• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سٹریٹ 39ویسٹ پر میں نے ٹیکسی روکی، گاڑی روکتے ہی لمبے تڑنگے سیاہ فام امریکی نے نیویارک کے میئر کے لتے لینے شروع کردئیے۔ سڑکیں خراب ہیں، ٹریفک کا برا حال ہے یہ صحیح نہیں اور وہ صحیح نہیں، لندن کے بورس یلس ہوں،نیویارک کے میئر بلومبرگ ہوں یا پھر سان فرانسسکو ہو یا پیرس یا سانتا باربرا جیسا کوئی چھوٹا شہرہو یا لیوٹن جیسا چھوٹا قصبہ دنیا بھر کے ماڈرن شہر اپنے مسائل اور خوبیوں کے لئے مقامی حکومت کے سربراہ کو ذمہ دار گردانتے ہیں اگر میں یورپ میں ہوں اور میری گلی میں پانی کھڑا ہوتا ہے تو میرے ٹاؤن کا میئر ذمہ دار ہے، اگر پانی نہیں آرہا ،کوڑا کرکٹ نہیں اٹھایا گیا، زمین کی ٹرانسفر کرانی ہے یا گھر کا نقشہ منظور کرانا ہے سب مقامی حکومت کے ذمہ ہے۔ اسکول اچھا یا برا، اسپتال میں عملہ پورا ہے یا نہیں ذمہ دار مقامی حکومت ہے۔اب آپ اسلام آباد سے موٹر وے پر لاہور کے لئے نکلیں تو کلر کہار کے بعد للہانٹر چینج آئے گا۔ یہ ضلع جہلم تحصیل پنڈدادنخان ہے۔ آپ انٹر چینج سے باہر آئیں دنیا کے خوبصورت پہاڑوں کے سائے تلے ٹوٹی ہوئی سڑک بے ترتیب پھیلی ہوئی آبادی ملے گی جہاں پانی نہیں، گلی نہیں، کوئی اسپتال نہیں اور اسکول نہیں۔ یہ علاقہ ہے دنیا کی دوسری بڑی نمک کی کان کا مالک ،جہاں سیمنٹ فیکٹریاں ، جپسم کے کارخانے حکومت کو اربوں روپے سالانہ ٹیکس دے رہے ہیں لیکن اس ٹیکس کا ایک روپیہ بھی جہلم کو نہیں مل رہا بلکہ سیدھا صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت کے محاصل میں جارہا ہے،جہلم کا سالانہ بجٹ لاہور کے ایک سب ٹاؤن سے بھی کم ہے اگر آپ کی مقامی حکومت محاصل میں حصہ دار نہیں تو اس کی آمدنی نہیں اور ظاہر ہے جب پیسے ہی نہیں تو کاموں کی ذمہ داری بھی ان کے پاس نہیں۔ میں آپ کو یقین سے کہہ سکتا ہوں وزیر اعلیٰ پنجاب جو تمام تر اختیارات کے مالک ہیں ان کو علم بھی نہیں ہوگا کہ للہ ٹاؤن کیا ہے، کھیوڑہ کہاں واقع ہے اور اس میں وزیر اعلیٰ کا قصور بھی نہیں ،کوئی بھی شخص ہر قصبہ یا گاؤں سے واقفیت کا دعویٰ نہیں کرسکتا لیکن مسئلہ کہاں آتا ہے مسئلہ یہاں آتا ہے کہ جب لاہور میں بیٹھے وزیر اعلیٰ جہلم ،چکوال، لودھراں، خانیوال کے نہ صرف مالیاتی بلکہ انتظامی فیصلے بھی خود کرنا چاہے یہ ایک مکمل طور پر ناکام نظام ہے۔
2001ء میں پرویز مشرف کی حکومت نے اس نظام کو توڑنے کی ایک شاندار کوشش کی، بلدیاتی نظام کو ختم کرکے مقامی حکومتوں کا نظام رائج کیا گیا اور پہلی بار صوبائی حکومتوں کے اختیارات میں ضلعی حکومتوں کو موثر حصہ ملا۔2001ء کے قانون میں پہلی بار 36محکمہ جات ضلعی حکومت کو منتقل کئے گئے۔ وسائل کی تقسیم کیلئے صوبائی فنانس ایوارڈ متعارف کروایا گیا جس کے ذریعے صوبے کے مالی وسائل کو اضلاع میں آباد ی رقبہ اور غربت کے فارمولے پر تقسیم کیا گیا تھا۔ یہ ایک شاندار آئیڈیا تھا لیکن پرویز مشرف کے نظام میں ایک بنیادی خامی تھی وہ خامی یہ تھی کہ صوبوں کے اختیارات اضلاع کو منتقل کردئیے گئے لیکن مرکزی حکومت نے اپنے اختیارات صوبوں کو نہیں دئیے۔ اس کے نتیجے میں صوبائی حکومتیں خود کو بے اختیار پاتی تھیں۔ آصف زرداری اور پیپلز پارٹی نے ایک بڑا کام کیا آصف زرداری نے صدارتی اختیارات وفاقی حکومت کو دئیے لیکن ساتھ ہی ساتھ اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعے وفاقی حکومت کی اٹھارہ اہم ترین وزارتیں صوبوں کو دے دیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس شاندار (Devolution)کے بعد مقامی حکومتوں کے نظام کو مزید موثر بنایا جاتا لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ہم نے چار شخصی نظام حکومت قائم کردیا، چاروں وزرائے اعلیٰ ان کا تعلق خواہ کسی بھی پارٹی سے ہو وہ پرانے زمانہ کے بادشاہوں سے بھی زیادہ طاقتور ہیں۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں ایک طرف صوبوں کے وسائل میں بے حد اضافہ ہوا دوسری طرف ان کو وفاق سے اہم ترین محکمے مل گئے۔
اس پر مستزادیہ کہ صوبائی حکومتوں نے مقامی حکومتوں کا نظام ختم کردیا چنانچہ جو 36محکمے اضلاع کو دئیے گئے وہ بھی وزیر اعلیٰ کو مل گئے اور اوپر سے آنے والی اٹھارہ وزارتوں پر بھی وزیر اعلیٰ کا کلی اختیار ہے۔ سوال یہ ہے کہ کوئی بھی شخص کتنا ہی باصلاحیت کیوں نہ ہو کیا اتنے اختیارات اور وسائل کے ساتھ انصاف کرسکتا ہے۔ یقینا نہیں اور پچھلے پانچ سالوں میں صوبائی حکومتوں کی کارکردگی ا س کا ثبوت ہے۔موجودہ صورتحال میں صوبہ سندھ اور پنجاب میں نئے ضلعی نظام کا جوخاکہ دیا گیا ہے وہ سوائے اس کے کچھ بھی نہیں کہ سپریم کورٹ کی آنکھوں میں دھول جھونکی دیا جائے۔آئین کا آرٹیکل 140-Aصوبائی حکومتوں کو پابند کرتا ہے کہ سیاسی، مالی اور انتظامی اختیارات میں اضلاع کو شریک کار بنائیں گے لیکن جن اختیارات کا خاکہ سندھ اور پنجاب کی حکومتوں نے دیا ہے وہ واضع طور پر اس آئینی مینڈیٹ کے مطابق نہیں ہے۔ پنجاب نے تو ایک قدم آگے بڑھ کر غیر جماعتی انتخابات کی بات کی ہے جو آئین کے آرٹیکل 17 کے بھی خلاف ہے اور سپریم کورٹ بینظیر بھٹو کیس میں کہہ چکی ہے کہ سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے سے نہیں روکا جاسکتا۔میری رائے میں مقتدر شخصیات کو یہ سوچنا چاہئے کہ نہ ان سے پہلے لوگ اقتدار میں رہے اور نہ ہی انہوں نے مستقل اقتدار میں رہنا ہے لہٰذا شخصیات کی بجائے ادارہ جاتی بنیاد پر سوچا جائے، نیک نیتی سے مقامی حکومتوں کا نظام ترتیب دیا جائے ۔وسائل میں تمام اضلاع کو شریک کیا جائے اور منتخب میئر، چیئرمین یا ناظم یا جو بھی نام دیں ان کو اتھارٹی دی جائے ،یقین کریں تاریخ صرف ان لوگوں کو یاد رکھتی ہے جو اپنے سے آگے دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وگر نہ وقت کے آگے نہ کوئی ٹھہرا ہے نہ ٹھہر ے گا۔
تازہ ترین