• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شاہ صاحب سے میری بہت پرانی یاد اللہ ہے، لیکن اس سے پہلے آپ خادم حسین سے مل لیں۔
خادم حسین سے میری کئی ملاقاتیں ہوئیں، ایک ملاقات ”خادم حسین گرم حمام“ پر ہوئی۔ یہ ایک شاندار دکان تھی جس میں ہر طرف آئینے ہی آئینے لگے ہوئے تھے، بہترین آرام دہ کرسیاں تھیں۔ یہاں اچھی کوالٹی آفٹر شیو تھے۔ حجامت کے اوزار صاف ستھرے تھے، تولیہ ہر بار نیا استعمال ہوتا تھا، خادم حسین خود ہی بہت اچھا کاریگر تھا اور اس کے ملازم بھی اپنے فن کے ماہر تھے اور جہاں تک گرم حمام کا تعلق تھا وہ اتنا خوبصورت اور سہولتوں سے آراستہ تھا کہ محلے کے لوگوں نے اپنے گھروں کی بجائے وہاں نہانا شروع کردیا تھا۔ وہ صبح صبح یہاں آتے۔ میز پر ااس روز کے تازہ اخبارات پڑے ہوتے، وہ اپنی باری کے انتظار میں ان اخبارات کا مطالعہ کرتے، قومی اور بین الاقوامی سیاست پر اپنی حتمی آراء دیتے، اس کے بعد شیو کراتے اور دھلا ہوا صاف ستھرا تولیہ کاندھے پر رکھ کر حمام میں داخل ہو جاتے جہاں سر میں لگانے کے لئے تیل کی بوتل بھی پڑی ہوتی، بوقت ضرورت خادم حسین کا کوئی ملازم نہانے والے کے ہاتھ میں چپکے سے کوئی اوزار ہی پکڑا دیتا تھا، ہمارے محلے میں اعلیٰ درجے کا یہ پہلا گرم حمام تھا۔ اس کے ریٹس اگرچہ زیادہ تھے لیکن بابو لوگ اب صرف اسی حمام کا رخ کرتے تھے۔ خود میں بھی ان میں شامل تھا بلکہ خادم حسین سے دوستی بھی ہوگئی۔
خادم حسین سے میری بہت عرصہ پہلے پہلی ملاقات ایک فٹ پاتھ پر ہوئی تھی جہاں اس نے اپنی میز ایک مکان کی دیوار کے ساتھ لگائی ہوئی تھی اور ایک آئینہ اس پر دھرا تھا جس کے درمیان میں ”تریڑ“ آئی ہوئی تھی، گاہکوں کے لئے ایک کرسی تھی جس کا ایک بازو نہیں تھا۔ گاہک اس ٹنڈی کرسی پر بیٹھ جاتا اور خادم حسین اس کا شیو بنانے کے بعد اس کے چہرے پر پھٹکری ملتا اور پھر گندے تولیے سے اس کا منہ صاف کرتا۔ اس کے بعد ایک دن وہ غائب ہوگیا۔ پتہ چلا کہ اسے دبئی کا ویزا مل گیا ہے، دس سال بعد واپس آیا تو وہ ایک بدلا ہوا خادم حسین تھا۔ اس کے پاس دولت کی ریل پیل تھی، مگر اس نے یہ جمع شدہ رقم ضائع کرنے کی بجائے اس سے گرم حمام بنایا جو علاقے کا سب سے خوبصورت گرم حمام تھا اور جس میں گاہک کی تسلی اور آرام کی ہر سہولت موجود تھی، اس کے بعد ایک دن یہ حمام بند ہوگیا، اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ اس کی آمدنی اس کی انویسٹمنٹ کے مطابق نہیں تھی یا کوئی اور وجہ تھی؟
ایک روز میرا گذر میرے گھر سے چار پانچ کلومیٹر پر واقع ایک بستی سے ہوا جہاں میرا ایک عزیز دوست رہتا تھا۔ میں اسے ملنے گیا تو رستے میں مجھے خیال آیا کہ اس کے لیے کوئی کیک وغیرہ لے جاؤں۔ اسی اثناء میں میری نظر ایک دکان پر پڑی جس کے باہر ”جعفری بیکر ز اینڈ جنرل سٹور“ کا بورڈ لگا تھا۔ میں اند ر داخل ہوا تو میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ ایک خوبصورت دکان تھی، ایک طرف شو کیسوں میں کیک، بسکٹ اور مٹھائیاں بڑی نفاست سے دھری تھیں اور دوسری طرف روزمرہ ضرورت کی اشیاء بڑے سلیقے سے سجی نظر آئیں۔ دکان میں بہت رش تھا۔ کاؤنٹر پر مجھے ایک شخص بیٹھا نظر آیا جس کی شکل بہت جانی پہچانی سی لگتی تھی، میں اس کے قریب گیا اور غور سے دیکھا تو وہ خادم حسین تھا۔ مگر اب وہ بہت بدلا ہوا تھا، اس کے چہرے کے خدوخال نکھرے نکھرے سے لگ رہے تھے۔ اور مجھے یہ دیکھ کر بہت ہنسی آئی کہ وہ دکان کے کاؤنٹر پر سوٹ اور نٹ ٹائی میں ملبوس بیٹھا تھا وہ مجھے بہت گرم جوشی سے ملا اور ملازم کو مشروب لانے کا حکم دیا۔ ا۔اس کا انداز حاکمانہ ہی تھا۔ میں نے کہا ”یار خادم حسین یہ جعفری کون ہے؟“ بولا میں ہوں اور کون ہے؟“ میں نے ہنس کر پوچھا ”کب سے؟“ اس نے سنجیدگی سے جواب دیا ”امام جعفر صادق“ سے میری عقیدت تو پہلے دن سے تھی، مگر اب اس کے اظہار کے لیے اپنے نام کے ساتھ جعفری ہی لکھنے لگا ہوں“ مجھے اسکی یہ بات بہت اچھی لگی۔ میری اس کے ساتھ جان پہچان تو بہت پرانی تھی مگر اس کی طرف سے امام کے لیے عقیدت کے اس والہانہ اظہار نے مجھے اس کے اور قریب کردیا۔
کچھ عرصے کے بعد ایک دفعہ پھر میرا گذر ادھر سے ہوا، میں نے سوچا خادم حسین جعفری سے ہی ملتا جاؤں، وہ مجھے بہت تپاک سے ملا۔ اس دوران ایک گاہک نے اسے مخاطب کرتے ہوئے ”شاہ صاحب“ کہا تو میں چونکا! خود خادم حسین بھی کچھ پریشان نظر آیا۔ مگر خاموش رہا۔ گاہک کے جانے کے بعد میں نے خادم حسین سے ہنستے ہوئے کہا ”یہ سید کب سے بن گئے؟“ میرا خیال تھا وہ کہے گا کہ حضور سے عقیدت کے اظہار کے لیے اب براہ راست سید بنا ہوں مگر اس نے جواب دیا ”توبہ توبہ! میں کہاں اور آل رسول کہاں؟ میں تو ان کے پاؤں کی خاک برابربھی نہیں ہوں!“ مجھے اس کی یہ بات اچھی تو لگی مگر میں نے کہا ”اس شخص نے جب نہیں ”شاہ صاحب“ کہا تو تم نے اسے ٹوکا کیوں نہیں؟ بولا ہزار بار ٹوک چکا ہوں مگر لوگ ٹلتے ہی نہیں ہیں۔ میرے خیال میں وہ سچ نہیں بول رہا تھا، مگر میں چپ رہا، میں نے سوچا محض اپنے پیشے کی وجہ سے ایک شخص طویل عرصے تک معاشرے کی حقارت بھری نظروں کا سامنا کرتا رہا، وہ دولت مند بھی ہوگیا اس نے اپنا پیشہ بھی تبدیل کر لیا اور اپنا پرانا علاقہ بھی چھوڑ دیا تاکہ وہ اپنی نئی پہچان بنائے لیکن مجھ ایسے لوگ پھر اسے اس کی پرانی ”اوقات“ یاد دلانے کے لئے اس کے پاس دانستہ یا نادانستہ چلے آتے ہیں، میرا دل بہت دکھی ہوا!
جب میں دوست کی طرف گیا اور اسے یہ ساری بات سنائی تو وہ بے حد حیران ہوا اور اسی حیرانی کے عالم میں اس نے پوچھا ”تو کیا خادم حسین واقعی سید نہیں ہے؟“ میں نے کہا ”ہاں! وہ تو خود کو آل رسول کے پاؤں کی خاک برابر نہیں سمجھتا!“ میرا دوست یہ سن کر ہنسا اور بولا ”یہ تم سے کس نے کہا؟“ میں نے جواب دیا ”خود اس نے مجھ سے یہ بات کہی“ دوست نے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا ”شروع شروع میں اسے لوگ جعفری صاحب ہی کہتے تھے، بعد میں لوگوں نے اسے شاہ صاحب کہنا شروع کردیا، پہلے وہ ان سے یہی کہتا تھا جو اس نے تم سے کہا مگر لوگوں نے اسے اس کی کسر نفسی سمجھتے ہوئے اسے شاہ صاحب کہنا جاری رکھا۔ اب تو صورت حال یہ ہے کہ اسے اگر کوئی شاہ صاحب کہہ کر نہ بلائے تو وہ ناراض ہو جاتا ہے!“ میرے ضمیر نے مجھے ملامت کی کہ میں نے خادم حسین کی نئی پہچان کے حوالے سے اس کا بھرم کیوں کھولا۔
میں نے ابھی آپ کو اور بہت کچھ بتانا تھا مگر کچھ دیر پہلے مجھے خادم حسین کا فون آیا، اس کی آواز بھرائی ہوئی تھی اور وہ بہت رنجیدہ لگتا تھا، وہ مجھ سے ملنے کا خواہش مند تھا میں نے اسے بتایا کہ میں اس کی طرف آرہا ہوں … سو آپ سے باقی باتیں قبلہ شاہ صاحب سے ملاقات کے بعد ہوں گی۔
تازہ ترین