• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شرمناک آپ کے نزدیک گالی نہیں تو کوئی اور گالی دے لیجئے، اگر عدلیہ کا کردار شرمناک ہے تو میں ایک لمحے کے لئے بھی مُنصفی کی اِس نشست پر نہیں بیٹھوں گا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی زبان سے جب یہ الفاظ ادا ہو رہے تھے تو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اِن الفاظ کی گواہی اُن کی زبان ہی نہیں دے رہی بلکہ اُن کا پورا وجود بول رہا ہے ۔ جسٹس خواجہ گفتار کا غازی نہیں اُن کا ماضی اس پرگواہ ہے۔
عمران خان نے بے احتیاطی کی اور اب دھیمے لہجے میں پارٹی کے رہنما اور موکل عمران خان کے لفظ ”شرمناک“ کی توجیہات معروف قانون دان حامد خان کر رہے تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ عمران اعلیٰ عدلیہ سے متعلق ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔ تحریک انصاف کے رہنما نے یہ بات ریٹرننگ افسران جو کہ انتخابات میں دھاندلی کی بنیادی وجہ تھے کے کردارکے بارے میں کہی ہے ۔ وکیل کی یہ مجبوری ہوتی ہے کہ حقائق جاننے کے باوجود وہ ایسی توجیہات پیش کرتا ہے جس سے اُس کے موکل کی بے گناہی ثابت کی جا سکے وگرنہ حامد خان کوئی ایسے لاعلم شخص نہیں جنہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ جناب عمران خان نے صدارتی انتخاب کی تاریخ کے تعین سے متعلق راجہ ظفر الحق کی درخواست پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپنے ردِعمل میں بے احتیاطی کی انتہا کر دی تھی ۔ حامد خان کے دلائل سے تحریک انصاف کی رہنما محترمہ شیریں مزاری شاید مطمئن نہیں تھیں اُن کے چہرے پر مختلف اُتار چڑھاؤ سے یہ واضح نظر آ رہا تھا۔ وہ کئی بار اپنی نشست سے اٹھیں اور عمران خان کے کان میں کچھ کہتی رہیں۔
عمران محترمہ کی بات سُن کر مسکراتے رہے مگر دھن کی پکّی شیریں مزاری نے آخری بار کوئی ایسا حربہ آزمایا کہ عمران خان اُٹھ کر عدالتی روسٹرم پر چلے گئے اور اپنے وکیل کے کان میں کچھ کہا۔ حامد خان نے عدالت سے استدعا کی کہ اُن کے موکل کو ذاتی طور پر کچھ کہنے کی اجازت دی جائے۔ چیف جسٹس سے اجازت ملنے پر عمران خان نے کہا کہ وہ واحد لیڈر ہیں جنہوں نے ججوں کی بحالی کیلئے قید کاٹی، چیف جسٹس نے کہا عمران آپ ایسی بات نہ کریں یہ کسی فرد واحد کی بحالی کا مسئلہ نہیں تھا اور اِس جدوجہد میں وکلاء، ذرائع ابلاغ اور زندگی کے ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے لازوال قربانیاں دیں۔ اِس جدوجہد نے ایک نئی تاریخ کی بنیاد رکھی۔ عمران خان نے اپنے کہے گئے پر بات کرنے کے بجائے جب موضوع بدلنے کی کوشش کی تو جناب چیف جسٹس نے کہا کہ آپ تشریف رکھیں آپ کے وکیل بات کریں گے۔ عمران خان نے بھری عدالت میں یہ کہا کہ وہ واحد لیڈر ہیں جو چیف جسٹس کی بحالی کے لئے قید ہوئے حالانکہ کئی لیڈر اِس جدوجہد میں پس دیوار زنداں گئے، قاضی حُسین احمد مرحوم عدلیہ بحالی تحریک میں ایک بار طویل قید کا شکار ہوئے جبکہ جناب عمران اپنی جس گرفتاری کا ذکر فرما رہے تھے اُس دِن قاضی صاحب کو بھی دوسری بار عدلیہ بحالی تحریک میں گرفتار کیا گیا تھا۔
جناب عمران خان کی پہچان ایک جرأت مند اور صاف گو رہنما کی ہے۔ تحریک انصاف شعبہ خواتین کی سابق صدر محترمہ فوزیہ قصوری نے الیکشن فنڈز میں خوردبرد اور دیگر معاملات پر میرٹ کی پامالی کے حوالے سے زور شور سے الزامات لگائے تھے مگر اِس سب کچھ کے باوجود ہم یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان نے بددیانت اور آزمودہ قیادت کے خلاف جاندار آواز بلند کی جس پر قوم نے مثبت ردِعمل کا اظہار کر کے تحریک انصاف کو بڑی کامیابی سے نوازا۔ یقیناً انتخابات میں دھاندلی ہوئی مگر کیا یہ بات درست نہیں کہ اِس دھاندلی کو روکنے کے لئے تحریک انصاف کوئی ٹھوس لام بندی نہ کر سکی۔
عمران خان کو چاہئے کہ وہ ملنے والی کامیابی پر نہ صرف خدا کا شکر ادا کریں بلکہ جس صوبے میں اُن کو حق حکمرانی نصیب ہوا ہے اُس خطے میں دن رات ایک کر کے حکمرانی کی ایسی مثال قائم کریں کہ آئندہ پورے ملک میں اُن کی واضح کامیابی کو دنیا کی کوئی طاقت نہ روک سکے۔ سچ کہا جناب جسٹس جواد ایس خواجہ نے، ریٹرننگ آفیسرز بھی اس معاشرے کا حصہ ہیں سب کے سب فرض شناس اور مثالی نہیں ہو سکتے مگر مجموعی الزام کے بجائے جہاں جہاں ریٹرننگ آفیسرز کے خلاف شکایات ہیں اور دائر درخواستوں پر عملدرآمد نہیں ہو رہا تو اُن سے متعلق قواعد کے مطابق اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کیا جا سکتا ہے ۔
صوبہ سرحد میں ابھی دو ماہ مکمل نہیں ہوئے اور بدیانتی کی کہانیاں زبان زدِعام ہیں تو کیاان کا تعلق آپ کا کردار سے جوڑا جائے، نہیں، آپ عملی میدان میں پہلی بار داخل ہوئے ہیں ۔ آپ کو ابھی بہت سرد وگرم دیکھنا ہے۔ اِس جدوجہد کو ترک نہیں کرنا۔ ایک فہیم، زیرک ، اولوالعزم اور بصیرت مند رہنما کے طور پر آگے بڑھنا ہے۔ لاپتہ افراد کے ملزم ، لوٹی گئی دولت کی واپسی، اعلیٰ مجرمین کی گرفتاری اور دیگر مافیاز وہ ہر جہت سے حملہ آور ہیں ۔ جج بھی یقینا فرشتے نہیں ہم جیسے گوشت پوست کے انسان ہیں مگر انہیں لوگوں کی خواہشات نہیں، آئین کے مطابق اقدامات اٹھانا ہوتے ہیں ۔
جناب عمران ، جسٹس جواد خواجہ نے آپ کی پیشی کے موقع پر 2007ء کے بعد کی عدلیہ کے جس تاریخ ساز کردار کی بات آپ کو سمجھانے کی کوشش کی ہے تو اُس بات کو سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ جناب والا کسی نے آپ کو نہیں کہا کہ آ کے ہم سے معافی مانگو ، تو آپ یہ واویلا کر رہے ہیں کہ ” ہرگز معافی نہیں مانگوں گا “ بات اعتماد کی ہے اور آپ توجیہات اور الفاظ کو توڑنے مروڑنے کے چکر میں پڑ گئے تو اعتماد کھو بیٹھیں گے۔ اعتماد تو شیشہ ہوتا ہے جو ایک بار ٹوٹ گیا تو کبھی جُڑتا نہیں۔
تازہ ترین