میں ہی جگتو فرنٹ نے مشرقی پاکستان میں مسلم لیگ کو شرمناک شکست دی لیکن پھر جگتو فرنٹ کے وزیراعلیٰ پر غداری کا الزام لگا کر ایک سال کے اندر ہی اس کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور پھر مغربی پاکستان کے صوبوں کو یکجا کرکے مشرقی پاکستان کی اکثریت کو ہی ختم کر دیا گیا۔ جگتو فرنٹ کے اکیس نکات ہوں یا شیخ مجیب الرحمٰن کے چھ نکات، ان کا کبھی سیاسی طریقے سے تجزیہ ہی نہیں کیا گیا۔ آج کے محققین کا تجزیہ ہے کہ جگتو فرنٹ کے اکیس نکات اور شیخ مجیب کے چھ نکات دراصل اٹھارہویں ترمیم کا ابتدائی خاکہ تھے اور اگر یہ ترمیم پاکستان بننے کے بعد ہی کر لی جاتی تو پاکستان کبھی بھی نہ ٹوٹتا جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مشرقی پاکستان کے مسئلے کا حل صرف اور صرف سیاسی تھا فوجی ہرگز نہیں، لیکن ہم آج بھی تاریخی حقائق سے چشم پوشی کر رہے ہیں اور دوسری طرف بنگلہ دیش کی اقتصادی ترقی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ وہ صحیح راہ پر تھے۔

صدیوں سے استبدادی قوتوں کی یہ حکمت عملی رہی ہے کہ وہ تاریخی حقائق کو چھپانے اور آمریت کے جواز کیلئے کسی نہ کسی نظریے یا اخلاقی منشور کا سہارا لے کر یہ باور کرواتی رہی ہیں کہ اس کے پیچھے کچھ اعلیٰ مقاصد کار فرما ہیں جو ریاست کے استحکام اور بقا کے ضمامن ہیں۔ یوں وہ کچھ مسخ شدہ خیالات کی ریاستی مشینری کے ذریعے عوام میں جڑیں مضبوط کرتے ہیں۔ یورپ میں بھی ہٹلر نے اپنے فلسفیوں کے نظریات کو اپنے فسطائی ارادوں کو بروئے کار لانے کیلئے استعمال کیا جس نے نہ صرف عوام کے نظریات کی فسوں کاری کی بلکہ جرمن قوم کے ساتھ ساتھ پورے یورپ کی تباہ کاری کا باعث بنا۔ نطشے نے طاقت اور سپر مین کے جو نظریات دیے، ہٹلر نے جرمن قوم کو ان سے سرشار کیا اور جنگ کو ہی اعلیٰ اقدارکی ضامن اور ذریعہ قرار دیا۔ دنیا بھر میں آمروں نے آمریت کے تسلسل اور اخلاقی جواز کیلئے تشدد اور نظریے کا امتزاج رکھا جو عمومی طور پر لازم و ملزوم بھی ہیں۔ پاکستان میں ضیاء الحق نے بھی 1977سے لے کر 1988تک ایسے ہی نظریے کی آڑ میں ملک کو چلایا اور دانشوروں کے ایسے گروہ پیدا کروائے جو اپنے نظریات کے ذریعے عوام کے دل و دماغ پر اثر انداز ہوئے اور عوام کو انکے جھوٹ میں بھی سچائی نظر آنے لگی۔

پاکستان کی 74سالہ تاریخ اس بات کی مظہر ہے کہ ملک سماجی، سیاسی اور اخلاقی طور پر زوال پذیر ہوا ہے۔ ایک طرف نفرت اور فرقہ واریت کا عروج ہے اور دوسری طرف آئین اور ادارہ سازی کا مکمل فقدان ہے۔ اسلئے آج ہمارے سماج کا سب سے اہم سوال یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے کی تنزلی کو روکا جائے، جس میں سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اپنی 74سالہ تاریخ کو سچائی اور حقائق کی بنیاد پر دوبارہ مرتب کیا جائے اور سازشی تھیوریوں کواخلاقی جواز فراہم کرکے سماج پر مسلط نہ کیا جائے اور نئے نظریات کی روشنی میں جدید تقاضوں کے مطابق اس ملک کی تعمیر نو کی جائے۔ ایسے تخلیقی ذہنوں کو ابھارا جائے جو اس سماج کو نفرتوں کی یلغار سے نکال کر اور فرسودہ نظام کا خاتمہ کر کے اس ملک کی تعمیر نو کر سکیں۔

تازہ ترین