• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کتاب اور علم ایک ہی شے کے دو نام ہیں۔ جو علم کا تقاضا ہے، وہی کتاب کا مطالبہ ہے۔ یہ بات ذرا سی وضاحت چاہتی ہے۔ علم حاصل کرنے والے پر لازم ہے کہ جو فیض پائے، دوسروں کو بھی پہنچائے۔ بالکل یہی معاملہ کتاب کا ہے۔ جس کے ہاتھ آئے، پڑھے، شوق سے پڑھے لیکن اگر علم کے متلاشی کسی شخص کو سونپ دے تو گویا علم کو آگے بڑھائے گا۔ اسی کا دوسرا نام نیکی ہے۔
ہمارے علاقے میں اس کا چلن ذرا کم ہے۔ لوگ کتاب کو سینے سے لگا کر تو رکھ لیتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ پھر عمر بھر اس کے ورق نہ کھولیں۔ وہ گرد کھاتی رہے یا دیمک اس کو چاٹتی رہے، مالکِ کتاب کی توجہ اس طرف کم ہی جاتی ہے۔
مغرب میں جہاں میں آباد ہوں کتاب کا معاملہ مختلف ہے اور اس کا ذکر بعد میں کروں گا۔ پہلے میں انٹرنیٹ میں نظر آنے والی اس تصویر کی تفصیل بیان کروں جس نے مجھے یہ سب کچھ لکھنے کی توفیق عطا کی۔ تصویر ہمارے برادر ملک ترکی کی ہے جس میں ایک چھوٹی سی دکان نظر آرہی ہے، اس کے سامنے کھلتا ہوا کوئی دروازہ نہیں بلکہ شیشے کی دیوار ہے اور اندر کتابوں اور کھلونوں کا ڈھیر لگا ہے۔ اوپر کی جانب لیڑبکس جیسا موکھا کھلا ہوا ہے اور ایک بزرگ اس میں اپنی فاضل کتابیں ڈال رہے ہیں، ایک اور شخص قطار بنائے اپنی باری کا منتظر ہے تاکہ وہ بھی دوسروں کے لئے اپنی کتابیں اور بچوں کے کھلونے وہاں جمع کرا سکے۔
پھر مجھے ایک اور تصویر یاد آئی جو شاید جاپان کی تھی۔ اس میں بس اسٹاپ کے قریب کتابوں کی الماری لگی ہے، بس کے انتظار میں بیٹھے لوگ وہیں کتابیں پڑھ رہے ہیں۔ انہیں اختیار ہے کہ جو کتاب وہ چاہیں ساتھ لے جائیں اور جو کتاب فارغ ہو چکی ہو، وہیں اسی الماری میں رکھ جائیں۔ اسی کو صدقہٴ جاریہ کہتے ہیں یعنی وہ نیکی جس کا سلسلہ کہیں رکتا نہیں اور ثواب مسلسل ملے جاتا ہے۔
ایک بار لندن میں ایک ادبی تنظیم نے یہ سلسلہ شروع کیا کہ اپنی جو کتابیں نکالنا چاہیں، جلسے میں لیتے آئیں اور وہاں آنے والی جو کتاب چاہیں لے جائیں۔ ایسی ایسی بے مثال کتابیں آئیں کہ قطار میں پیچھے کھڑا میں ہاتھ ہی ملتا رہ گیا۔ پاکستان میں پرانی کتابوں کے بازاروں میں بھی لوگوں سے یہ نیکی سرزد ہوتی ہے کہ وہ بچی کھچی کتابیں بازار میں لے آتے ہیں اور ڈھونڈنے والے ان میں سے نایاب گوہر تلاش کرلیتے ہیں۔
برطانیہ کے اکثر اسپتالوں میں جہاں لوگوں کو دیر تک بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کرنا ہوتا ہے، وہاں کتابیں ضرور آراستہ ہوتی ہیں۔ لوگ آتے ہوئے اپنی فالتو کتابیں لے آتے ہیں اور وہاں چھوڑ جاتے ہیں۔ اس کے صلے میں انہیں اختیار ہوتا ہے کہ جو کتاب چاہیں ، لے جائیں۔ ہمارے قارئین جانتے ہوں گے کہ مغربی ملکوں میں چیریٹی شاپ کا چلن عام ہے جہاں لوگ اپنی فالتو اشیاء چھوڑ جاتے ہیں جو وہیں سستے داموں فروخت کی جاتی ہیں اور ان کی آمدنی فلاحی کاموں پر صرف ہوتی ہے۔ ان اشیاء میں کتابیں کثرت سے ہوتی ہیں اور کتابوں کے متلاشی اکثر ان کو سونگھتے نظر آتے ہیں۔ میں نے اس طرح ہندوستان کی تاریخ کی کتابوں کا ذخیرہ کیا ہے جس میں نایاب کتابیں شامل ہیں مگر اب میرے سامنے ایک بڑا مسئلہ ہے اور کافی بڑا۔ میں نے اور میری طرح یہاں مغرب میں آباد بہت سے لوگوں نے اپنے ذوق کی تکمیل کے لئے کتابیں جمع تو کر لی ہیں، اب سوال ہے کہ ان کو جھاڑ پونچھ کر رکھنے اور انہیں پیار سے پڑھنے کے لئے میں ہمیشہ تو نہیں رہوں گا پھر ان کا کیا بنے گا۔ یہ خیال مجھے اور مجھ سے زیادہ میری بیگم کو ستاتا ہے۔
حال ہی میں میرا کراچی جانا ہوا اور ایک روز ہمدرد دواخانے کے بانی اور علم کی ترویج کی تحریک کے سرپرست حکیم محمد سعید مرحوم کے قائم کئے ہوئے مدینتہ الحکمتہ جانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ انہوں نے وہاں جو عظیم الشان کتب خانہ قائم کیا ہے اس میں یہ دیکھ کے جی سرشار ہو گیا کہ ملک کے بعض اکابرین اور اہل علم حضرات نے اپنے کتابوں کے ذاتی ذخیرے اس کتب خانے کو بطور عطیہ سونپ دیئے ہیں جو اُنہی حضرات کے ناموں کے ساتھ الماریوں میں چنے ہوئے ہیں اور ایک نظر دیکھ کر ہی احساس ہو جاتا ہے کہ ان الماریوں میں کیسے کیسے جواہر پارے آراستہ ہیں۔ ذاتی ذخیروں کو محفوظ کرنے کا یہ اہتمام ملک کی بعض یونیورسٹیوں اور بڑے کتب خانوں میں بھی ہے اور نہایت سکون بخش ہے۔ میں بطور خاص علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا ذکر کرنا چاہوں گا جہاں برصغیر کی بڑی بڑی شخصیتوں کے کتابوں کے ذخیرے محفوظ ہیں۔
برطانیہ کی چیریٹی شاپس کا ذکر ہو رہا تھا۔ وہاں لوگ ہر روز بلامبالغہ ہزاروں کتابیں دے جاتے ہیں، کچھ وہیں فروخت ہوتی ہیں کچھ کتابیں فروخت کرنے والے دنیا کے مشہور ادارے امیزونAmazon کے توسط سے دستیاب ہوتی ہیں۔ کمپیوٹر میں ان کی فہرستیں دستیاب ہوتی ہیں اور اکثر ہر کتاب کی قیمت صرف ایک پینس ہوتی ہے۔ منافع ڈاک خرچ میں بچنے والی معمولی رقم سے ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے یہ سہولت اردو کتابوں کے حصے میں نہیں آتی۔ یہ کتابیں چیریٹی شاپس کو دی جائیں تو وہ ان کو دوبارہ کاغذ بنانے والے اداروں کے حوالے کردیتے ہیں۔ بس اتنا اطمینان ضرور ہے کہ ان کا وہ حشر نہیں ہوتا جو برطانیہ میں ہمارے کتنے ہی جاننے والوں کی کتابوں کا ہوا۔ لوگ چل بسے، ان کے پسماندگان نے ان کی چھوڑی ہوئی کتابیں کوڑے کباڑ کے پلاسٹک کے کالے تھیلوں میں بھر کر رکھ دیں جنہیں ہر ہفتہ ردّی اٹھا کر لے جانے والے لے گئے اور پھر خدا جانے ان کا کیا حشر ہوا۔
رشک آتا ہے ترکی کے اس نظام پر جہاں لوگ اپنی فالتو کتابیں شیشے کے گھر میں جمع کرا رہے ہیں اور دوسرے لوگ ان سے فیض اٹھا رہے ہیں۔ میں نے ایک اور منظر اسپین میں دیکھا ہے جہاں شام کو جب بازار بند ہو جاتے ہیں ، شہر کے پارکوں میں کتابوں کی دکانیں کھل جاتی ہیں ۔ وہاں دیر تک کتابوں کے شوقینوں کا مجمع لگا رہتا ہے اور یہ خیال آتا ہے کہ علم کے قدر دانوں کی یہ نسل قرطبہ کے زوال کے وقت موجود ہوتی تو اس دور کے عظیم کتب خانوں کے الاؤ جلانے کی اجازت نہ دیتی۔
آخر میں ایک بار پھر برطانیہ کا ذکر جہاں ’ ہے آن وائیHay on Wye‘ نامی ایک قصبے میں صرف ایک کاروبار ہوتا ہے۔ وہاں کچھ اور نہیں، صرف اور صرف پرانی، سیکنڈ ہینڈ کتابیں فروخت ہوتی ہیں اور دنیا بھر کے لوگ اور کہیں جائیں یا نہ جائیں، کتابوں سے بھرے بازار دیکھنے ’ہے آن وائی‘ ضرور جاتے ہیں۔ علم مل جائے اور وہ بھی کوڑیوں کے بھاؤ، کون ہاتھ سے جانے دیتا ہے۔ بس اس کے لئے سینے میں علم کی وہ شمع روشن ہو جس سے محبت کی دعا بچپن سے ہمارے لب پہ آتی رہی ہے اور شکر ہے کہ آج تک آتی ہے۔
تازہ ترین