• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سندھ کے قارئین کا مجھ پر سخت دباؤ ہے کہ ہمارے موقف کو تفصیل سے جنگ میں کیوں پیش نہیں کیا جاتا‘ کچھ عرصہ سے جنگ کے کالموں میں مختصر ہی صحیح سندھ کا موقف جو پیش ہونے لگا ہے تو سندھ کے عوام میں جنگ کے ادارے کے بارے میں عجیب و غریب امیدیں پیدا ہوگئی ہیں‘ میرے پاس ایسے کئی مراسلے آئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ جنگ تو سندھ کے بارے میں سب شائع کرنا چاہتا ہے مگر آپ کالم نویس خاص طور پر سندھی کالم نویس شاید اپنے سائے سے ہی ڈر رہے ہیں جس کی وجہ سے آدھا سچ اور آدھا جھوٹ شائع کررہے ہیں۔ میرے خیال میں یہ رائے درست نہیں مگر میں اس حد تک اس رائے سے ضرور اتفاق کروں گا کہ سندھی کالم نویس سندھ کا کیس جنگ کے ذریعے ضرور پیش کرنا چاہتے ہیں مگر Guarded انداز میں‘ ہم نہیں چاہتے کہ نتائج مثبت کے بجائے منفی آئیں‘ میں یہ بات ایک سے زیادہ بار لکھ چکا ہوں کہ اسلام آباد اور دوسری بھاری گدیوں پر بیٹھے ہوئے ہمارے قابل احترام جغادری ٹیلی اسکوپ کے ذریعے ملک بھر کا جو جائزہ لے رہے ہیں اس میں انہیں سندھ میں سب ٹھیک نظر آرہا ہے مگر سندھ کے لوگ سوال کرتے ہیں کہ اگر درست ہے تو چند دن پہلے کراچی کے مدھو گوٹھ اور سندھ کے اکثر ضلعوں میں ایجنسیوں اور سیاسی Activists کے کیسے مقابلے ہوئے جن میں کئی کارکنوں کو دہشت گرد قرار دیکر مار دیا گیا‘ مدھو گوٹھ میں تو کچھ پولیس افسران بھی مارے گئے‘ سب کچھ درست نہیں ہے‘ ریاستی ادارے ان سیاسی کارکنوں کو دہشت گرد کہہ رہے ہیں جبکہ سیاسی تنظیمیں ان آپریشن کو ریاستی دہشت گرد کارروائیاں قرار دے رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری قابل احترام اعلیٰ عدلیہ ان وارداتوں کا بھی سوموٹو نوٹس لے اور حقائق کو سامنے رکھے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ان وارداتوں کے بارے میں ہمارے کچھ چینل ایک زوایہ سے رپورٹ ٹیلی کاسٹ کررہے ہیں جبکہ کچھ سندھی اخبارات ان واقعات کو کسی اور انداز میں رپورٹ کررہے ہیں جس کے نتیجے میں سندھ کے اندر مختلف نسلی گروپوں کے درمیان تفریق بڑھتی جارہی ہے۔ مجھے نہیں پتہ کہ سندھ کے جو قوم پرست سیاسی عناصر اس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں وہ کس حد تک درست ہیں اور کس حد تک غلط ہیں مگر ہم سب کو اس بات کی کھوج لگانی پڑے گی۔ آج میں ایک بات بڑے عرصے کے بعد ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ یہ کوئی 20,15 سال کی بات ہے شاید پرویز مشرف یا میاں نواز شریف کے دور حکومت کی بات ہے‘ میں حیدرآباد میں تھا‘ مجھے سانگھڑ سے ایک پیغام ملا کہ میرے پاس ایک سیاسی شخصیت مہمان ہے وہ کچھ لوگوں سے مشورہ کرنا چاہتی ہے لہٰذا کچھ لوگ ایک گاڑی میں میرے ہاں آرہے ہیں آپ بھی آئیں‘ میں بھی اس گاڑی میں سانگھڑ روانہ ہوگیا‘ آگے ہمارا ایک دوست گاڑی ڈرائیو کررہا تھا‘ پچھلی سیٹ میں میرے اور ایک دوست کے درمیان انقلابی شاعر ابراہیم منشی بیٹھے ہوئے تھے جو بعد میں انتقال کرگئے‘ سارے دوست بات چیت میں لگے ہوئے تھے‘ اچانک ابراہیم منشی نے انتہائی پراسرار انداز میں اپنا منہ میرے کانوں کی طرف کیا وہ کچھ کہنا چاہتے تھے‘ میں نے اپنا کان ان کے لبوں کی طرف کرلیا‘ میں نے ان کے الفاظ سنے‘ وہ عجیب و غریب بات کررہے تھے‘ انہوں نے انتہائی خاموشی سے کہا کہ ”مغل اب میں نے شاعری ترک کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ اب شاعری سندھ کو بچا نہیں سکتی“ میں حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگا‘ انہوں نے لبوں پر انگلی رکھ کر مجھے خاموش رہنے کے لئے کہا اور پھر Whispering کرتے ہوئے کہا کہ سندھ کو اب فقط بندوق بچاسکتی ہے‘ میں نے بھی شاعری ترک کرکے بندوق اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے‘ کسی دن آپ یہ بات سن سکتے ہیں کہ ابراہیم منشی کسی ان کاؤنٹر میں مارے گئے۔ میں حیران تھا‘ میں بولنا چاہتا تھا مگر انہوں نے مجھے سختی سے خاموش رہنے کا اشارہ کیا‘ اس کے بعد ان سے اس ایشو پر بات کرنے کا موقع نہ مل سکا اور دریں اثناء وہ انتقال کرگئے‘ یہاں اس بات کا ذکر کرنے کا مطلب یہ واضح کرنا ہے کہ سندھ کافی عرصے سے خوش نہیں ہے اس کا مداوا کیا جائے‘ اب جب چند دنوں سے سندھ کے اندر کچھ غیر سنجیدہ دہشت گرد کارروائیاں ہورہی ہیں یا ایسے عناصر کے خلاف سیکورٹی ایجنسیز کا آپریشن ہورہا ہے تو کیا یہ سب وقتی ہے یا یہاں سے بھی بلوچستان کا راستہ جاکر نکلے گا‘ مجھے ان ایشوز پر تفصیل سے لکھنا ہے مگر فی الحال میں ڈبل مائنڈ ہوں کہ جو میں لکھنا چاہتا ہوں اس کا ہوسکتا ہے کارروائیوں میں ملوث عناصر بھی غلط مطلب لیں، تو ہوسکتا ہے کہ ہمارے ایجنسیوں کے ”اصل تے وڈے“ بھی غلط مطلب لیں اور بیچ میں‘ بے چارا میں مار جاؤں‘ لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ میں ان باتوں پر عمران خان‘ نواز شریف اور الطاف حسین صاحب کے کل کے فرمودات کا جائزہ لیکر اپنی آراء پیش کروں‘ ان فرمودات میں مجھے سب سے خطرناک تجویز تحریک انصاف کے سربراہ کی وہ تجویز محسوس ہوئی جو انہوں نے فاٹا‘ کے پی کے‘پنجاب اور بلوچستان میں مذہبی انتہا پسندوں کی طرف سے جاری بے دریغ دہشت گردی کو روکنے کے لئے وزیر اعظم نواز شریف کو دی‘ واضح رہے کہ اطلاعات کے مطابق نواز شریف نے مختلف سیاسی جماعتوں کی ایک اے پی سی بلاکر اور اس میں فوج کے سربراہ اور سیکورٹی کے سربراہوں کو بلاکر اس ایشو پر ڈسکس کرکے موجودہ انتہا پسند دہشت گردوں کو ختم کرنے کے سلسلے میں حکمت عملی بنانا تھی‘ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ عمران خان نے اس تجویز کو رد کرکے ایک انتہائی عجیب و غریب اور خطرناک تجویز پیش کی کہ اس دہشت گردی کو روکنے کے لئے حکمت عملی بنانے کے لئے وزیر اعظم فقط ان کا اور فوج کے سربراہ کا اجلاس بلائیں‘ جناب کیوں۔ یہ سندھ اور بلوچستان کو کیوں آؤٹ کیا جائے؟ کیا سندھ اور بلوچستان پاکستان کا حصہ نہیں ہیں؟ کیا بلوچستان مسلسل فرقہ وارانہ دہشت گردی کا نشانہ نہیں بن رہا ہے‘ کیا خود سندھ اور اس کا ایک بڑا شہر کراچی نہ فقط فرقہ وارانہ دہشت گردی مگر کافی عرصے سے نسلی دہشت گردی کا نشانہ نہیں بن رہے ہیں تو پھر دہشت گردی کے بارے میں حکمت عملی تیار کرتے وقت سندھ اور بلوچستان کو کیوں آؤٹ کیا جارہا ہے؟ بلوچستان کے لوگ تو اس کا سیریس نوٹس لیں گے مگر سندھ کے لوگ بھی اس نئے رجحان کا نوٹس لئے بغیر نہیں رہیں گے‘ خاص طور پر اس وقت جب کافی عرصے سے سندھ میں سندھی Activists کی گمشدگی‘ ان کے پراسرار طور پر مارے جانے اور ایسے عناصر کی طرف سے سندھ میں فی الحال Half Hearted قسم کی دہشت گرد کارروائیوں کی اطلاعات بتدریج بڑھنے لگی ہیں۔ میں ویسے بھی سندھ کی موجودہ صورتحال پر ایک جامع کالم لکھنا چاہتا ہوں۔
تازہ ترین