• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سقراط عدالت گئے تو انہیں دیکھ کر ”ایوتھ پھرو“ نامی دانشور نے پوچھا ”آپ یہاں کیسے؟“ سقراط نے جواب دیا ”میرے خلاف دائر چارج شیٹ میں یہ الزامات عائد کئے گئے ہیں کہ میں نوجوانوں کے ذہنوں کو پراگندہ اور معاشرے میں بگاڑ پھیلا رہا ہوں“۔ سقراط نے عدالت سے کہا ”اگر عدالت نے مجھے سزائے موت دی تو پھر ایتھنز کے مست گھوڑے کو سبک رفتار کون کرے گا؟“ سقراط نے اِدھر اُدھر دیکھا،کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا ”میں پیش گوئی کرتا ہوں میرے جانے کے بعد تمہیں یقینا اس سے زیادہ بھاری سزا بھگتنا پڑے گی۔ اگر تم سمجھتے ہو دوسروں کو ہٹاکر تم انہیں اس بات سے باز رکھ سکو گے کہ تمہاری ملامت نہ کریں تو تم غلطی پر ہو۔ بہتر طریقہ یہ ہے کہ تم مجھے سزا دینے کے بجائے اپنی اصلاح کرو۔ اپنے گریبان میں جھانکو کہ فساد اور بگاڑ کی جڑ کون ہے؟“ 399 قبل مسیح کے نامور فلسفی سقراط کے یہ الفاظ میرے ذہن کے کینوس پر علماء کے خلاف منفی پروپیگنڈے سے ابھرے۔ میرے کالم نگار دوست جناب محمد بلال غوری نے علماء سے شکوہ کیا بلکہ الزام لگایا ہے کہ وہ ملک وقوم کی صحیح رہنمائی کا فریضہ سرانجام نہیں دے رہے۔ اسلام کو خالہ جی کا باڑا سمجھ کر من مانیاں کررہے ہیں۔ معاشرے میں فساد اور بگاڑ کا سبب بن رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے جب بھی کوئی نئی ایجاد سامنے آتی ہے تو علماء اس کو ناجائز قرار دے دیتے ہیں۔ جب مائیک آیا تو علماء نے اس میں نماز پڑھانے کو ناجائز قرار دیا۔ اسی طرح انگریزی، ریڈیو، ٹی وی ،کمپیوٹر، انٹرنیٹ وغیرہ کا استعمال۔
ہم سمجھتے ہیں معترض طبقے کو کئی مشکلات ہیں۔ ایک مشکل اس لئے پیش آرہی ہے کہ مغرب ایک طویل عرصے تک ”مذہبی“ تھا لیکن وہاں پاپائیت نے ہی اعتدال پسندوں کو باغی بنایا۔ پہلے مغربی ممالک میں ساری قوت اور طاقت کا سرچشمہ مذہبی طبقہ تصور ہوتا تھا اور یہ مذہبی طبقہ ترقی کا مخالف تھا۔ یہ مذہبی طبقہ اتنا مضبوط تھا کہ یہ چاہتا تو حلال کو حرام قرار دیتا اور حرام کو حلال گردان دیتا۔ یہ لوگوں میں بخشش کے پروانے جاری کرتا۔ اس نے لوگوں کا استحصال کیا تھا۔ یہ عیسائی مذہبی طبقہ اپنی من مانی سے مذہب کی خوفناک تشریح کرتا تھا۔ جو ان کی مرضی میں آتا تھا، اسے مذہب کا نام دے کر لوگوں کا استحصال کرتے تھے۔ انہوں نے ترقی اور خوشحالی کے تمام راستے بند کررکھے تھے۔ ان کے پاس وحی کی تعلیمات نہیں تھیں۔ عیسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب جو کچھ تھا، اس میں بھی اتنی تحریفات کی گئی تھیں کہ جسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کہنا زیادتی تصور ہوگا۔ جو چیز انہیں پسند آئی، وہ ”مذہب“ کا حصہ قرار پایا اور جس چیز سے انہیں بیر ہوا، اسے ممنوع قرار دیا۔ یہاں تک کہ عام لوگوں کو بھی محسوس ہونے لگا عیسائی مذہبی طبقہ ہمارا استحصال کررہا ہے لہٰذا یہ پسا ہوا طبقہ اُٹھا۔ اس نے سوچا ہمارے تمام مشکلات کا سبب صرف اور صرف ”مذہب“ ہے۔ جب تک ہم اس مذہب سے نجات حاصل نہیں کریں گے، تب تک ہمارے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ ہم ترقی نہیں کرسکیں گے اور واقعی وہ حق پر تھے۔ ”مذہب“ کے نام پر عیسائی مذہبی طبقے نے اپنی قوم کا استحصال کر رکھا تھا۔
اسلام جامد مذہب نہیں ہے۔ یہ ہر زمانے اور ہر دور کے لئے قابل قبول ہے۔ طلوعِ اسلام کے ابتدائی دنوں کی بات ہے۔ صحابیٴ رسول کا یہودی کے ساتھ بحث مباحثہ ہو گیا۔ بات چیت مختلف موضوعات سے ہوتی ہوئی رہن سہن اور طور طریقوں تک جا پہنچی۔ ایک دوسرے کے طرزِ زندگی اور بودوباش پر اعتراضات کئے جانے اور خامیاں نکالی جانے لگیں۔ یہودی نے غصے میں کہا ”تمہارے نبی کیسے ہیں جو تمہیں قضائے حاجت کے لئے بیٹھنے کا طریقہ تک بتاتے ہیں۔ بھلا یہ چیزیں سکھانے اور بتانے کی ہیں؟“ اس پر مسلمان نے فخر سے جواب دیا ”ہاں! ہمارے نبی ہمیں ہر چیز کا طریقہ بتاتے اور سلیقہ سکھاتے ہیں۔ ہمیں تعلیم دی ہے استنجا کیسے کیا جائے؟ کیسے بیٹھا جائے؟ کون سے ہاتھ سے طہارت کی جائے؟ گوبر، ہڈی، کاغذ اور کھانے پینے کی اشیا کے ساتھ طہارت سے روکا ہے“۔ قصہ مختصر یہ کہ مسلمان نے اس بات پر فخر کیا کہ ہمارے نبی نے زندگی گزارنے سے متعلق ہمیں تمام باتیں، رہن سہن کے طور طریقے، بات چیت کے آداب، خریدوفروخت کے احکام، لین دین اور معاملات طے کرنے کے اصول بتائے ہیں۔ ہماری اپنی تہذیب وثقافت ہے۔ کون سا شعبہ ہے جس کے متعلق ہمیں شریعت سے رہنمائی فراہم نہیں کی گئی؟ اس کا مطلب ہے اسلام ایک مکمل ضابطہٴ حیات ہے۔ اس میں پیدائش سے موت تک، شادی بیاہ سے غمی خوشی تک، بچپن سے لڑکپن تک، نوجوانی سے بڑھاپے تک، نجی معاملات سے سرکاری کاموں تک، عائلی وخانگی زندگی سے لین دین کے معاملات تک، کھیتی باڑی سے تجارت وصنعت تک، بچوں کی تربیت سے بوڑھوں کے حقوق تک، ملکی سیاست سے عالمی تعلقات تک، اپنوں سے دوستی کے احکام سے لے کر یہود وہنود، مشرکین، نصاریٰ اور دیگر قوموں اور مذاہب کے ساتھ تعلقات قائم کرنے تک سب کچھ موجود ہے۔ دینِ اسلام واحد ایک مذہب ہے جس میں اتنی تفصیل کے ساتھ احکام بیان کئے گئے ہیں۔ ہمارے دین میں زندگی کے تمام گوشوں سے متعلق کافی شافی رہنمائی موجود ہے۔
علماء، انبیاء کے وارث ہوتے ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد انسانوں کی دینی مذہبی رہنمائی کرنا ہوتا ہے۔ کسی بھی معاملے میں شریعت کیا کہتی ہے؟ بتانا ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ علماء نے کبھی بھی ایسی چیزوں کے استعمال سے منع نہیں کیا جو شریعت کے خلاف نہ ہو۔ علماء عصر حاضر کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرتے ہیں تاکہ عوام دینی اعمال واحکام کو بوجھ تصور نہ کریں۔ وہ شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے دقتوں اور مشکلات کو کم سے کم اور ختم کرنے کی بھرپور کوشش کرتے رہے ہیں۔ علماء جدید چیزوں کے مخالف نہیں، ہر معاملے میں جتنی رواداری کا مظاہر علماء کررہے ہیں اتنی شاید کوئی اور طبقہ نہ کررہا ہو۔ علماء نے الٹرا ماڈرن اور طبقہ اشرافیہ کے نوجوانوں کو دینی تعلیم اور مہذب اخلاق سے آراستہ کیا ہے اور انتہائی شفاف اور محدود مالی وسائل میں محیر العقول کارنامے انجام دیئے ہیں۔ اس پر امریکہ و مغرب حیرت سے گنگ ہیں، مگر ہمارے ہاں کا ایک طبقہ بلاوجہ شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بننے کی سعی لاحاصل میں لگا ہوا ہے۔ یہ ہزاروں علماء ہی تو ہیں جوگمراہ کن نظریات کا تسلی بخش، مسکت اور ٹھوس علمی جواب دیتے ہیں۔ چودہ سو سال گزرنے کے باوجود دینِ اسلام کو اپنی اصلی اور صحیح صورت میں باقی رکھنے کا فریضہ علماء نے کماحقہ ادا کیا ہے۔
دنیا میں کئی ملتیں اور درجنوں مذاہب ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے ہمارے پاس بھی کتابیں ہیں۔ یہودی اور عیسائی کہتے ہیں ہمارے پاس انجیل اور تورات ہیں، مگر حقیقت یہ ہے آج کوئی عیسائی اور یہودی یہ نہیں کہہ سکتا ہمارے پاس واقعی وہ کتاب ہے جو اللہ کی طرف سے نازل کی گئی ہے۔ تورات کی 39 کتابیں ہیں، انجیل کی 27 کتابیں ہیں۔ ان میں کسی کتاب، کسی باب یا کسی ایک صفحہ، یہاں تک کسی ایک سطر پر کوئی یہودی یا عیسائی قسم کھاکر نہیں کہہ سکتا یہ وہی الفاظ ہیں، جو حضرت جبریل ، اللہ کی طرف سے لے کر آئے تھے۔ ہر مسلمان پورے یقین اور اہتمام کیساتھ کہہ سکتا ہے یہ پورا قرآن ”الم“ سے ”والناس“ تک، وہی قرآن ہے جو اللہ نے جبریل  کے ذریعے نازل کیا۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک سنت اور ایک ایک ادا کو محفوظ رکھنے کا سہرا بھی انہی کے سر ہے۔ آج کوئی بھی مسلمان یہ بتاسکتا ہے کہ ہمارے نبی کس طرح سفر کرتے تھے؟ بیوی بچوں کے ساتھ کیسا رویہ تھا؟ ملنے جلنے والوں کے ساتھ کس انداز سے پیش آتے؟ کس وقت سوتے، کس وقت اُٹھتے؟ کس وقت عبادت کرتے، کس وقت لوگوں سے ملاقات کرتے؟ علماء آپ کو بتاسکتے ہیں آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی میں کون سا اور کیسا لباس پہنا؟ کھاتے وقت کتنی اُنگلیاں استعمال فرماتے تھے؟ آپ کی زندگی کا ہر ہر پہلو، یہاں تک کہ نجی زندگی محفوظ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب اللہ کے سامنے کھڑے ہوتے تھے، مناجات کرتے تھے، دُعائیں مانگتے تھے؟ کن الفاظ میں مانگتے تھے؟ محراب و منبرکے مالک اپنے مقتدیوں کو اور علماء اپنے عوام کو قرآن و سنت اور فقہ کی روشنی میں ہی مسائل بتاتے ہیں، بناتے نہیں۔ ان کا کام یہی ہے کہ لوگوں کی شرعی رہنمائی کریں اور اس میں وہ مکمل کامیاب ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے بتانے کا یہ کام علماء بخوبی نبھارہے ہیں۔ خدارا! انہیں مطعون اور رسوا نہ کیجئے۔
تازہ ترین