• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کسی ساڑھے چھ فٹ کے آدمی کو 3x3 فٹ کے پنجرے میں پانچ دس سال کیلئے بند کرنے سے بعد اسے باہر نکالیں تو وہ تین فٹ کے کبڑے میں تبدیل ہو چکا ہو گا اور اسے سیدھا کر کے اس کے اصل قدکے قریب ترین لانا مقصود ہو تو بہت اعلیٰ سرجن اور طویل میجر سرجری کی ضرورت ہو گی۔ معاملہ اور مسئلہ صرف ”فرد“ تک محدود نہیں بلکہ اگر کسی قوم اور قبیلہ کو بھی صدیوں تک پستی اور ذلت کے پنجرے میں رکھا جائے تو یہ کنڈیشن اس کے جینز تک میں جا گھستی ہے۔ برصغیر کے عام بالخصوص مقامی مسلمان کے ساتھ کسی مسلمان غیر ملکی حملہ آور حکمران نے کبھی کوئی ترجیحی سلوک نہیں کیا۔ منظور اعجاز نے سوفیصد درست لکھا کہ سلاطین دہلی سے لے کر مغلوں تک عام مسلمان کا وہی حال تھا جو انگریز کی حکومت میں عام عیسائی کا۔ سب سے بڑا اور زندہ ثبوت یہ ہے کہ اگر 66 سال سے اس ماڈرن عہد اور گلوبل ویلیج میں مسلمان حکمران طبقوں نے عام مسلمان کو ذلیل و رسوا، بھوکا ننگا اور اس بری طرح پستی کے عالم میں رکھا ہوا ہے تو صدیوں قبل غزنوی، غوری، ابتدائی ترک سلاطین، خلجی، تغلق، لودھی اور مغل حکمران مسلمان رعایا کے ساتھ کیا کرتے ہوں گے۔ آج کل سیلابوں کا موسم ہے جس میں عام پاکستانی کی صحت، حال، حلیہ اور کسمپرسی دیکھ کر کیا کوئی سوچ بھی سکتا ہے کہ ان ”نیم جانوروں“ کے حکمران بھی ان کے ہم مذہب مسلمان ہی ہوں گے، یہی نہیں پاگل پن کی حد تک جی دار اور حریت پسند ریڈانڈینز کو ہی دیکھ لیں کہ وحشیانہ طریقہ سے ٹیکنالوجی کے بل پر ”غلام“ بنا لئے گئے۔ یہ ریڈانڈینز مسلسل پستی کی حالت میں رکھے جانے کے بعد آج انسان نہیں، انسانوں کے سائے لگتے ہیں، ہر اعتبار سے گواچے ہوئے لوگ۔ پھر وہی بات کہ ”نیچ“ کوئی ذات نہیں وہ حالات، ماحول اور Conditions ہوتی ہیں جن میں انسان پروان چڑھتے ہیں۔ گندی گلیوں میں ایک دوسرے کو ننگی گالیاں دے دے کر کھیلتے ہوئے ننگے بچوں کے درمیان کسی اچھے سکول میں پڑھنے والے بچے کو صرف آدھ گھنٹے کیلئے اکیلا چھوڑیں اور چھپ کر دیکھیں تو اس میں گند کے ساتھ گند ہو جانے والے بچوں کا قصور نہیں اور نہ ہی اس بچے کا کوئی کمال جو گھن محسوس کر رہا ہے۔
پارٹیشن کے نتیجہ میں جو بہت کچھ اور بہت بھیانک ہوا اس کے لئے کسی کی کوئی تیاری نہیں تھی سو جعلی کلیموں اور جعلی ذاتوں کا جو طوفان اٹھا وہ سائیکلون کی طرح وقفہ وقفہ سے مسلسل جاری ہے۔ چوری، چکاری، جھوٹ، خوشامد، گندگی، ملاوٹ، حرام خوری، رشوت، حسد، بغض، غیبت، انتشار، نفسانفسی، خود غرضی، اسراف، نمودو نمائش، تجاوزات، لالچ،بدتمیزی، بے اصولی، ضمیر فروشی، قانون شکنی غرضیکہ وہ کون سی نجاست ہے جس کی فراوانی نہیں حالانکہ اک عام، سادہ اوسط درجہ کا مسلمان بھی بحیثیت انسان ایسا ہونا چاہئے کہ دیکھنے والے دیکھتے رہ جائیں تو اس ساری معاشرتی تباہی کی جڑیں جعلی کلیموں اور جعلی ذاتوں میں پیوست ہیں کہ جعل سازی ہی ہمارا اوڑھنا بچھونا، کلچر اور ”وے آف لائف“ قرار پائی۔ 19کروڑ آبادی کے جس ملک میں بچوں کی خوراک یعنی دودھ بھی خالص نہیں تو ڈوب مرنے کا مقام ہے لیکن یا ڈھٹائی تیرا
آسرا۔ دوسرا المیہ یہ ہوا کہ حکمران طبقات نے اپنی مثالیں پیش کر کے عوام کی تربیت کرنے کی بجائے جعل سازی کو اپنی ذاتی مثالوں سے مزید پروموٹ کیا اور یہ طے پا گیا کہ جو جتنا بدکار ہو گا، اتنا ہی معزز اور باوقار ہو گا۔ گزشتہ کالم میں میں نے جس ارب پتی گیس چور صنعتکار کا حوالہ دیا۔ اس کا حلیہ بہت شرعی تھا لیکن ہر ماہ کروڑوں کی چوری کا مرتکب تو شاید اس کے نزدیک ”حلیہ“ اور ”ظواہر“ ہی کافی ہوں اور یہ ان لاتعداد لوگوں کا مسئلہ ہے جو بہت سی چوریوں کو چوریاں سمجھتے ہی نہیں۔ اک اور بات کہ اگر 100 میں سے 40`50 کاروباری بھی گیس، بجلی، ٹیکس چوری کر رہے ہوں تو باقیوں کیلئے چوری بڑی مجبوری بن جائے گی کہ اگر وہ ایسا نہ کریں تو مارکیٹ میں مقابلہ ہی نہیں کر سکتے، زندہ ہی نہیں رہ سکتے۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ اگر گیس بجلی چوری سو فیصد ختم ہو نہ ہوئی تو یہ دس بیس فیصد بھی ختم نہ ہو گی۔ اب پھر واپس چلتے ہیں جعلی کلیموں کی طرف جس نے معیشت ہی نہیں بالآخر معاشرہ بھی تباہ کیا کیونکہ ”جعل سازی“ کلید کامیابی قرار پا گئی تھی۔ ایک نوجوان ریسرچر شہباز اکمل کی جعلی کلیموں کے حوالہ سے پچھلے دنوں اک رپورٹ شائع ہوئی جسے پوری پڑھیں گے تو 104 بخار چڑھ جائے گا اور پھر اترنے کا نام بھی نہیں لے گا، سو اس بہت اعلیٰ ریسرچ کی چند ہائی لائٹس پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔
پڑھتا جا شرماتا جا…
”تقسیم ہندوستان کے نتیجے میں تاریخی ہجرت پاکستان میں بڑی جعلسازی اور فراڈ کا باعث بن گئی“
”بوگس اور جعلی الاٹمنٹوں کے علاوہ لاکھوں مہاجرین بھارت میں جائیداد کے مالک نہ ہونے کے باوجود مربعوں کے مالک بن گئے“
”66 سال بعد بھی چیف سیٹلمنٹ کمشنر اور ان کے ماتحت چار عدالتوں میں ڈبل بوگس اور جعلی الاٹمنٹ کے چار ہزار سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں“
”66 برسوں میں 10 لاکھ سے زائد افراد کی طرف سے بھرے جانے والے جائیداد کے 50 فیصد سے زیادہ کلیمز بوگس تھے“۔
قارئین! خود ہی اندازہ لگا لیں کہ پاکستان بنتے ہی جن لاکھوں لوگوں کے منہ کو حرام لگ گیا، شارٹ کٹ مارنے، جھوٹے حلف اٹھانے اور رشوتیں دینے کا چسکا پڑ گیا… انہوں نے بعد میں کیا کیا کچھ نہ کیا ہو گا؟ اور اب بھی کیا کیا کچھ نہ کررہے ہوں گے؟
ہماری بربادی کی بنیادوں میں ہی دیمک ہے، پہلے اسے سمجھنا اور پھر علاج کرنا ہو گا اور علاج اس کا صرف صرف اور صرف یہ ہے کہ حکمران ایسے ہوں جو خود دیانت سے لے کر سادگی تک کی اعلیٰ ترین مثالیں دکھائی دیں، خود قانون کی حکمرانی کے بے مثل نمونے پیش کریں لیکن ایسا ہوتا دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ جھوٹ بول کر اقتدار میں آنے اور جھوٹ بول کر اقتدار قائم رکھنے والے پارٹیاں اور جائیدادیں تو بنا سکتے ہیں…
قوم نہیں…
رہ گئیں جعلی ذاتیں تو حضور! جو اپنی پیدائش اور وجود سے ہی شرمندہ ہو اور ولدیت تک سے مکر جائے وہ کیسا معاشرہ جنم دے سکتا ہے؟
تازہ ترین